تنہائی میرا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ تنہائی میری سب سے بڑی مضبوطی ہے۔ میں تنہا ہوتا ہوں اور اپنی دنیا کا سکندر اعظم بن جاتا ہوں۔ جو بس اس خیال سے پیدا ہوا ہے کہ اسے ساری دنیا کو فتح کرنا ہے— بند کمرہ— آنکھوں میں چھائی ہوئی دھند— میری میز— میری جانی پہچانی کرسی— شیلف میں سجی کتابیں۔ جب بھی گھبراتا ہوں ’پریشان ہوتا ہوں‘ کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کمرہ بند کر لیتا ہوں— آنکھوں میں آہستہ آہستہ دھند کے اترنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دھند کی وادیاں در اصل میری سلطنت ہیں۔ دھند کی ان وادیوں میں اچانک ہزاروں قمقموں کے برابر روشنی پھیل جاتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں‘ میں ہوا کے رتھ پر سوار ہوں۔ بس اڑتا جاتا ہوں۔ خوش رنگ مناظر حیرت سے اپنے آقا کی نہ ختم ہونے والی اڑان کو دیکھ رہے ہیں۔ خوش رنگ مناظر اور آقا—! لیکن یہ سارے گل بوٹے میرے ہیں۔ یہ منظر میرے دم سے خوش رنگ ہیں اور میرے وجود کی خوشبوسے کھلکھلا اٹھتے ہیں۔
میں ایک لمحے کو ٹھہرتا ہوں۔ آنکھوں میں جلتے ہوئے چراغ کانپ رہے ہیں۔
کیا ہوا—؟
کچھ نہیں۔
کچھ کیسے نہیں—؟
’دیکھنے والے کل تمہیں بھی دیکھیں گے اور دیکھتے رہ جائیں گے— گھبراو مت۔ موسم کا مزاج بدل رہا ہے۔ ہوا تیز ہے۔ ابھی حال میں ممبئی میں بارش نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا ۔ ۔ ایک دن ایک تیز آندھی آئے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ میں کبھی نہیں گھبرایا۔ گھبراتا کیسے۔ یاد ہے۔ ہم چھوٹے تھے۔ تین بھائی، تین بہن۔ ابا سارے بچوں کو گھیر کر کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ان کہانیوں میں داستان امیر حمزہ سے لے کر ملفوظات خواجگان چشت، رامائن، مہابھارت، ورڈس ورتھ سے غالب اور طلسم ہوش ربا سے دمیجک ماونٹین تک اور سراج انور کی کالی دنیا سے لے کر ہومی جہانگیر بھابھا جیسے سائنسدانوں کی کہانیاں یا آپ بیتی بھی ہوتی‘ جنہیں سنتا‘ سناتا ہوا میں کب اپنی سلطنت کا امیر بن بیٹھا‘ یاد نہیں— بچپن میں کھیل مجھے کبھی راس نہیں آئے۔ ہر کھیل میں ہار جاتا تھا۔ یاد ہے اس رات ابا خواجہ بابا (حضرت خواجہ غریب نواز اجمیری) کے بارے میں بتا رہے تھے۔ جب انہیں خواجہ عثمان ہارونی کی پابوسی کی دولت نصیب ہوئی۔ وہ خواجہ کو لے کر بدخشاں میں آئے۔ ایک بزرگ سے ملے‘ جس کی عمر سو سال سے بھی زیادہ تھی۔ وہ خدا کی یاد میں زندگی کے باقی ماندہ دن گزار رہا تھا لیکن اس کا ایک پاوں نہ تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اک بار نفسانی خواہش کی خاطر اس نے جھونپڑی سے باہر قدم نکالا ہی تھا کہ آواز آئی کہ لے‘ آج تو اپنے اقرار سے پھر گیا۔ ہیبت طاری ہوئی۔ چھری پاس پڑی تھی۔ اس نے چھری اٹھائی۔ آنکھیں بند کیں۔ پاوں کاٹ ڈالا اور باہر پھینک دیا—
ابا کہانی سنا چکے تھے۔ مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ میں کمرے میں آیا۔ دھند کے بننے اور پھیلنے کا سلسلہ شاید یہیں سے شروع ہوا۔
میں نے آنکھیں بند کیں۔ میں ہوں…. میں ہوں….
میں مشرف عالم ذوقی…. میں ہوں….
