غریب اور پسماندہ ممالک میں پیدا ہونے والے بچوں کو پیدائش سے پہلے میڈیکل کی تمام سہولیات میسر نہیں ہوتیں.
وہ بھی ایک ایسے ہی غریب ملک کے غریب گھرانے میں پیدا ہوا، پیدائش کے فوراً بعد ڈاکٹروں نے اٹھایا اور آئی سی یو میں لے گئے، والدین کے لیے یہ ایک انتہائی کرب کا وقت تھا.
کچھ دیر بعد ڈاکٹر جیسا لیکر گئے ویسا ہی واپس لے آئے اور کہنے لگے، آپکا بیٹا دونوں ٹانگوں سے قدرتی نقص کی وجہ سے اپاہج پیدا ہوا ہے اور یہ تاعمر ایسا ہی رہے گا. والدین کے دکھوں میں ایک مزید دکھ کا اضافہ ہوگیا.
ٹانگوں سے معذور بچے کو پالنا پوسنا اور بڑا کرنا انتہائی دشوار تھا. وقت کی ایک یہ خوبی ہے کہ گزرتا رہتا ہے اور اس بچے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، وقت گزرتا رہا اور وہ بڑا ہوتا گیا. اسکا باپ اپنے علاقے کے بچوں کو رگبی کھیلنا سکھاتا تھا، اور وہ بچہ بھی بیساکھیاں لگا کر کھیل میں شامل ہوتا رہا، مگر جیسے ہی دوڑتا، بیساکھیاں گرتی اور یہ بھی ساتھ گرجاتا، اسکا باپ بڑا مایوس ہوتا کہ میرے بچے کا نجانے کیا مستقبل ہوگا. اس بچے کو کبھی کسی محرومی کا احساس نہ ہو، اس لیے اس کی ماں اور اس کے باپ نے اپنی زیادہ تر سرگرمیاں ترک کردیں تھیں، وہ معذور بچہ جوں جوں بڑا ہوتا گیا وہ سوچتا رہا کہ میرے بہن بھائیوں کی، باپ کی، ماں کی، رشتہ داروں کی حتی کہ ضعیف العمر دادا دادی کی بھی ٹانگیں صحیح سلامت ہیں تو میری کیوں نہیں ہیں؟ ، میری پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ بظاہر اسے اپنا وجود فضول لگتا تھا.
وقت گزرتا رہا اور وہ اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لیے کالج چلا گیا. سترہ اٹھارہ سال کی عمر تھی جب ایک دن کالج میں ٹیلیویژن والے کمرے میں بیٹھا وہ چینل بدل رہا تھا کہ ایک سپورٹس چینل پر اسکا پسندیدہ کھیل رگبی دکھائی دیا، اس نے اسی چینل کو دیکھنے کا فیصلہ کرلیا، تھوڑی دیر بعد رگبی کا کھیل ختم ہوا تو پیرااولمپکس کی جھلکیاں لگ گئیں، اس نے ٹیلی ویژن پر ایک ایسا منظر دیکھا جو اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا، وہ دم سادھے دیکھنے لگا،
نوے ہزار تماشائیوں سے بھرا ہوا اسٹیڈیم جوش سے چلا رہا تھا، اور چلا بھی کن کے لیے رہا تھا، چند معذروں کے لیے جو اس اولمپکس میں اپنے ادھورے وجود کے ساتھ دوڑ رہے تھے، تماشائی دوڑنے والوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے، اور کہہ رہے تھے یہ تمھارا میدان ہے اور تم کرسکتے ہو، تم جیت سکتے ہو. اور کمنٹیٹٹر کہہ رہا تھا دیکھیں ایک ایسا شخص جو ٹانگوں سے معذور ہے وہ کیسے بجلی کی مانند دوڑ رہا ہے.
اسے ایسے لگا جیسے یہ نوے ہزار لوگ مل کر اسے کہہ رہے ہوں کہ تم یہ کرسکتے ہو، کمنٹری کرنے والا جیسے اس سے مخاطب تھا. پھر اس نے چشم حیران سے دیکھا کہ ایک معذور شخص نے دوڑ کا مقابلہ جیت لیا، لوگوں نے اسے میڈل پہنائے اور کندھوں پر اٹھا لیا.
پہلی بار اسے ایسا لگا جیسے وہ بے مقصد پیدا نہیں ہوا.
اس نے وہ چند منٹ کی جھلکیاں دیکھ کر دنیا کا تیز ترین دوڑنے والا شخص بننے کا فیصلہ کر لیا. اس کے اندر جیتنے والے شخص نے گویا ایک بجلی بھر دی تھی، اس نے جیتنے والے کو اپنا ہیرو بنا لیا، اور اس نے اپنے آپ سے کہا اگر وہ کرسکتا ہے تو “میں کیوں نہیں؟”.
