طزز معاشرت میں کسی تبدیلی کے خلاف ایک اجتماعی مزاحمت انسان کی سرشت ہے چنایچہ جب برطانیہ میں ترین چلی تو عوام ہی نہیں پارلیمنٹ میں اس کی شدید مخالفت ہوئی اور مضخکہ خیز دلائل میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سےخواتین کے حمل ساقط ہو جائیں گے اور گائیں دودھ دینا چھوڑ دین گی۔ایسے ہی مخالفت کا سامنا گراہم بیل کو ٹیلیفون اور گٹن برگ کو چھپائی کی مشین کو متعارف کراتے وقت ہوا تھا۔ یہ گزشتہ صدی کا ماجرا ہے جب کوٹ پتلوں اور ٹائی استعمال کرنے والے یا انگریزی بال کٹوانے والے عوامی مخالفت میں کرسٹان قرار دۓ گۓ ۔۔۔ لیکن میں اپنے وقت کی بات کرتا ہوں
میرے نزدیک سوتی بتیوں والا مٹی کے تیل کا چولھا اس عورت کی زندگی کو سکھی بنانے والی پہلی انقلابی ایجاد تھی جو صدیوں سے لکڑی اور اپلے کی دھویں والی آگ میں آنکھیں پھوڑتی اور کھانستی چھینکتی گھر بھر کے لۓ روٹیاں تھوپتی اور برتنوں کو کالک سے صاف کر کے چمکانے کے لیۓ راکھ مٹی سے رگڑتی آئی تھی۔یک لخت دھواں دیتی گیلی لکڑیوں کو 'پھکنی' سے پھونکیں مار کے جلانےکا عزاب ختم۔کالے برتن صاف کرنے کی مشقت ختم۔کچی پکی یا جلی روٹی سامنے رکھنے کی شرمندگی ختم۔۔۔ لیکن اعتراض کیا گیا کہ روٹی سے مٹی کے تیل کی بو آتی ہے۔۔ لکڑی کی آنچ پر پکی ہانڈی خے زایقے کی بات ہی کچھ اور تھی۔ ظلم یہ ہے کہ انڈیا پاکستان کے علاؤہ دنیا میں کہیں روٹی گھر میں نہیں پکائی جاتی آپ کو آج بھی ایسے لوگ ملتے ہیں جنکا اعتقاد ہے کہ گراییڈر کے مقابلے میں سل بٹے پر پیسے گۓ مصالے یا چٹنی کا ذایقہ بہت بہتر ہوتا ہے لباس مین فیشن ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنا۔1965 میں تنگ موری کی پتلون اور لمبی نوک کے جوتے پہننے والے ٹیڈی بواۓ کھلاۓ اور خود مجھ پر لاہور جیسے شہر میں سر راہ آوازے کسی گۓ اور ایک بار معمولی پتھراو بھی ہوا،اسی سال شادی کے بعد بیوی کا پردہ چھڑانے پر ہمارا خانداں کے ہر گھر میں داخلہ ممنوع قرار پایا۔صرف پاںچ سال بعداسی خاندان میں بچی بوڑھی کوٰی پردہ دار نہ تھی 1950 کے لگ بھگ سینما مخرب اخلاق اور بصارت کی تباھی کا سبب تھا جب کہ یہ خاکسار انھی ست سالوں میں ایک ہزار سے زائد فلمیں ملاحظہ فرما چکا تھا 1980 مین وی سی آر لانے اور 1992 میں گھر کی چھت پر ڈش لگانے پر کہا گیا کہ اب میری بیٹیو ں کے با کردار رہنے کا کوئی امکان نہیں۔
اسی دور میں ڈی آئی خان سے آنے والے ایک عزیز نے واپسی پر شہر والوں کی بے شرمی پر کان پکڑے کہ بیوی اپنے شوہر ساس سسر کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کے کھانا کھاتی ہے۔ بے شمار لوگ آج بھی اٹیچ باتھ کو قبول نہیں کرتے کہ جہاں سونا وہیں پخانہ۔۔توبہ توبہ۔ کموڈ کی ضرورت اور افادیت کا تب پتا چلتا ہے جب گھٹنے جواب دے جاتے ہیں لیکن میری اپنی تعلیم یافتہ فیملی میں بہت لوگ بدستور اج بھی فرش نشیںنی اور لوٹے کے قائل ہیں حالانکہ رہتے کوٹھی میں ہیں۔
آج گھر گھر کیبل اور نیٹ ٹی وی ہے۔سب سے زیدہ مخالفت کا سامنا ٹیلی فون کی جگہ موبایل کو کرنا پڑا ۔اس سے دماغ کا سرطان ہوتا ہے آدمی بہرہ ہو جاتا ہے یہ دھماکے سے پھت جاتے ہیں۔۔ میری عمر کے زیادہ تر لوگ آج بھی ای میل نہیں کر سکتے اور نام سیو نھیں کر سکتے اینڈرویؑیڈ سیٹ اور نیٹ سے الرجک ہیں
۔ایک دلچسپ مشاہدہ آپ بھی کر سکتے ہیں۔بیشتر خواتین کو اسمارٹ ٹی وی /اے سی کو ریموٹ سے ٹیون کرنا نہیں آتا۔۔اپنی خاتون خانہ سے فرمائش کر کے دیکھ لیں