سوڈوسائنس کا سب سے کامیاب حصہ انکار (denialism) کا حربہ ہے۔ نہ صرف عام ہے بلکہ کامیاب بھی۔ اس وقت باقاعدہ نظریاتی تحریکیں موجود ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کا، ماڈرن سنتھیسز کا، جراثیم کو بیماریوں کی وجہ کہنے کا، ذہنی امراض کی موجودگی کے انکار کا، ویکسین کی افادیت کا,ایچ آئی وی کو ایڈز کی وجہ کہنے کا اور دوسرے بنیادی حقائق کا انکار کرتی ہیں۔
حقائق سے لڑائی کرنے کے اس والے راستے کے چیدہ چیدہ گُر کیا ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال ہی تو پوچھا ہے
شک سائنس کے لئے بنیادی چیز ہے۔ شک نہ کرنے والا ہر چیز پر یقین کر لے گا۔ تشکیک، تجسس، سوال سائنس کا اوزار ہیں۔ اور اس اوزار کو بڑی آسانی سے انہیں سائنس کے خلاف ہتھیار بنایا جا سکتا ہے۔
جب سائنسدان سوال پوچھتے ہیں تو اس کا مقصد جواب تک پہنچنا ہوتا ہے اور اس کے لئے امکانات کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ انکار کرنے والا وہی سوال بار بار پوچھتا رہے گا جس کا جواب ملے عرصہ بیت چکا۔ اس کا مقصد شک پیدا کرنا ہے نہ کہ دریافت کا سفر کرنا۔
ظاہر ہے کہ شک ہمیشہ رہتا ہے۔ کوئی چیز سو فیصد درست کبھی نہیں ہوتی۔ سائنس نہ یقین کے بارے میں ہے اور نہ کسی چیز کو ٹھیک ثابت کرنے کے بارے میں۔ بلکہ اس کے برعکس، یہ چیزوں کو غلط ثابت کرنے کے بارے میں ہے۔
سائنسی تھیوریوں کا کام وضاحت کرنا ہے۔ جن میں ایسا کرنے کی طاقت ہو اور وہ دوسری تھیوریوں سے بھی مطابقت رکھتی ہوں تو پھر آہستہ آہستہ ایک باربط ماڈل بنتا جاتا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا کیسے چلتی ہے۔
سائنسی فہم کا مطلب نہ صرف سائنسی وضاحت کو سمجھنا ہے بلکہ اس کا بھی کہ ہمیں کتنا اعتماد ہے کہ یہ وضاحت درست ہے اور ہمارا جواب کتنا مکمل ہے اور یہ کس چیز کی وضاحت نہیں کرتا۔ کچھ تھیوریاں متنازعہ ہوتی ہیں، کچھ غیرمعروف، کچھ خاصی مضبوط۔
انکار کرنے والوں کا مقصد اعتماد کے لیول کی کمی کے بارے میں مبالغہ آرائی کرنا ہے۔ (اس کی انتہا کی پوزیشن اس چیز سے ہی انکار ہے کہ ہم کچھ بھی جان سکتے ہیں)۔
اس حکمتِ عملی کا مقبول فقرہ یہ ہے کہ “سائنسدان ماضی میں بھی غلط نکلے ہیں، وہ اب بھی غلط ہوں گے”۔ ظاہر ہے کہ اس سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ ہمارا علم کل تبدیل نہیں ہو سکتا لیکن یہ اعتراض بنیادی نکتہ مِس کر دیتا ہے۔ ماضی کے کسی کم اعتماد والے خیال میں غلطی کا موازنہ آج کی کسی مضبوط شواہد پر قائم تھیوری سے مقابلہ کرنا false analogy ہے۔
مثال: یہ دعویٰ“ماضی میں ایتھر غلط ثابت ہو گیا تھا، ہو سکتا ہے کہ ہیضہ بیکٹیریا سے نہ ہوتا ہو” اس کی مثال ہے۔ ماضی میں ایتھر ایک خیال تھا جس کے حق میں خاص شواہد نہیں تھے۔ ہیضے کے بیکٹیریا سے ہونے کے حق میں بہت اچھے شواہد موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید شواہد درکار ہیں
