ہمارے لبرل دوست مولانا وحیدالدین کی وفات پر اظہار افسوس کررہے ہیں، سچی بات ہے میں نے مولانا کو نہیں پڑھا، میں اب مزہبی کتابیں پڑھ ہی نہیں سکتا، خواہ وہ قدرے ریشنل اور ماڈریٹ پیرائے میں ہی کیوں نہ لکھی ہو، کچھ عرصہ پہلے کتابوں کی نمائش تھی، ایک سٹال خصوصی طور پر غامدی اور مولانا وحیدالدین کی کتابوں کا تھا، سٹال کے بندے نے مجھے گزرتے پہچان لیا، بڑی چاہت عزت سے روک لیا، اور ایک کتاب مولانا کی زبردستی مجھے تھما دی، اور اسے پڑھنے کو کہا، میں نے اسے بڑا کہا
کہ میں ایسی کتابیں زمانہ ہوا چھوڑ چکا ہوں، میں ان سے کچھ نہیں سیکھ سکتا، مجھے کسی ماڈریٹ ریشنل اسلام کی تعبیر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، یہ سب بے کار کے لوگ ہیں، اپنی اپنی دکانداریاں ہیں ،
میرے شعور کا پہلا ارتقائی مرحلہ ہی غلام احمد پرویز یعنی اسلام کی ریشنل تعبیر سے ہوا تھا، میں نے اسے خوب پڑھا تھا، اور کچھ سال اس کے سحر میں مبتلا رہا۔۔۔ لیکن ساتھ مارکسزم کا مطالعہ شروع ہو گیا، تو پرویز کے ریشنل اسلام پر سنجیدہ سوالات اٹھنے شروع ہو گے، جنہوں نے ریشنل مزہب کے بہت سے پول کھول دئے۔
چناچہ مجھے پڑھنے والوں کو پتا ہے، میں مزہب کو اصولی طور پر آج کے سائنسی دور میں بالکل کوئی جگہ دینے کو تیار نہیں ہوں۔ آج کے انسان اور وقت کو مزہب کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب رہ گیا ان کا سوال جو آج بھی مذہبی ہیں، اور وہ دنیا کی بہت بڑی تعداد ہے، ان ایمان یافتگان کو مزہب کے کسی ریشنل تعبیر کی ضرورت ہے نہ کوئی دلچسپی۔۔۔مزہب ریشنل ہوتا ہی نہیں ہے، یہ دو متضاد الفاظ ہیں، اسی لیے تاریخ میں کبھی بھی عام لوگوں نے ریشنل مذہب کو قبول نہیں کیا، مذہب کا کام ہی سادہ اور جاہل دماغوں کی تسلی تشفی ہوتا ہے، مزہب ان کا نفسیاتی سہارا ہوتا ہے، ان کی زندگی کے سادے سوالوں کا سادہ جواب دینے والا، ایک پیچیدہ زندگی میں آسان سا سہارا۔۔ ان کو اللہ رسول ،ایک مقدس کتاب مل جاتی ہے ، کئی زندگی کی مشکلات حل ہو جاتی ہے، اور مرنے کے بعد کی اچھی سی زندگی کی ضمانت۔۔۔ ان کو کوئی فلسفے، اور مادی دنیا کے حقایق جاننے سے نہ دلچسپی ہوتی ہے، نہ سمجھنے کی صلاحیت۔۔۔۔ بس یہ کرو، اتنا ثواب، باقی سارا کچھ اللہ میاں چلا رہا ہے،
چنانچہ میرا سٹرانگ تھیسس ہے، حقیقی مزہب اسی مولوی والا ہوتا ہے، جسے ہم جاہل، انتہا پسند، متشدد کہتے ہیں، ریشنل، معتدل مزہب اوپر کے طبقات کا فراڈ ہوتا ہے، جو خود کو خوشحال پڑھا لکھا سمجھتے ہیں، وہ مزہب کو بدلنے زمانے کے مطابق ایڈجسٹ کرتے جاتے ہیں، یہ مشق فراڈ ہوتی ہے، اور بے کار، اگر آپ نے ریشنل ہی ہونا ہے، تو سائنس، عقل، جدید علوم کافی ہیں، مزہب کا تڑکا لگا نے کی کیا ضرورت ہے؟ ان دو متضاد چیزوں کا زبردستی نکاح پڑھوایں گے، تو الجھن میں رہیں گے، اور ایک دن اپنے کسی مقدس ہستی یا کتاب کی توہین ہونے پر اپنے انہیں ہم مذہب جاہل مولویوں والے مذہب کے ساتھ جا ملیں گے
چنانچہ آج یا تو مذہب ہو، تو اصلی روائتی مذہب ہی ہو، یا پھر مکمل سیکولر سائنسی تعبیر ۔۔۔
“