1997۔ میانوالی لاری اڈے سے گُزر رہا تھا۔ سائیڈ پر کِنو کی ریڑھی کھڑی تھی۔ گاڑی کھڑی کی اور کِنو دیکھنے لگ گیا۔
درمیانی سی کوالٹی کے کِنو تھے۔ ریڑھی کے چاروں طرف چکر لگا کر دیکھا۔ بالکل ایک جیسے۔ جو کوالٹی سامنے جُڑی ہوئی وہ ہی اندر والی سائیڈ پہ لگی ہوئی۔ پیچھے سڑک کے فُٹ پاتھ پر ریڑھی والے کا قریباً ڈیڑھ سالہ بیٹا اور تین سالہ بیٹی بیٹھی ہوئی اچاری آم کی ایک اکیلی پھانک ساتھ ہتھیلی پہ رکھ کر روٹی کھا رہے۔ بچی روٹی کا ٹکڑا توڑتی ، اُسے آم کی پھانک ساتھ رگڑ کر کہ ایک نوالہ اپنے مُونہہ میں ڈالتی اور ایک اپنے چھوٹے بھائی کے مُونہہ میں۔
نیلی آنکھوں والی اُس بچی کے بال بہت خوب صورت تھے۔ لمبے لمبے اور سُنہرے، لیکن آپس میں گُنجل بنے ہوئے۔ یوں جیسے پچھلے کئی دِنوں سے دھوئے ہی نا ہوں۔
یاد آیا کہ گھر میں ماچس نہیں ہے تو میں نے کِنو والے صاحب سے کہا کہ میں سامنے دُکان سے ماچسیں لے آؤں۔ آپ میرے لئیے پانچ درجن کِنو گِن کر پیک کر دو۔ لیکن اچھے اچھے دینا ۔ یوں نا ہو کہ گھر جا کر شاپر کھولوں تو گلے سڑے اور خراب نِکلیں۔
ریڑھی والے نے مُجھے جواب دیا۔!
صاحب جی، غریب ضرور ہوں پر بے غیرت نہیں۔ آپ کو اچھے کِنو ملیں گے۔
میں حرام نہیں کھاتا۔؟