“شواہد کہاں ہیں؟”۔ “یہ رہے”۔ “مزید شواہد کہاں ہیں؟”۔ “یہ”۔ “اور مزید؟”
ٹھہر جائیں، یہ نہ ختم ہونے والا کھیل ہے۔
مثال: ارتقا کا انکار کرنے والوں کا پسندیدہ سوال فاسل ملنے کے گیپ رہے ہیں یا یہ کہ ہمارا فلاں نوع کے آباء کے بارے میں علم مکمل نہیں۔ یہ “جب تک سب کچھ نہیں پتا، اس وقت تک کچھ بھی نہیں پتا” کا مغالطہ ہے۔ “ہم ثابت نہیں کر سکتے کہ پرندوں کا ارتقا کونسے گروپ سے ہوا، اس لئے ارتقا سرے سے غلط ہے” اس مغالطے کی مثال ہے۔
سائنسی تھیوری کو جج اس کی افادیت سے کیا جاتا ہے۔ پوچھنے والا سوال یہ ہے کہ وقت کے ساتھ علم کی سمت کیا رہی ہے۔ کیا گیپ کم ہو رہے ہیں یا زیادہ؟
کسی کو بھی اگر اس بارے میں معمولی سا بھی علم ہے تو وہ بتا دے گا کہ حیاتیاتی ارتقا کے بارے میں یہ کم ہو رہے ہیں۔ پرندوں اور ڈائنوسار، وہیل اور خشکی کے جانوروں، مچھلی اور ٹیٹراپوڈ اور کئی دوسرے خلا بڑی خوبصورتی سے بھر رہے ہیں۔ پچھلی صدی میں اس کا انکار کرنے والے جن نامعلوم کی طرف اشارہ کرتے تھے، ان میں سے کئی اب نہیں۔ “چمگادڑ اور ممالیہ کے درمیان کا لنک کیا ہے؟” نہیں، ہمیں آج نہیں پتا لیکن اس کا نہ پتا ہونا صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ والا لنک نامعلوم ہے۔
یا ایسے شواہد کا مطالبہ کرنا جو دئے ہی نہیں جا سکتے۔ “ویکسین لگوانے والوں اور نہ لگوانے والوں کی رینڈمائزڈ سٹڈی کی جائے اور نتائج دکھائے جائیں”۔ یہ پہلی نظر میں معقول لگے لیکن ایسا ٹرائل ایتھیکل ہی نہیں۔ ویکیسین سٹینڈرڈ ہیلتھ کئیر کا حصہ ہیں۔ (ویکسین بمقابلہ ویکسین نہ لینے والوں کی سٹڈی موجود ہیں۔ صرف یہ کہ یہ ٹرائل رینڈمائزڈ نہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقائق کا انکار اصطلاحات کی من مانی تعریف بنا کر کرنا
“جو ماضی میں ہو چکا ہے، وہ سائنس کی پہنچ سے باہر ہے۔ سائنس تجربات کا نام ہے۔ اگر تجربہ نہیں کیا جا سکتا تو یہ سائنس نہیں۔ ماضی کے بارے میں کوئی بھی سٹڈی سائنس نہیں”۔
یہاں پر سائنس کے انکار کی تکنیک اس کی تعریف کو انتہائی محدود بنا کر کی گئی ہے۔ سائنس صرف لیبارٹری میں تجربے کو نہیں کہتے۔ مفروضے کو شواہد کے ذریعے ٹیسٹ کرنے کو کہتے ہیں۔ گزرتا وقت اپنے نشان چھوڑتا ہے اور وہ شواہد ہیں۔ ہم ان کی مدد سے اپنے مفروضات کو ٹیسٹ کرتے ہیں۔
“ذہنی بیماری پیتھالوجیکل نہیں، اس لئے یہ کوئی بیماری نہیں”۔
یہاں پر اس کا انکار بیماری کی تعریف کو بے حد محدود بنا کر کیا گیا ہے۔ بیماری صرف پیتھالوجیکل نہیں ہوتی۔ یعنی کسی خلیے، ٹشو، یا عضو کا ایبنارمل ہو جانا ہی بیماری نہیں۔ مثلاً، مائیگرین سردرد ایک بیماری ہے اور اس کی کوئی قابلِ تشخیص پیتھالوجی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...