ہماری زندگی کا بڑا گہرا تعلق زمین اور اس کی دوسری زندگی سے ہے۔ اس کا ایک ستون شہد کی مکھی ہے۔ ہماری خوراک میں سے ایک تہائی کا تعلق کسی نہ کسی طرح شہد کی مکھی سے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ جن پودوں کو پولینیٹ کرتی ہیں، ان کی سالانہ مالیت پونے تین کھرب ڈالر ہے۔ سیب، پیاز، کدو اور بہت سے دوسرے پودے جو ہم اور گوشت اور دودھ کے لئے پالے جانے والے جانور استعمال کرتے ہیں، ان کے پیچھے ان کا کردار ہے۔
شہد کی مکھیوں کی تعداد کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ پچلے کچھ برس میں کئی ملین چھتے کم ہو چکے ہیں۔ پوری دنیا میں شہد کی مکھیوں کا کاروبار کرنے والے اس سے واقف ہیں۔ امریکہ میں پہچلے پچیس برس میں ان کی تعداد نصف ہو چکی ہے۔ کولونی کولیپس ڈس آرڈر (یعنی مکھیوں کی پوری کالونی کا ختم ہو جانا) پچھلے دس برس میں پوری دنیا میں پھیلا ہے۔ ہمیں کچھ اندازہ ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ شہد کی مکھیوں کو اپنی زندگی میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے قدرتی دشمن ہیں۔ اکارپس ووڈی ایک خوردبینی کیڑا ہے جو شہد کی مکھی کی سانس کی نالی کو انفیکٹ کرتا ہے۔ یہ اس میں اپنے انڈے دیتا ہے اور اسی سے اپنی خوراک لیتا ہے۔ یہ مکھی کو کمزور کر دیتا ہے۔ ایک اور کیڑا ویروا ڈسٹرکٹر ہے جو اس کے چھتے میں پلتا بڑھتا ہے اور اس کا بڑا دشمن ہے۔ یہ مکھی کے لاروا کو انفیکٹ کرتا ہے اور بڑھتی مکھی کے ساتھ باقی چھتے میں پھیلتا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بعض اوقات مکھیاں اڑنے کے قابل نہیں رہتیں اور پھر رفتہ رفتہ چھتا ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے یہ دشمن اور یہ لڑائی اس کے ہمیشہ رہے ہیں اور مکھیوں کی تعداد میں کمی کی اصل وجہ یہ نہیں۔
فصل پر کیڑے مار دوائیوں میں موجود نیونکنوٹائیڈ آج سے پچیس سال قبل عام استعمال کے لئے ڈی ڈی ٹی کی جگہ پر اپروو ہوا۔ اس وقت کیڑے مارنے کے لئے دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا یہی کیمیکل ہے۔ یہ کیڑوں کے اعصابی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ شہد کی مکھیاں رس چوستے وقت اس کیمیکل سے متاثر ہوتی ہیں اور یہ ان کی پوری کالونی کو آہستہ آہستہ ختم کر دیتا ہے۔ اس کی کم مقدار بھی انہیں اتنا متاثر کرتی ہے کہ یہ راستہ بھول جاتی ہیں اور گم ہو کر مر جاتی ہیں۔ ہمیں اس کیڑے مار دوا سے ہونے والے اس نقصان کا علم ہے۔ اس کے علاوہ شہد کی مکھیوں میں اور نباتات میں بڑھتی ہوئی جینیاتی یکسانیت اور جنگلوں اور ان کے لئے دوسرے قدرتی ماحول کا کم ہونا ان کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ سب عوامل مل کردنیا میں کالونی کولیپس ڈس آرڈر کا باعث بن رہے ہیں۔ شہد کی مکھیاں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں اور اگر ہم طرح طرح کی غذا سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو ان کی بقا کی جنگ میں ہمیں ان کا ساتھ دینا ہے۔ ہمیں دوسری زندگی کا خیال رکھنا ہے۔ اگر قدرت کے رنگوں کو بچانے کے لئے نہیں تو کم از کم اپنے لئے۔
ہماری وجہ سے زمین کو یا زندگی کی زنجیر کو پہنچنے والا کوئ بھی نقصان بالآخر ہمارا اپنا ہی ہے۔ اپنی زندگی کے معیار کو برقرار رکھنے اور اسے بہتر بنانے کا طریقہ حیاتیات اور ماحولیات کے علم کو بہتر جاننا اور ماحول کے بارے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