پادری نے اعلان کیا کہ
جس نے جنت خریدنی ہے وہ ہم سے رابطہ کرسکتا ہے
اور جاہل لوگ جنت حاصل کرنے کےلیے بڑی سے بڑی رقم ادا کرنا شروع ہو گئے
ایسے میں ایک عقلمند شخص نے جہالت کا شکار ان لوگوں کو اس احمقانہ کام سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن سب بے سود
آخر ایک دن اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی
وہ گرجا گھر گیا اور جنت بیچنے کے انچارج پادری سے کہا
مجھے جہنم خریدنا ہے۔ کیا قیمت ہے؟
پادری حیران ہوا اور کہنے لگا۔ جہنم؟
اس شخص نے کہا۔ ہاں جہنم
پادری خوش ہوا کہ اب جہنم بیچ کر بھی کمائی کر سکوں گا
لہذا سوچے بغیر قیمت بتائی ۔۔ 3 سکے
اس آدمی نے جلدی جلدی رقم ادا کی اور کہا
‘جہنم کی دستاویز دے دو’
پادری نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھا
“جہنم کی دستاویز”
وہ شخص خوشی خوشی دستاویز اٹھا کر چرچ سے نکل آیا اور شہر کے مرکزی چوک پر کھڑا ہو کر چلایا
میں نے جہنم خرید لیا
یہ اس کی دستاویز ہیں اور میں کسی کو بھی اس میں داخل نہیں ہونے دوں گا لہذا تمہیں اب جنت خریدنےکی ضرورت نہیں کیونکہ میں کسی کو جہنم میں نہیں جانے دوں گا
یہ شخص تھا”سقراط”جس نےاپنے اس اقدام سےلوگوں کو انکی لاعلمی کی وجہ سے کی جانے والی حماقت سےنجات دلائی
دنیا میں ایک ہی خوبی ہے اور وہ ہے آگہی
جبکہ جہالت ایک گناہ ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے جس کی معافی نہیں ہے
اس ایک واقعہ کو پڑھیں بار بار پڑھیں ، سوچیں اور محسوس کریں اس شخص کے کرب اور تکلیف کو جس کو اس کی آگہی نے ازیت میں مبتلا کررکھا تھا جو جہالت کے خلاف بول رہا تھا اور کوئی اس کی نہیں سن رہا تھا۔جہاں جنت اتنی آسانی سے چند سکوں کے بدلے مل رہی ہو کوئی کسی کی بات کیوں سنے گا ۔مذہب کے بازار میں روحانی پیشوا ہر چیز حتیٰ کہ جنت تک فروخت کررہے تھے جس کے جیب میں دام تھے وہ اپنی جنت کھری کررہا تھا ۔
انسانی تاریخ کا بغور جائزہ لیں کہ بیچنے والوں نے کیا کیا نہیں بیچا حیرت اس پر نہیں ہے بلکہ مقام حیرت تو یہ ہے کہ خریداروں کی کبھی کمی نہیں رہی آپ کچھ بھی بیچنے والے ہوں چاہے وہ مذہب ہی کیوں نا ہو خریدار بہت ۔ بیچنے والوں نے کیا کیا نہیں بیچا حب الوطنی کا چورن بیچا ، سیاست دانوں نے سہانے خواب بیچے ، برابری اور مساوات کا سامان اسقدر تواتر کے ساتھ بیچا کہ گویا طے ہوگیا کہ الگ خطہ لے کر سب برابری کے ساتھ زندگی گذاریں گے ۔قانون کی بالادستی کے خواب بیچے اتنے سہانے خواب کہ چاہ کر بھی ایک مدت تک ہم آنکھیں کھولنے کو تیار نہیں تھے ۔مگر جب آنکھیں کھولیں تو احساس ہوا کہ بالادست تو قانون سے بھی بالادست ہیں۔فرق یہ پڑا کہ اس بالا دست طبقے میں راج موہن ، موتی لال کی جگہ احمد دین ، محمد قاسم نے لے لی تھی۔
