ماہرین کا مغالطہ:
مرغ کی شکل کا ہوا کا رخ معلوم کرنے کا آلہ کچھ عرصے بعد یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ وہ ہوا کا رخ متعین کرتا ہے۔
ہم اکثر کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے کا فرق گڈ مڈ کر جاتے ہیں۔
زبانیں ہزاروں سال پہلے بنیں جبکہ ان کی گرامر یا لغات بہت بعد میں بنیں جو محض زبان کے استعمال کے پیٹرن کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ گرامر یا لغت زبان پیدا نہیں کرتی۔ بلکہ زبان کے ساتھ ساتھ خود کو تبدیل کرتی ہیں۔
یہی مسئلہ سماجی علوم کا ہے۔ یہ علوم سماج کی حرکیات کو سمجھنے کا نام ہے۔ لیکن سماج کی حرکیات کو بدلنے یا ان کا رخ سماج خود متعین کرتا ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین نہیں۔ ہاں اگر ان کے علم یا تجویز کو سماج قابل عمل سمجھے تو اس کو اپنا سکتا ہے۔
ہمارے ملک کے اہل دانش کا جمہوریت سے ایک بنیادی اختلاف ہے۔ ان کے خیال میں جمہوریت اگر ان کے علم کے مطابق نہیں چل رہی تو اس کو بند کردینا چاہیے۔
اور اگر خلق خدا ان کی خواہشات یا علم پر پوری نہیں اترتی یا کسی ایسے شخص کو ووٹ دے دیتی ہے جس کو ان کے سٹڈی سرکل میں پڑھے علم کے مطابق نہیں دینا بنتا تھا تو وہ فرماتے ہیں کہ لعنت ہے ایسی جمہوریت پر۔
ہم سے کئی دفعہ دوست پوچھتے ہیں کہ آپ لوگ محض اعتراضات کرتے ہیں۔ مسائل کا کوئی عملی حل نہیں بتاتے۔
ہماری عرض یہ ہوتی ہے کہ مسائل کا عملی حل عمل سے آتا ہے باتوں سے نہیں۔
بیس کروڑ لوگوں کے ملک کے لیے جو ایک شخص کوئی گھڑا گھڑایا عملی حل دینے کا دعویٰ کرتا ہے ۔وہ اوریا مقبول جان یا حمید گل تو ہو سکتا ہے لیکن کوئی جمہوری یا عملی ذہن نہیں ہوسکتا۔ عملی حل لوگ اور سماج خود اپنے عمل سے تلاش کرتے ہیں۔ جو کہ ایک مسلسل کاوش ہے۔
اس میں عالم، صحافی، دانشور، سیاست دان اور سماج مسلسل ایک دوسرے سے سیکھتے بھی ہیں اور سکھاتے بھی ہیں۔
لہذا کسی بھی کامل یا اٹل کلیے کا دعویٰ کرنا یا اس پر اصرار کرنا ایک فکری مغالطہ ہے۔
معلوم تاریخ سے انسان نے یہ سبق یا تجربہ ضرور حاصل کیا ہے کہ
آمریت کے مقابلے میں جمہوریت
ہر چیز پر ریاستی کنٹرول کے مقابلے میں فری مارکیٹ
مذہبی ریاست کے مقابلے میں سیکولر ریاست
اور گھڑے گھڑائے حل یا عملیات کی نسبت سائنسی طریق کار
عموماً کم ضرر رساں ثابت ہوئے ہیں اور ان میں ارتقا اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے ان کو درست کرنے کی زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود دنیا جنت نہیں ہے۔
کرپشن سے پاک سماج ہم سب کی خواہش ضرور ہے۔ لیکن جس طرح ملک ریاض نے سلیم صافی سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی دو روپے کا کاروبار کیا ہے؟
اسی طرح ہمارے بعض دانشور و اینکر حضرات سیاسی حرکیات کا رخ متعین کرنے پر بضد ہیں۔ تو ان پوچھنا چاہیے کہ بھائی جان زندگی میں کبھی 15 لوگوں کو خود کو ووٹ دینے پر قائل کرنے کا تجربہ کیا ہے؟
تو برادران ہم سب کو اپنی رائے دینے کا حق ہے۔ لیکن سماج کسی ایک فرد کی عقل چلا ہی نہیں سکتی۔ ہر ایک کا مختلف حصہ ہوتا ہے۔
جمہوریت اس بات کو تسلیم کرنے کا نام ہے کہ ہر شہری اپنے حصے کا فیصلہ کرنے اور اپنی عقل استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