تاریخ کے طالب علموں کے لیئے خاص
مائی کلاچی حقیقت یا فسانہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا ہمارے نام نہاد تاریخ دان ، سکندر اعظم اور محمد بن قاسم سے لے کر خان آف قلات کے دور اور پھر کلہوڑوں
سے ہوتے ہوئے میروں کے دور اور انگریز راج تک کراچی کا نام کسی مائی کلاچی کے نام سے منسوب کسی کتاب ، کسی خط کسی اور تحریر میں یا کوئی جغرافیائی نقش دکھا سکتے ہیں؟؟
کراچی کی کھارادر اور میٹھا در کی ٹیکری (چھوٹی پہاڑی) کو جسے ہم غلطی سے کراچی کی قدیم ترین بستی سمجھتے ہیں اور جسے لس بیلہ کی کھارک بندر تباہ ہونے کے بعد وہاں کے بڑے کاروباری شخص سیٹھ نائو مل ہوت چند کے دادا نے سونمیانی سے لا کر بسائے گئے ماہی گیروں کے لیئے ایک قلعہ نما شہر بنا کر آباد کیا تھا ۔ جبکہ در حقیقت کراچی کی بحر ہند کو لگی ساحلی پٹی موہن جو دڑو کے زمانے سے بحری تجارت کے حوالے سے ہزاروں سالوں سے جزیرہ نما منوڑا،جزیرہ کیاماڑی اور اس کے گرد و نواح کے سمندری جزیروں پر مشتمل ایک بحری بندر گاہ تھی ۔ یہاں سے پسنجر اور کارگو لے جانے والی بڑی بادبانی کشتیاں گژرتی اور لنگر انداز ہوتی تھیں جن سے یہاں پر قلعہ بند سپاہی متعین کرنے والے حکمران وقت چنگی (ٹیکس) وصولتے تھے ۔
سکندر اعظم کے زمانے میں یہ بندرگاہ کروکلا سے سفر کرتی عربوں کے دور میں دیبل کہلائی ۔
چونکہ یہ ساحلی پٹی نہایت ہی خطرناک سمندری بھنوروں سے اٹی پڑی تھی اور جسکی دہشت سے ملاح کانپتے تھے اور اسے کلاچ کے نام پکارتے تھے ۔جہاں تھوڑی سے غلطی سے کشتیاں الٹ کر تباہ ہو جاتی تھیں ۔ حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی نے بھی اس ساحلی پٹی کا سفر کیا اور اپنی مژوہر
زمانہ رسالے میں پورا سر سامونڈی اس حوالے سے تحریر کیا ۔
موجود زمینی (جغرافیائی) حقائق کے مطابق آج سے چھ سو سال کے قریب کچھ کے فار ایسٹ سے جنوبی افریقہ تک تجارت کرنے والے ممتاز بحری تاجر ''بھوج مل نینسی بھاٹیہ'' نے بحر ھند میں اپنے مذھب کے سمندری دیوتا ''ورون'' کے نام سے دو مندر تعمیر کرائے ایک فار ایسٹ میں اور دوسرا اسی کراچی کے جزیرے منوڑہ میں حکمران وقت سے زمین خرید کر اپنے خرچ سے تعمیر کرائے تاکہ سمندری دیوتا اس کی بحری تجارت میں اس کی کشتیوں اور اس پر موجود ملاحوں ، معلم ار ناخدائوں اور مسافرون کے جان و مال کی حفاظت کرے ۔( یاد رہے کہ ورون دیوتا کے دو ہی قدیل ترین مندر ہیں) یہ مندر آج بھی اسی جگہ قائم و دائم ہے ۔ ماضی میں 1917-18 میں اس کی تزئین و آرائش خیر پور سندھ کے ایک ہندو تاجر سیٹھ ہرچند مل دیا داس نے اپنے پیسوں سے کرائی ۔ یہ کراچی کی واحد قدیم ترین تاریخی اور جغرافیائی یاد گار ہے جو آج تک موجود ہے۔
پندرھوین اور سولہویں صدی کے یورپ کے نئی نئی منڈیوں اور کالونیوں کی تلاش میں نکلے لوگوں نے اپنی تحاریر میں اسے کروچے کے نام سے تحریر کیا ہے ۔
جس طرح ہر نیا آنے والا حکمران پرانے لوگوں کی تاریخ اور نشانات کو مٹاتا ہے ٹھیک اسی طرح کراچی کے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے ۔ کراچی کا نام مائی کلاچی بھی ایسے ہی قبضہ گیروں کی دین ہے اور کچھ نہیں۔
ورون دیوتا کا مندر آج بھی کراچی میں اسی جگہ موجود ہے اسکی کاربن ڈیٹنگ کر کے اسکی قدامت معلوم کی جاسکتی ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“