مختلف محرکات لوگوں کو فلسفی بننے کی راہ پر ڈالتے رہے ہیں۔ ان میں سے سے زیادہ قابلِ احترام محرک دنیا کو سمجھنے کی خواہش رہی ہے۔ ابتدائی زمانے میں فلسفہ اور سائنس دونوں ایک شے تھے۔ ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا تھا لہٰذا دنیا کو سمجھنے کا محرک سب پر غالب تھا۔ اسی زمانے میں فلسفے کی طرف راغب کرنے والا ایک اور محرک حواس کی فریب کاری تھا۔ اس قسم کے سوالات اٹھائے جایا کرتے تھے کہ قوس قزح کیا ہے؟ کیا چیزیں اصل میں ویسی ہیں جیسی کہ وہ سورج کی روشنی میں نظر آتی ہیں یا جیسی وہ چاندنی میں دکھائی دیتی ہیں۔ ان مسائل کو قدرے جدید اصولوں میں یوں پیش کیا جاتا ہے کہ کیا چیزیں ویسی ہیں جیسی کہ وہ ننگی آنکھ سے نظر آتی ہیں یا جیسی کہ وہ خوردبین سے نظر آتی ہیں۔
خیر اسی قسم کے معموں اور الجھیڑوں کی جگہ جلد ہی ایک بڑے مسئلے نے لے لی۔ یونانی اولمپس کے دیوتاؤں کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے فلسفہ میں روایتی عقیدوں کا متبادل تلاش کرنا شروع کردیا۔ ان دونوں محرکات کے امتزاج سے فلسفے میں ایک دہری تحریک شروع ہوئی۔ ایک طرف تو وہ یہ ظاہر کرتی دکھائی دیتی تھی کہ روزمرہ کی زندگی میں ہم جس شے کو علم خیال کرتے ہیں ، وہ حقیقی علم نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ یہ سوچنے کا میلان پیدا کرتی تھی کہ کوئی گہری فلسفیانہ سچائی موجود ہے، جو اکثر فلسفیوں کے نزدیک، ہمارے روزمرہ کے عقائد کے مقابلے میں اس شے کے زیادہ موافق ہے جیسی کہ ہماری کائنات کو ہونا چاہیئے۔ کم و بیش تمام فلسفے میں شک اہم آلہ کار رہا ہے اور یقینی طور پرشک فلسفے کا مطمع نظر بھی ہے۔ حواس پر شک کیا جاتا رہا ہے، سائنس پر شک کیا جاتا رہا ہے اور الہیات پر بھی شک کیا جاتا رہا ہے۔ بعض فلسفی ان میں سے کسی ایک شک پر زور دیتے رہے ہیں اور دوسرے فلسفی کسی اور شک کے زیرِ اثر رہے ہیں۔ ان شکوک کے جو جوابات دیئے گئے، وہ تمام فلسفیوں کو مطمئین نہ کرسکے۔ لہٰذا ان کے درمیان اختلافات موجود رہے ، یہاں تک کہ وہ اس امر پر بھی متفق نہ ہوسکے کہ آیا کوئی جوابات ممکن ہوسکتے ہیں یا نہیں۔
مجھے فلسفے کی طرف راغب کرنے میں تمام روایتی محرکات نے حصہ لیا۔ تاہم وہ محرکات نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا ہے۔ پہلا اور زیادہ دیر پا ثابت ہونے والا محرک یہ خواہش تھی کہ ایسا علم تلاش کیا جائے جو شبہات سے پاک ہو اور جس کو یقینی طور پر سچا تسلیم کیا جاسکے۔ دوسرا محرک مذہبی احساسات کے لیے کوئی نہ کوئی تسکین حاصل کرنے کی خواہش تھی۔ میرا خیال ہے کہ پہلے پہل گیارہ برس کی عمر میں فلسفے کی طرف میری توجہ ہوئی (یہ اور بات ہے کہ ان دنوں میں تحفظ "فلسفہ" سے ناآشنا تھا) میرا بچپن زیادہ تر تنہائی کا شکار رہا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ میرا بھائی عمر میں مجھ سے سات سال بڑا تھا۔ بلاشبہ زیادہ تنہائی کے باعث گھمبیر سنجیدگی مجھ پر طاری ہوگئی۔ سوچنے کے لیے میرے پاس بہت سا وقت تھا لیکن ظاہر ہے کہ علم زیادہ نہ تھا جو سوچ بچار کا مواد بن سکتا۔ مجھے اس زمانے میں خبر نہ تھی لطف ریاضیاتی ذہن کی نشاندہی کرنے والے استدلال میں آتا تھا۔ بعد ازاں جب میں نے ہوش سنبھالا تو دیکھا کہ بعض دوسرے لوگوں کی کیفیت بھی یہی ہے۔ میرا دوست جی۔ایچ۔ہارڈی نظری ریاضی کا پروفیسر تھا۔ وہ بہت اعلٰی سطح پر اس سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ ایک بار اس نے مجھے بتایا کہ اگر اس کو اس امر کا ثبوت مل جائے کہ میں پانچ منٹوں کے اندر مرنے والا ہوں تو اگرچہ اس کو مجھ سے محروم ہونے کا رنج پہنچے گا، لیکن ثبوت سے حاصل ہونے والی خوشی اس رنج سے کہیں زیادہ ہوگی۔
اپنے دوست کی زبان سے یہ بات سن کر مجھے ذرا بھی تکلیف نہ پہنچی بلکہ مجھے تو اس سے پوری ہمدردی پیدا ہوگئی۔ ابھی میں نے جیومیٹری کا مطالعہ شروع نہ کیا تھا تو کسی نے مجھے بتایا کہ جیومیٹری چیزوں کو ثابت کرسکتی ہے، چناچہ جب میرے بھائی نے کہا کہ وہ مجھے جیومیٹری پڑھایا کرے گا تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس زمانے میں جیومیٹری ابھی تک "اقلیدسی" چلی آرہی تھی، بھائی نے مجھے پڑھانے کا آغاز تعریفات سے کیا۔ میں نے ان کو فوراً قبول کرلیا۔ ان کے بعد مسلمات کی باری آئی تو بھائی نے کہا کہ "ان کو ثابت نہیں کیا جاسکتا لیکن باقی چیزوں کو ثابت کرنے کے لیے ان کو قبول کرنا ناگزیر ہے۔" یہ سنتے ہی میری امیدیں پارہ پارہ ہوگئیں۔ میں ایسا علم حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا ۔ جس کو ثابت کیا جاسکے۔ لیکن معلوم اب یہ ہواکہ یہ کام ایسے مفروضوں کو قبول کرنے کے بعد کیا جاسکتا ہے کہ جن کو خود ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
غصے اور احتجاج کے ساتھ بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے کہا کہ "اگر ان باتوں کو ثابت نہیں کیا جاسکتا تو میں ان کو کیوں مان لوں؟ " اس نے جواب دیا "اچھا تم نہ مانو گے تو ہم آگے نہ بڑھ سکیں گے۔" اس پر میرے جی میں آیا کہ آگے تو بڑھنا چاہیئے، شاید کوئی بات بن جائے ، یوں تو وقتی طور مسلمات کو قبول کرنے پر رضامند ہوگیا۔ شک و شبہات مگر موجود رہے اور وہ جو جیومیٹری سیکھنے کا شوق تھا، پہلے جیسا نہ رہا۔ ان شکوک و شبہات کی شدت برقرار نہ رہی۔ ریاضی سے مجھے گہری مسرت ہونے لگی۔ یہ مسرت اس قدر زیادہ تھی کہ کسی اور مطالعے سے مجھے حاصل نہ ہوئی۔ میں طبعی دنیا پر ریاضی کی اطلاقات کے بارے میں سوچنا پسند کرتا تھا اور امید کرتا تھا کہ جلد ہی انسانی کردار کی ریاضی وجود میں آجائے گی اور وہ مشینوں کی ریاضی جتنی صریح ہوگی۔ یہ اُمید اس لیے تھی کہ میں ثبوت پسند کرتا تھا۔ اکثر اوقات یہ محرک آزاد ارادہ میں یقین کرنے کی خواہش پر بھی غالب آجاتا تھا۔ بہرحال ان ساری باتوں کے باوجود ریاضی کے ٹھوس ہونے کے بارے میں میرے بنیادی شکوک برقرار رہی رہے اور میں ان سے پوری طرح نجات نہ پاسکا۔