اچھوت اس سماج میں بھی اچھوت تھے تقسیم ہوئی صرف زمین ہی نہیں بدنصیبی بھی اچھوتوں میں برابر تقسیم ہوئی ۔ خوابوں کی ٹوکریاں کندھوں پر اٹھاے سرحد کے اس پار پہنچے تو معلوم ہوا کہ اچھوت اس سماج میں بھی اچھوت ہیں مگر اب کیا ہوسکتا تھا بس صبر کی آیات کا ورد کرتے ہوئے صبر کرگئے ویسے بھی ہم نام اور ہم مذہب سے ملنے والے دکھ کی تکلیف کم محسوس ہوتی ہے ۔وہ تو غیر تھے اس لیئے ان کے دئیے ہوئے دکھ بھلائے نہیں بھولتے۔
پہلے سے ابتر حالت میں وقت گذرنے لگا ایسے میں سقراط کی جگہ جالب نے لے لی اور جب دنیاوی جنت کے خریداروں اور مالکوں کو دیکھا اور پہچان لیا تو بیچ بازار چلا اٹھا کہ دن پھرے ہیں فقط امیروں کے ۔۔ پاوں ننگے ہیں بے نظیروں کے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔جالب نے سقراط کی پیروی نہیں چھوڑی آخری سانس تک شعور اور آگہی کو پھیلانے کو سلسلہ جاری رکھا مگر جہالت کا راج تھا اور جہالت کی اندھی تقلید میں مبتلا لوگوں کو نا تو جالب میں کوئی دلچسپی تھی اور ناہی جہالت کے اندھیرے سے نکلنے کی خواہش تھی
جالب کو کیا روئیں فیض کی چیخ وپکارپر کسی نے کان نہیں دھرا ۔فیض اس عہد کے جنت بیچنے والے پجاریوں سے مل کر پکار اٹھا کہ چلی ہے رسم کہ کوئی نا سر اٹھا کے چلے مگر جھکے ہوئے سروں کو غلامی کی ادا پسند تھی ۔یہ فیض ہی تھا جس کو دکھ تھا کہ سراٹھا کرچلنے کی اجازت نہیں ہے اور اکیلے بندے کا دکھ معاشرے کا دکھ نہیں ہوتا لوگوں کے دکھ اور مسائل کچھ اور ہوتے ہیں بہت کم ہوتے ہیں جن کو فراز کی طرح ان کے غنیم سے پیغام ملتے ہیں کہ اس کے لشکری خیمہ زن ہیں چاروں طرف اور اس کے خوابوں کے محل کے ہر ہر برج ہر مینارے پر کماں بدست عسکری شوریدہ سر سوچوں کے خلاف پہرہ دے رہے ہیں ۔
فراز کے پیروکار ہم بھی ہیں اس کی راہ پر چلنے کا شوق کسی دن جان کے درپے ہوگا مگر کیا کریں فراز ، فیض اور جالب کی پیروی کرتے ہوئے سر اٹھا کرچلنے کا سودا سر میں سمایا ہے ۔سقراط کی بیچ بازار چیخوں کو انسانی عہد کی معتبر آوازوں میں شمار کرتا ہوں ۔جہالت نہیں دیکھ سکتا یہ جو شعور اور آگہی ہے اس کا پرچار ضروری ہے فرض عین ہے سو فرض ادا کرنا ہے ۔
یہ جو زندگی ہم گذاررہے ہیں یہ جہنم کی زندگی ہے ۔بھوک ، غربت ، افلاس ، بیماریوں ، رہزنوں کی گولیوں کے سائے تلے زندگی گذارنا جنت کی زندگی تو نہیں ہوسکتی تو جہنم میں رہ رہے ہیں مگر افسوس یہ کہ عام آدمی کے پاس جنت خریدنے کو جیب میں چند سکے نہیں ہیں ۔جن کی جیبوں میں درہم ودینار ہیں یہاں بھی جنت ان کی ہے شائد وہاں کی جنت کے بھی وہی حقدار ہیں اور لگتا یوں ہے کہ جیسے ہم یہاں حساب دینے کے لیے آئے ہیں اور وہاں کا حساب ابھی باقی ہے ۔حساب میں خسارہ بھی رہا تو اطمینان یہ ہے کہ جائیں گے تو بالآخرجنت میں ہی جائیں گے کہ جہنم تو سقراط پہلے ہی خرید چکا ہے