اس کے بعد وہ گیا کمپیوٹر پر انٹرنیٹ کھولا اور ان جوتا نما ٹانگوں کو تلاش کرنے لگا جو اس کھیل میں پہن کر لوگ دوڑ رہے تھے. جب اس نے سرچ کیا تو ان کی قیمت اتنی تھی کہ اس کے علاقے میں کسی کے پاس بھی اتنی رقم نہیں تھی جس سے انہیں خریدا جاسکتا ہو، اور نہ ہی وہ عام ملنے والی جوتا نما مصنوعی ٹانگیں تھیں.
اس کے ذہن میں ایک اور خیال آیا، اس نے تمام بڑے اور امیر لوگوں کو ایمیلز کرنا شروع کردیں، ایک ہی بات لکھتا کہ اگر آپ مجھے وہ ٹانگیں لے دیں، تو میں چیمپئن بن سکتا ہوں.
ہزاروں ایمیلز بھیجنے پر آخر ایک جواب آگیا، اس شخص نے رضامندی ظاہر کی اور کہا کہ پہلے تمھارا ٹرائل ہوگا اگر تم میں ذرا بھی قابلیت ہوئی تو تم اس کے حقدار ہوگے.
پھر ایک وقت آیا جب اس نے بالکل اس پیرا اولمپک کے چیمپئن جیسی مصنوعی ٹانگوں والے جوتے پہنے اور اس نے اس دن ہر اس جگہ کو دوڑ کر چھوا جس کو چھونے کی اسے حسرت تھی، وہ پہاڑوں پر چڑھ کر دوڑا، اور اتنی تیزی سے دوڑا کہ تیز ہوا جب اس کے چہرے سے ٹکراتی تو وہ دیوانہ وار ہنستا کہ یہ زندگی تو میں نے ابھی تک چکھی بھی نہیں، وہ اس ہوا سے لطف اندوز ہوتا دوڑتا رہا، پھر اس نے ایک اکیڈمی جوائن کرلی اور باقاعدہ ٹریننگ شروع کر دی، دن رات انتھک محنت کی وجہ سے لندن میں ہونے والے پیرا اولمپکس کے لیے اسے منتخب کرلیا گیا. اسکا خاندانی نام جس شخص پر تھا وہ اس کا دادا تھا اور زندہ تھا، اس نے والدین ،رشتہ داروں اور دادا کو کہا کہ اگر میں تمھیں ایسی جگہ لے کر جاؤں جہاں تمھارا دیا ہوا نام لوگ فخر اور خوشی سے پکاریں تو سوچو کیسا لگے گا، اس کے دادا کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ لندن کیا ہے اور کہاں ہے، وہ لڑکا اپنی جیت کے لیے پرعزم اور پر اعتماد تھا.
پھر جب ستر ہزار تماشائیوں کے درمیان لندن پیرا اولمپکس میں وہ دوڑ رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اس کے آگے وہی اسکا ہیرو تھا جسے ٹیلیویژن پر دیکھ کر اس نے بھی اس جیسا بننے کا فیصلہ کیا تھا، اس کے دیکھے ہوئے تمام خواب ایک ایک کرکے تعبیر پارہے تھے. اس پیرا اولمپکس میں وہ چاندی اور کانسی کے تمغے جیت گیا اور یہ اس کی کامیابی کی طرف پہلی بڑی اور متاثر کن جیت تھی، گراؤنڈ میں اس کے سارے رشتہ دار آکر اسے مبارک دے رہے تھے، اس دوران اس نے اپنے دادا کو دیکھا وہ تماشائیوں میں بیٹھے زاروقطار رو رہے تھے اور یہ آنسو خوشی کے تھے، ان کا دیا ہوا نام ہزاروں لوگوں کے درمیان فخر سے پکارا گیا تھا. اس کے بعد اس لڑکے نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، اس نے دوڑنے کے دنیا بھر کے تیز ترین ریکارڈز توڑ دیے، حتیٰ کہ وہ شخص جو اسکا ہیرو تھا اس کا ریکارڈ بھی توڑ دیا اور دس سال مسلسل پیرا اولمپکس کا چیمپئن رہا، 400 میٹر ریس میں وہ دنیا کا چھٹا تیز ترین شخص قرار پایا.
اس نے اپنے والدین سے پوچھا جب میں پیدا ہوا تو آپ کا ردعمل کیا تھا؟ اس کے باپ نے بتایا کہ وہ دن ہمارے لیے خوشی کی بجائے دکھ لایا تھا، ہم نے سوچا تھا یہ ننھا ادھورا وجود جب بڑا ہوگا تو ہم اسے ادھورے پن کے متعلق کیسے سمجھا سکیں گے، یہ دوسروں کا محتاج اپنی زندگی کیسے جی پائے گا ، اسی روز ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ آج کے بعد ہم میاں بیوی تمھاری دونوں بیساکھیاں بنیں گے.
یہ چیمپئن شخص Bkacke Leeper کے نام سے جانا جاتا ہے، اور وہ ہیرو جس کو دیکھ کر اس نے دوڑنے کا فیصلہ کیا تھا وہ Oscar Pistorius تھا.
BLACKE LEEPER
کہتا ہے زندگی بھر جس بات پر میں عمل پیرا رہا ہوں وہ یہ ہے
Life is not how hard you can hit, it’s about how hard you can get hit and keep moving forward.”
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...