جب میں نے اعلٰی ریاضی سیکھنی شروع کی تو نئی الجھنوں نے گھیر لیا۔ استاد مجھے ایسے ثبوت پیش کرتے تھے جو مجھ کو غلط محسوس ہوتے تھے۔ بعد ازاں مجھے معلوم ہواکہ ان کو جعلی تسلیم کیا جاچکا تھا۔ ان ایام میں یا کیمرج چھوڑنے کے بعد کچھ عرصے تک مجھے یہ بالکل خبر نہ تھی کہ جرمن ریاضی دانوں نے بہتر ثبوت ڈھونڈ لیے تھے ۔ اس لیے میں کانٹ کے فلسفے کے دلیرانہ اقدامات کا بدستور مداح رہا۔ یہ فلسفہ ایک بڑا نیا سروے سامنے لاتا ہے۔ جس کے حوالے سے اس قسم کی مشکلات غیر مؤثر اور غیر اہم ہوجاتی ہیں جو میرے لیے پریشان کن رہی تھیں۔ پھر وہ زمانہ مابعد الطبیعاتی پریشان خیالی کی دلدل میں میرے گہرائی تک اترنے کے بعد ہی آیا۔ فلسفے کی طرف میری رغبت ریاضی سے کسی حد تک بیزاری کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ یہ بیزاری اس قسم کی مہارت پر بے حد توجہ مرکوز کرنے اور اس میں پوری طرح ڈوب جانے کا نتیجہ تھی، جس کی ضرورت امتحانات میں پڑتی ہے۔ امتحانی تکنیک حاصل کرنے کی کوشش نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ریاضی عیارانہ داؤ پیچ اور معصومانہ تدبیروں پر مشتمل ہے اور مجموعی طور پر کسی لفظی معمے جیسی ہے۔ کیمرج یونیورسٹی میں تین سال گزارنے کے بعد جب ریاضی کے اپنے آخری امتحان سے فارغ ہوا تو میں نے قسم کھائی کہ آئندہ کبھی ریاضی کی طرف توجہ نہ کروں گا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ریاضی کی اپنی ساری کتابیں بیچ ڈالیں۔ اس ذہنی کیفیت میں فلسفہ کے مطالعہ سے مجھے ویسی مسرت حاصل ہوئی جیسی کہ کسی تنگ وادی سے نکلنے پر کوئی وسیع ارضی منظر عطا کرتا ہے۔
بات یہ نہیں کہ میں نے صرف ریاضی سے تیقن حاصل کرنا چاہا تھا۔ ڈیکارٹ کی طرح (جس کے کام سے ابھی تک لاعلم تھا) میرا خیال بھی یہ تھا کہ میرا اپنا وجود میرے لیے ہر قسم کے شبہات سے محفوظ ہے۔ مزید بران ڈیکارٹ کی طرح مجھے بھی یہ فرض کرنا ممکن لگتا تھا کہ خارجی دنیا محض ایک خواب ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خیر اگر وہ خواب ہے تو بھی ایسا خواب ہے جس کو حقیقی طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہ امر واقعہ بالکل یقینی رہتا ہے کہ اس کا تجربہ کرتا ہوں۔ اس خواب کو دیکھتا ہوں۔ پہلے پہل سولہ سال کی عمر میں مجھے یہ طرز ِ فکر سوجھا اور بعد میں مجھے یہ جان کہ خوشی ہوئی کہ ڈیکارٹ نے اس کو اپنے فلسفے کی اساس بنایا تھا۔
کیمرج یونیورسٹی میں زمانہ طالب علمی کے دوران فلسفے میں میری دلچسپی کو ایک اور بھی محرک ملا۔ جس تشکیک پسندی نے مجھے ریاضی پر شک کرنے پر اکسایا تھا، اسی نے مجھے مذہب کے بنیادی عقائد پر انگلی اٹھانے کی ترغیب بھی دی۔ تاہم میں چاہتا تھا کہ کوئی ایسی راہ تلاش کرلی جائے جس کے ذریعے کم از کم ایسی شے کو بچایا جاسکے جس کو مذہبی ایمان پر غور و فکر میں صرف کیا۔ میں نے بنیادی عقیدوں کا ایک ایک کرکے جائزہ لیا۔ خلوصِ دل سے مجھے امید تھی کہ میں ان کو قبول کرنے کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ لوں گا۔ میں نے اپنے خیالات ایک نوٹ بُک میں درج کرتا رہا جو ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ بلاشبہ وہ خیالات ناپختہ اور نوجوانی کی خصوصیات کے حامل تھے لیکن ان کی پیش کردہ لا ادریت کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
