ہمارے استاد محترم جو حیدرآباد دکن کی معزز شخصیت ہیں ‘اُن سے حا ل ہی میں ایک قومی اردوچینل کے صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے اتنی کتابیں لکھیں‘ کئی ادبی اجلاس ومشاعرے منعقد کیے اوردن رات اردو کے فروغ کے لیے اپنا وقت دیتے رہے ‘آپ کس سے متاثر ہیں ؟ اس پرموصوف نے صحافی کو جواب دیا کہ میں خود سے متاثر ہوں ۔بہت اچھی بات ہے انسان کوسب سے پہلے اپنی قدرکرنی چاہئے اورآج کل معاملہ بھی یہی چل رہا ہے۔ انگریزی کا ایک مشہو رقول ہے : Self help is the best helpاوراسی پر اردواکیڈیمی کے ممبران عمل پیراہیں۔
کہہ دو وقت کے سخنوروں سے محسن
آج کے میرؔ وغالبؔ ہم ہی ہیں
بزم صدف کاقافلہ جب حیدرآباد پہنچا اورمجتبیٰ حسین کومیڈیا پلس آڈیٹوریم میں بزم صدف انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازاگیا ۔تقریب کے بعدماہرمعاشیا ت ‘ سماجی جہد کار‘ اردو کے سپاہی‘ پانچ کتابوں کے مصنف ‘ ایسا کوئی دن نہیں جاتا جب تک ان کی چار پانچ اخباروں میں تصاویر نہ چھپی ہوں۔فیس بک کھولتے ہی آپ کی تصاویر‘اخبار کے تراشے اوردیگرویڈیوز وغیرہ آجاتے ہیں ‘میں بات کررہا ہوں کولکتہ سے ہجرت کرکے حیدرآباد تشریف لائے ڈاکٹرمختاراحمدفردین کی۔ آپ نے اس شام بزم صدف کے قافلہ کواپنے گھر پر دعوت دی۔اس وقت میری ایک کتاب’’رشحات محسن‘‘ بھی شائع ہوچکی تھی۔ گلبن کے جناب مہتاب قدرصاحب بھی قافلہ میں موجود تھے توایک صاحب نے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہاکہ یہ محسن خان ہے اوران کی حال ہی میں ایک کتاب ’’رشحات محسن‘‘ شائع ہوئی ہے۔ تومہتاب قدر صاحب جوفاصلہ پرتھے جملہ مکمل نہیں سن سکے ‘انہوں نے پوچھا ماشاء اللہ اتنی چھوٹی عمرمیں اتنی بڑی کتاب ’’ارشادات محسن‘‘چھپ گئی ہے بہت بہت مبارک۔میں نے کہا مہتاب صاحب ارشادات محسن نہیں رشحات محسن۔توآپ نے فرمایا ایسے ہی لکھتے رہئے ایک دن ارشادات محسن بھی آجائے گی۔ مہتاب صاحب کے اس جملے سے ہم خود بھی متاثر ہوگئے تھے پھر ہمارے دوست کی ہدایت یاد آگئی کہ دنیا میں کسی سے متاثرنہیں ہونا اور لوگ چاہے کتنا بھی چنے کے جھاڑمیں چڑھائیں تم زمین سے جڑے رہنا۔دعوت میں بزم صدف میں شامل مختلف ریاستوں اوربیرونی ممالک سے آئے مہمانوں کے علاوہ حیدرآباد کی مختلف اردوانجمنوں کے صدور ‘شاعراورایک مشہوررسالہ جس سے تمام ارد ووالے سفر( Suffer)ہوتے ہیں وہ بھی موجودتھے۔ جب کھانے کے بعد کچھ سمجھ نہیں آیا کیا کریں ؟توبحث شروع ہوئی کہ آپ ہم کواپنے جلسو ںمیں بلاتے نہیں‘شمال کی اردوایسی ہے‘جنوب کی اردو ویسی ہے‘ شمال کے صاحب کہنے لگے کہ آپ لوگ کاف قاف خے کا تلفظ ٹھیک ادا نہیں کرسکتے تو جنوب کے صاحب بولے ہم کاف قاف کے ساتھ گاف بھی ایسا بول سکتے ہیں کہ اس کے بعدآپ کچھ سننے کے قابل نہیں رہیں گے۔ مگرآپ لوگ موقع ہی نہیں دیتے۔ خیربحث طویل ہوئی اورایک پروفیسر صاحب چھت سے کود جانے والے تھے جنہیں میں نے بچایا اورسب کوسفر( Suffer)کرانے والوں کوان کے گھرتک چھوڑکرآیا۔