آواز آئی۔ لیکن تم کہاں ہو۔ تم تو کہیں بھی نہیں ہو۔ تم تو معمولی سے معمولی کھیل میں بھی ہار جاتے ہو….
مجھ پر لرزہ طاری تھا…. میں ہوں…. میں ہوں
میں اب نہیں ہاروں گا‘ میں اب صرف جیتوں گا‘ میں نے کھلونے اٹھائے۔ باہر پھینک دیئے۔ ۔ قلم اٹھایا۔ آنکھوں سے لگایا۔ اب صرف جیتوں گا…. صرف جیتوں گا۔
تنہائی سے یہ میری پہلی خودکلامی تھی جس نے مجھ میں جینے کا الکھ جگایا …. مدتوں بعد پروفیسر ایس کی عجیب داستان لکھتے ہوئے یہ خود کلامی مجھ پر سوار تھی‘ جسے پروفیسر ایس کے کردار میں ڈھالتے ہوئے اور تین مونو لاگ کی شکل میں پیش کرتے ہوئے ایک عجیب سی تخلیقی سرشاری میرے وجود پر حاوی رہی….
تنہائی اور قلم— مجھے میرے جینے کا سہارا مل گیا تھا۔ میں اپنی تنہائیوں کو قصے جمع کرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔ چھوٹے چھوٹے نوٹس تیار کرتا۔ پھر ان قصوں کو لکھ ڈالتا— زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہ بھی کہ غرور کسی بھی تخلیق کار کے لیے موت سے کم نہیں— مجھے یاد ہے‘ اسکول سے کالج تک میں اپنے ’ہونے‘ کے نشہ میں گم تھا۔ مجھے اپنی خوبصورتی اپنے خوبصورت چہرے، اپنی بلا کی ذہین آنکھوں پر غرور تھا۔ بچپن میں اکثر یہ مکالمہ دوسروں سے سننے کو ملا کہ مشرف جیسی آنکھیں تو صدیوں میں کسی کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بس یہ نشہ بڑھتا گیا۔ اپنے آپ سے محبت کا یہ نشہ اتنا گہرا تھا کہ میں کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتا۔ مگر آہ اسی غرور نے مجھے انسان بنانے کا بھی کام کیا۔ مجھے اپنے الجھے الجھے گیسو پسند تھے۔ دہلی آنے کے بعد سر سے بال کم ہوتے گئے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر ناز نہیں‘ بلکہ غرور تھا۔ خدا نے ان آنکھوں کو کمزور کر دیا اور ہمیشہ کے لیے ایک سیاہ چشمہ میری آنکھوں پر آگیا۔
میری خود کلامی کا دوسرا دور تھا—
خودپسندی کے صحرا سے باہر نکل آو۔
ہوں؟
یہ تمہیں تباہ کر دے گی۔
کردے ‘ بلا سے—
تمہارے اندر کا تخلیق کار مرجائے گا۔
میرے اندر کا تخلیق کار— میں کانپ رہا تھا۔ یہ مرجائے گا تو میں…. میں زندہ کب رہوں گا—؟ سوال نے پھر سر نکالا۔ دہلی کی بھیڑ بھری سڑکوں پر کون تم سے چھوٹا ہے؟ یہاں پرائم منسٹر رہتے ہیں۔ کوئی بھی پتھر چلا کر دیکھو‘ کسی گیان پیٹھ انعام یافتہ یا پھر کسی بڑے آدمی کے گھر گرے گا۔
’تو….؟‘
آدمی بن جاو۔ اب بھی وقت ہے۔ سب تمہارے جیسے ہیں۔ بڑا پیڑ’ بوڑھا ہو کر جھک جاتا ہے۔ ہر بڑے آدمی کے اندر ایک خاکساری ہوتی ہے۔ اور میاں تم تو خاکساری کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔
لیکن میں مغرور کہاں ہوں—؟
ہو کیسے نہیں— تنہائی کا سانپ ڈس رہا تھا۔ بال اڑ گئے۔ آنکھیں کمزور ہوگئیں۔ مگر غرور کا دامن نہیں چھوڑا۔ لکھنا چاہتے ہو نا‘ تو لکھو۔
