اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہےشجر کےساتھ
___
شکیب جلالی کا یہ اداس کردینے والا خوبصورت شعرپڑھتے انورمقصود کہتے ہیں
‘معین نے مجھکوایک بیل کی طرح جکڑاہواتھا
بتیس برس میں نے معین کے لیے لکھا’
‘اکثرمیں لوزٹاک کی طرح کاکوئی پروگرام لکھتا ہوں تو اپنا نام لکھ کے اگلی لائن میں معین ہی لکھ دیتاہوں
پھرکاٹناپڑتاہےمجھےکسی اورکانام لکھنا پڑتاہے’
ساڑھےسات سال پر محیط لوزٹاک کےکتنےکردارہوں گےجن میں معین اخترجلوہ افروزہوئےاوراور ایک طلسم کے اسیرہم کہ
؎ تجھ کوچاہا تو اور چاہ نہ کی
انورکے کتنے ہی کاٹ دارذومعنی جملے معین کی ادائیگی سے دودھاری تلوار بنے
بارش میں کھمبے سے چپکے ماموں کو بمشکل الگ کیا مگر اب ان میں 440 وولٹ کا کرنٹ آگیا ہے
آپکو کیسے پتہ
ممانی بتارہی تھیں
بات کراچی اورماموں ممانی کی ہورہی ہےتو کراچوی اردو کےچٹخارےکو دوآتشہ کرتےہیں
ہمارےپڑوس میں ایک بہت شریف آدمی رہتےہیں عثمان علی خان وِن کا نام ہے
ان کی زوجہ نے وِن کو گُدّی سے پکڑا اورباہرلےجاکرکےمُغَلّےبکے
لوزٹاک کی اسی قسط سے معین کو سنیے جو کراچی کے شہری کا کردارنبھارہے ہیں
ویڈیو لنک
ایک زمانےمیں جب ہم کےٹی سی کی بس پرسوار لکی اسٹارکے مسافرہوتے تو کھڑکی والی نشست پرسراورآنکھیں ٹکائے دو عمارتوں کا جب تک وہ نظراور تخیل کی مارکے علاقے میں رہتیں ایک والہانہ عقیدت سے طواف کرتے رہتے
ایک گوراقبرستان کےاُدھر تاج محل ہوٹل اور دوسری قبرستان کے ِادھر ایف ٹی سی بلڈنگ اوّل الذّکرمیں تو حکیم محمد سعیدکے آوازِاخلاق کے دعوت ناموں کے سبب کئی دفعہ جاناہوا البتہ ثانی الذّکرمیں جانے کی حسرت ہی رہی ۔ سنا تھاکہ اس کے آڈیٹوریم میں سٹوڈیو ڈھائی یا شاید پونے تین یا پھر دونوں کےپروگراموں کی ریکارڈنگ ہوتی تھی
جنرل نالج میں اضافے کےلیےبتاتےچلیں کہ یہ دونوں بےنظیرپروگرام سٹوڈیوڈھائی اور پونےتین وہ توانا پنیری تھی جس سےلوز ٹاک کےتناوردرخت نےجنم لیا
نمونے کےلیےملاحظہ ہو ہمارےریل کےرومان میں رچا انورکی نثرکی کاٹ سےلیس معین کےچلبلےانداز میں بُجھا ہمارےنوآبادیاتی آقا کےسینےمیں ترازو یہ ٹکڑا لکھنےکواور بہت کچھ ہےمگر اس تحریرکو ہاف پلیٹ کاذکرکیےبغیرختم نہیں کیا جاسکتا
ویڈیو لنک
انورمقصود کہتےہیں ہاف پلیٹ انہوں نےخالدہ ریاست کی فرمائش پر خاص ان کےلیےلکھا تھا کہ بقول خالدہ ڈاکٹروں کی رائے میں ان کے پاس بہت وقت نہیں تھا اور ان کو گلہ تھا کہ انورمقصودنےان کے لیے کبھی کچھ نہیں لکھا
خالدہ امیرخسرو کی مظلوم نظم بابل کا سہارا لیتی ہیں
ہم تو ہیں بابل تورےکھونٹے کی گئیا
ہانکوجدھرکو ہک جائیں
اور اس کھونٹےسےبندھےشعرپر معین کاوہ سواسیرجواب
ارے گئیا گناہگارہوں اس لیےاللہ تعالیٰ مجھ سےنہیں کہتا کہ اپنی پسند کی چیزقربان کردو۔اگرنیک ہوتا تو آج گئیا کی پچیسویں برسی ہوتی اپنی رزمیہ نظم Iliad میں Homer نے لکھاہے
ویڈیو لنک
If they ever tell my story, let them say I walked with giants
Men rise and fall like the winter wheat, but these names will never die
Let them say I lived in the time of Hector tamer of horses
Let them say, I lived in the time of Achilles
موضوعاتی اعتبار سے کچھ رعایتوں کے ساتھ دیکھا جائے تو ارض پاک کے آمرانہ و جمہوری خداؤں کے جبرتلے بے موسمی فصل کی مانندپستے عوام کے کی داد رسی میں ایک دلیرحصہ انورمقصود کے لفظوں کاہے اور ان کے نشے کو دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ کرتا معین اخترکا کمال فن بہت پابندیوں تلے بھی یہ فصل توانارہی اور ان شاخوں کے غنچے کھلا کیے
تو صاحب کہہ لینے دیجیے کہ اگر کبھی ہماری کہانی کہی گئی تو اس میں ببانگ دہل لکھا جائے کہ سیاسی اور معاشرتی بونوں کے دورمیں ہم دیوقامت لوگوں کے ہمسفررہے ہم انورمقصود کے دورمیں جیے کہ عنان اقتدار کے بےقابوگھوڑے کی مشکیں ان کے طنزکے چابک کے زیردام رہیں
ہم معین اخترکے شانہ بشانہ چلے جو لفظ اور لہجے کے اسپ زورآورکا شاہسوارٹھہرا
اور کیا خوب شاہسوارٹھہرا
بات انورمقصود کے لفظوں سے شروع کی تھی اور انہی کی زبانی ختم کرتے ہیں کہ انوراورمعین لازم وملزوم ہیں
انورنے کہتے ہیں کہ معین کہیں نہیں گئے
وہ اپنے فن میں، اپنے پرستاروں کے دل میں، ہرگھرمیں زندہ ہیں
کراچی کے جناح ٹرمینل پر مانی کو کینیڈاکی فلائٹ پر سی آف کرنے کے بعد ماڈل کالونی قبرستان میں پل بھرکورکا تو معین کی قبرپر فاتحہ پڑھتے ہوئے یہی لگا کہ وہ کوئی اور معین تھا جسے ہم سلا آئے ۔ ہمارا معین تو ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہے
بلھے شاہ اساں مرناناہیں
گورپیا کوئی ہور
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...