میرے پاس چھ عدد انتہائی بدتمیز اور نالائق مُرغیاں ہیں ۔ ائیر کولر پر ، کُھلی حویلی میں ، درختوں نیچے ، بس جہاں دل کرے انڈہ دے دیتیں اور میں ڈُھونڈ ڈُھونڈ کر چُنتا رہتا ۔ ایک مُرغی کی عادت ہے پہلے وہ کھانے والا ڈونگا یا پرات ڈھونڈتی اور پھر اُس کو میٹرنٹی ہسپتال سمجھ کر اُس میں انڈہ دے دیتی ۔
پرسوں دن رات بہت سخت مزدوری کی ۔ کل دوپہر ذرا کی ذرا چارپائی پہ لیٹا اور پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اور کیسے آنکھ لگ گئی ۔ بس سوتے ہوئے کُچھ شک سا پڑتا رہا کہ مُرغی جیسی کوئی چیز میری ٹانگوں درمیان کافی دیر بیٹھی رہی ۔
دونوں بیٹیاں اور اُن کے سات ماہ تا سات سال عمر کے بچے آئے ہوئے ۔ اچانک بچوں کے ہنسنے کی آواز سے آنکھ کُھلی ۔ دیکھا تو ساتوں نواسیاں نواسے دروازے اور کھڑکی کی جالی ساتھ آنکھ لگا کر مُجھے دیکھ رہے ۔ اُن کی نظروں کا مرکز میری ٹانگیں تھیں ۔
لیٹے لیٹے بچوں کی نظر کا پیچھا کرتے اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان دیکھا تو ایک انڈہ پڑا تھا ، اب بچے مشکوک سی نظروں سے مُجھے دیکھیں ، انڈہ دیکھیں ، انڈہ دیکھیں ، مُجھے دیکھیں ۔
انڈہ اُٹھا کر میز پہ رکھنے لگا تو بچوں نے شور مچا دیا ۔ ابو نے انڈہ دیا ، ابو نے انڈہ دیا ۔ بہتیرا کہا کہ یار انڈہ میں نے نہیں ، مُرغی نے دیا ہے پر وہ نا مانے ۔ ساتوں مل کر شور مچاتے رہے کہ ابو نے انڈہ دیا ۔ ابو نے انڈہ دیا ۔
بچوں کا شور سُن کر بیٹیاں بھی آ گئیں ۔ تینوں بیٹے بھی پہنچ گئے ۔ پانچوں نے بچوں سے بات پوچھی تو بچے بولے کہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے ابو کی ٹانگوں درمیان انڈہ پڑا دیکھا ۔ ابو نے ہی انڈہ دیا ۔ یہ کام مرغی کا تو ہو ہی نہیں سکتا ۔ اور تو اور وہ جو دو سال والی نواسی ہے ، جِسے ابھی پورا بولنا بھی نہیں آتا وہ بھی زور زور سے تالی بجاتی ، کودتی پھاندتی شور مچاتی رہی کہ ، ابو دندا دیا ، ابو دندا دیا ، اور میں ایک مُجرم طرح بچوں کا الزام سُنتا رہا ۔
مُجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ مرغی کو میرے سے کیا دشمنی تھی ۔ اُس کَمبخت ناہنجار نے میری ٹانگوں میں بیٹھ کر کیوں انڈہ دیا ۔ وہ ایسی حرکت کرتی ہی کیوں ہے کہ اُسے جا بجا انڈہ دینے پر مجبور ہونا پڑے ۔
بہر طور ، میں اپنے نواسے نواسیوں کی تسلی خاطر ، واشگاف الفاظ میں اُس انڈے سے مکمل بریت، لاتعلقی اور اجنبیت کا اعلان کرتا ہوں ، جو مُرغی میرے سوتے ہوئے میری ٹانگوں درمیان بیٹھ کر دے گئی ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...