خیریہ باتیں تھی آپس میں ایک دوسرے کوبڑا سمجھنے والوں کی۔ اب حال یہی ہوگیا ہے ہندوستان کی تمام اردواکیڈیمیوں سے سب لوگ پریشان ہیں کہ یہ اردواکیڈیمیاں اردوکے فروغ کے لیے کام کررہی ہیں یااردووالوں کولڑانے کے لیے نئے نئے اعلانات کررہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگرہندوستان میں اردووالوں میں خانہ جنگی ہوگی توشاید اردواکیڈیمیوں سے ہی اس کا آغاز ہوگا۔ جب بھی فیس بک کھولتا ہوں تو اردواکیڈیمی کے چیرمین کے تعلق سے‘ نظرآتا ہے ’’نعمان صاحب وہ مشاعرہ پڑھا تھا میں نے‘ اس کے پیسے کب دیں گے ؟۔ آندھراپردیش اردواکیڈیمی کی جانب سے منعقدہ سمینار اورمشاعرہ میں پڑھنے والوں کو ان کابھتہ نہیں ملا ۔ اورکئی لوگ عدالت سے بھی اس سلسلے میں رجوع ہوئے ہیں۔ بزم صدف کی طرف سے جو لوگ آئے تھے ان کی الگ الگ داستان گویاں ہیں ‘ان کوتوپیسے مل گئے لیکن دوسروں کوکچھ نہیں ملا۔ مختارصاحب کوقطر کا شاعربتایاگیا اورارتضی کریم کوبھی شاعربنادیاگیا۔ میں مختارصاحب سے سمینار سے واپسی کے بعدملااورپوچھا کہ آپ قطرسے ہیں اورآج تک نہیں بتایا۔ وہ بولے مجھے بھی پہلے بارمعلوم ہوا کہ میں قطرسے ہوں۔ خیراردووالے اپنے ہی لوگ ہیں سب چلتا ہے۔
دیمک چاٹ رہی ہے محسن اردوکی بنیادوں کو
سارا تماشہ ایک چھلاوہ خدمت ودمت کاہے کی
اردو کا نام آتے ہی متنازعہ الفاظ اس سے جڑجاتے ہیں۔ چاہے وہ اکیڈیمی کے کارنامہ حیات ایوارڈ کا معاملہ ہو یا اردوافسروں کا تقرر ‘ حیدرآباد کے حلقہ چندرائن گٹہ سے اکبراویسی کے خلاف بی جے پی کی ٹکٹ پرلڑنے والی سیدہ شہزادی کواین سی پی یوایل کا رکن مقرر کرنا ہویا مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی میں غیراردو داں پروفیسروں کا تقر ر یالنگی لنگی کا کھیل ہو یا پھر اردو کی انجمنوں کی آپسی لڑائی ۔ان وجوہات کی وجہ سے ہی نوجوان نسل اردو سے دور ہورہی ہے۔ غضنفراقبال نے ان حالات پر اردو کے ایک اسکالرکا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ روزنامہ مصنف میں سب ایڈیٹر کے لیے انٹرویو چل رہے تھے ‘تمام درخواست گذار انٹرویودے کر چلے گئے توایک لڑکی نے ایک خط لاکردیا جس میں لکھاتھا کہ میں ایک مجبور عورت ہوں اوراردوکی اسکالرہو ںاور مجھے اس ملازمت کی ضرورت ہے ۔ لڑکی نے اپنی درخواست میں عورت کوالف سے لکھاتھا۔
بچپن میں ہمار ے بزرگ ہفتہ میں کبھی کبھی صدقہ کے پیسے دیتے توکہتے کہ جاکرغریبوں کو دے آئو ۔ہمارے ایک دوست بہت ہی ہوشیار تھے ۔وہ بولتے تھے ارے اس پیسے کے سب سے پہلے حقدار ہم اورتم ہو‘ کیوں کہ ہم اتنے غریب ہیں کہ ہمارے پاس سائیکل ہے جس پرہم سفرکرتے ہیں اورہم بے روزگار بھی ہیں اس لیے اس کا پہلا حق ہمارا ہے اورہم لوگ ان پیسوں کوخود پرخرچ کرلیتے تھے۔ اسی طرح کے معاملات اکیڈیمیوں میں ہورہے ہیں ہرکوئی اپنے آپ کو ایوارڈ کا مستحق سمجھ رہا ہے اور یہاں تک کہ جیوری جس کوایوارڈ دینے کی ذمہ داری دی جاتی ہے وہ لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کوایوارڈ بانٹ رہے ہیں۔ بندر بانٹ کا معاملہ چل رہاہے۔ اترپردیش اکیڈیمی کی چیئرپرسن نے خود اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایک لاکھ کے انعام کاخود کومستحق قراردیدیا‘اسی طرح ایک اور رکن پروفیسر عباس رضا نیر نے اور مجلس عاملہ ایک اور رکن نے بھی خود کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کوایوارڈ کا مستحق قراردیدیا۔یہی معاملہ تلنگانہ اردواکیڈیمی میں بھی پیش آیا جہاں جیوری کے ارکان نے ایک دوسرے کونامزد کیا جس پرہمارے شہر کے ایک جذباتی صحافی نے عدالت سے رجو ع ہوکر اس کورکوادیا۔ مجھے تکلیف اس بات کی ہوئی کہ ہمارے استاد ڈاکٹرم ق سلیم صاحب کوبھی کارنامہ حیات ایوارڈ کااعلان کیاگیاتھا اورہم نے ہارلیکر ان کی گلپوشی انجام دی اور ایوارڈ حاصل کرنے والے ایک اوراردوخادم ڈاکٹرنادرالمسدوسی کے ہال جانے والے تھے اورفون کیا کہ ہارخریدنے جارہا ہوں آپ کی گلپوشی کا ارادہ ہے توآپ نے فرمادیا کہ میں قطر میں ہوں اورہاربعدمیں پہن لوں گا ۔خیرہمارے پیسے بچ گئے لیکن بعدمیں معلوم اورافسوس ہوا کہ کارنامہ حیات ایوارڈس کسی کو بھی نہ مل سکا۔
حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھاگئے
پچھلے ہفتہ مغربی بنگال اردواکیڈیمی کی جانب سے ایک سمینا رہوا جس کا موضوع تھا’’مشتاق اعظمی‘ شخصیت اور فن‘‘ ۔مشتاق صاحب کے تعلق سے کئی محققین نے کہاکہ انہوں نے اب تک کوئی افسانہ نہیں لکھا ہے۔ اوران کے تعلق سے دوماہی گلبن لکھنو کے شمارہ میں اردو ادب کے ایک اورمجاہد ڈاکٹر مناظرعاشق ہرگانوی (بھاگلپور) لکھتے ہیں’’ ڈاکٹرمشتاق اعظمی میرے شاگرد ہیں‘ میں انہیں معاوضہ پرافسانے لکھ کردیتا ہوں۔ پہلا معاوضہ فی افسانہ پانچ سو روپئے تھا‘ وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اور اعظمی کی مقبولیت کودیکھ کراس کی قیمت کوپانچ ہزارکردیا ہوں‘‘۔ اس پربھی خوب ہنگامہ ہوا اور دوسروں کی پول کھولنے کے چکر میں وہ خود اپنے پول کھول بیٹھے ہیں ۔ اورپہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ اس تعلق سے لوگوں نے کولکتہ کے زکریا اسٹریٹ پر رابندرا سرانی امن یوتھ کے ساتھ مل کر سڑکوں پر احتجاجی جلسے منعقدکیے۔ مدھیہ پردیش اردواکیڈیمی کی جانب سے بھی اقبال ایوارڈ پرتنازعہ چل رہا ہے۔ لڑائیوں کی وجہ سے ہی اب اردوہندوستان میں غیرملکی زبان بن گئی ہے پنجاب یونی ورسٹی نے اردوکوبیرونی زبانوں کے زمرہ میں شامل کردیا ہے ۔اردوکونقصان بین الاقوامی سمیناروں سے ہی ہورہا ہے جہاں یونیورسٹی کے پروفیسرس ایک دوسرے کوبلاکر وقت گذاری کررہے ہیںاور دوسری طرف اردواسکولس‘کالجس اور اردوشعبوں کوتالے لگ رہے ہیں۔
ان اکیڈیمیوں کے گھروالوں اور دوستوں سے گذارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کا رشتہ دیکھنے کے لیے جب جائیں توان لوگو ںکوساتھ نہ لے جائیں ورنہ یہ لوگ خود اپنے آپ کونکاح کے لیے پیش کردیں گے کیوں کہ یہ ہرجگہ خود کوہی نامزد کرتے ہیں۔
ای میل:[email protected]
٭٭٭