میں نے اپنا جائزہ لیا— دھند بڑھ گئی تھی۔ دھند میں قمقمے روشن تھے اور تیز روشنی میں‘ میں اپنے سہمے ہوئے ہمزاد کو پہچان سکتا تھا—
تم دوسروں سے مختلف ہو۔ مختلف ہونا برا نہیں ہے۔ بس ذرا اس خود پسندی کے نشہ سے دور نکل آو۔ پھر دیکھو۔ یہ ساری دنیا تمہاری ہے۔
یہ سچ ہے کہ دہلی آنے کے بعد ایک نئے ذوقی کا جنم ہوا تھا۔ جو سب سے ہنستا ملتا تھا۔ مسکراتا تھا۔ جو محفلوں میں اینگری ینگ مین تو مشہور تھا لیکن جس سے ملنے والے یہ کہنے سے نہیں گھبراتے کہ یار تم سے پہلے ملتے ہوئے گھبراتا تھا۔ سوچتا تھا‘ کہیں تم ٹھیک سے بات نہ کرو تو…. میں اکثر و بیشتر خود سے دریافت کرتا ہوں کہ لوگ میرے بارے میں ایسی رائے کیوں رکھتے تھے۔ ممکن ہے‘ یہ غرور‘ یہ انا‘ انہیں میری کہانیوں میں بھی دکھائی دے جاتی ہو۔ مگر سچ یہ ہے کہ میں نے خود کو بدلنا شروع کر دیا تھا اور میری اس تبدیلی میں سب سے بڑا ہاتھ تبسم کا تھا۔
دھند مجھ پر حاوی تھی۔ تنہائی آہستہ آہستہ مجھے اپنی گرفت میں لے رہی تھی۔ محبتیں مجھے خوش آمدید کہہ رہی تھیں اور زندگی کی الجھنیں میرا راستہ روک رہی تھیں۔ لیکن قلم ہر بار میرا ساتھی تھا۔ دوستوں سے بڑھ کر میرے دکھ اور سکھ میں شریک۔ پھر میں سب سے ملنے لگا۔ پھر میں سب سے بچھڑ گیا۔ میں فون پر گفتگو تو کر لیتا تھا مگر کسی سے بھی ملنا نہیں چاہتا تھا۔ محفلوں، سیمیناروں میں جانا چھوڑ دیا۔ پھر یوں ہوا کہ میں تنہائی کی وحشت کا اسیر ہوگیا۔ بند کمرہ مجھے پاگل کر دیتا تھا۔ لفٹ میں داخل ہونے سے گھبراتا تھا۔ پلین میں سفر نہیں کرسکتا تھا۔ ٹرین کے ایرکنڈیشنڈ ڈبے میں بند ہونے کا خوف میری جان لے لیتا تھا۔ یہ بیماری بڑھتی گئی۔ اور اس بیماری کا علاج کسی نفسیاتی معالج‘ کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں تھا۔ میرے پاس اب ایک ہی راستہ بچا تھا۔ میں نے پروفیسر ایس کی تخلیق کی‘ اور اس کے کردار میں یہ بیماری ڈال دی۔ اس پر بھی بس نہیں ہوا تو میں نے بے رحمی سے اس کردار کو ’موت‘ دے دی۔ ایک گھٹن بھری موت۔
کہتے ہیں گابرئیل گارسیا مارخیز اداسی کے سو سال ‘ لکھنے کے بعد جی بھر کر رویا تھا۔ وہ کردار اس کے اپنے کردار تھے۔ اس کے آس پاس گھومتے ہوئے لوگ اس کے ناول کے کردار بن گئے تھے۔ لیکن میں نے تو پروفیسر ایس کی عجیب داستان میں اپنا ہی قتل کر دیا تھا۔ اس قتل کے بعد مجھے سکون میسر تھا۔ تخلیقی سرشاری کا احساس بھی تھا۔ ایک بوجھ میں نے اتار دیا تھا۔ اب میں آزاد تھا۔ اب تیسرے مونولاگ کا وقت تھا۔
بہت حبس ہے ..
ہاں
ادب کے موسم میں بھی ..
ہاں ..
کیا تم نے نئے لوگوں کو پڑھا ہے ؟نگہت سلیم ، سیمیں کرن ، فارحہ ارشد، منیزہ احتشام ، رابعہ الرباء، اور بہت سے نام جو ہندوستان سے لے کر پاکستان تک اور عالمی بستی کا حصّہ ہیں . پڑھا ہے ؟