کیمرج میں مجھے ان پورے فکری نظاموں کی تعلیم دی گئی جن سے میں بے خبر چلا آرہا تھا، چنانچہ میں نے وقتی طور پر وہ خیالات تیاگ دیئے جن پر میں تنہائی میں غور وفکر کرتا رہا تھا۔ کیمرج میں مجھے ہیگل کے فلسفے سے متعارف کروایا گیا جو انیس نہایت ہی مشکل کتابوں میں ایسی فکری نظام پیش کرنے کا مدعی تھا جو روایتی عقیدوں کے شائستہ اور تصیح شدہ متبادل کے طور پر کام دے سکے۔
ہیگل کے نزدیک یہ ساری کائنات ایک وحدت ہے اور اس میں تمام اشیاء بہت ہی قریبی طور پر ایک دوسرے سے منضبط ہیں۔ گویا کائنات برتن میں رکھی ہوئی جیلی کی طرح ہے۔ آپ اس کے کسی حصے کو چھیڑیں تو وہ ساری کی ساری تھرتھرانے لگتی ہے۔ ایک اور پہلو سے دیکھیں تو کائنات جیلی سے بالکل مختلف شے ہے۔ وہ یوں ہے کہ آپ جیلی کو ٹکڑوں میں کاٹ سکتے ہیں لیکن کائنات ہیگل کے نزدیک ایک ایسی وحدت ہے جس کے حصے بخرے کیے جاسکتے۔ ہیگل کہتا ہے کہ جو حصے بخرے ہم کو نظر آتے ہیں وہ محض فریبِ نظر ہیں۔ واحد حقیقت بس مطلق ہی ہے۔ مطلق سے اس کی مراد خدا ہے۔
ایک زمانے میں مجھے اس فلسفے میں تسکین ملی۔ مجھے یہ فلسفہ ہیگل کے پیروکاروں سے اور خصوصاً میک ٹیگرٹ سے پڑھنے کا موقع ملا۔ جو ان دنوں میرا قریبی دوست تھا۔ ان صاحبان نے مجھے اس فلسفے سے یوں متعارف کروایا کہ وہ مجھے دلکش اور قابلِ ثبوت محسوس ہونے لگا۔ میک ٹیگرٹ مجھ سے تقریباً چھ سال بڑا فلسفی تھا۔ اور زندگی بھر وہ ہیگل کا پُر جوش شاگرد رہا تھا۔ اس نے اپنے معاصرین پر خاص اثر ڈالا تھا اور کچھ عرصہ میں بھی اس کے سحر میں مبتلا رہا۔ ہیگل کے فلسفے کے زیرِ اثر اپنے آپ یہ یقین دلانے میں انوکھی مسرت پنہاں تھی کہ زمان و مکان غیر حقیقی ہیں۔ مادہ محض التباس ہے اور یہ کہ دنیا میں سوائے ذہن کے اور کچھ نہیں۔ پھر بے دھڑکی کا ایک ایسا لمحہ آیا کہ میں چیلوں کو چھوڑ کر خود گررو سے رجوع کر لیا۔ جب میں ہیگل کی کتابیں پڑھیں تو ان میں مجھے پریشان خیالی اور الجھاؤ ے نیز ابہام اور ذومعنویت کے ملغوبے کے سوا کچھ نہ ملا۔
کچھ عرصے کے لیے مجھے ایک ایسے نظریئے سے تسکین ملی جو کسی قدر و ترمیم کے ساتھ افلاطون سے اخذ کیا گیا تھا۔ افلاطون کے مطابق تصورات کی ایک غیر مبدل ابدی دنیا ہے۔ ہمارے حواس اس کی ناقص نقل ہمیں پیش کرتےہیں۔ اس نظریئے کے مطابق ریاضی کا تعلق تصورات کی دنیا سے ہے لہٰذا اس میں ایسی صراحت اور کمال پایا جاتا ہے۔ جو روز مرہ کی دنیا میں نہیں ملتا۔ افلاطون نے اس قسم کی ریاضیاتی سریت فیثا غورث ہی سے مستعار لی تھی۔ اس نے مجھے متاثر کیا، لیکن آخرکار میں نے اس نظریے کو بھی ترک کریا۔ اس کے بعد مجھے کسی ایسے فلسفیانہ نظریئے سے مذہبی تسکین نصیب نہیں ہوئی جس کو میں قبول کرسکتا۔
برٹرینڈرسل
اردو ترجمہ: قاضی جاوید