ماحولیاتی تبدیلیوں کے پاکستانی زراعت پر اثرات ۔
گلوبل وارمنگ پاکستان میں پہلا اہم اثر زراعت پر ڈالے گا۔تب شدید گرمی کے باعث دن کے بڑے حصّے میں کھیتی باڑی کرنا مشکل مرحلہ بن جائے گا۔ مزید براں بلند درجہ حرارت بعض فصلوں و سبزیوں کی نشوونما پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔ یہ منفی عوامل خوراک کی پیداوار کم کر دیں گے۔ چناں چہ غذائیں مزید مہنگی ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ غریب اور متوسط پاکستانی طبقوں کے لیے اچھی خبر نہیں۔
آب و ہوائی تبدیلیوں نے خریف و ربیع کی فصلیں ہونے کا نظام بھی بدل ڈالا ۔ ماضی میں خریف کی فصلیں (چاول، گنا، کپاس، مکئی، باجرہ) ماہ جون تک بو لی جاتی تھیں۔ یہ فصلیں زیادہ پانی پیتی ہیں، اسی لیے مون سون کے آغاز میں انہیں بویا جاتا ہے۔ مگر اب مون سون اواخر جون یا اوائل جولائی میں شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا خریف کی فصلیں بونے کا زمانہ بھی آگے بڑھ گیا ۔
اس تبدیلی نے ربیع کی فصلوں (گندم، چنا، جو، سرسوں) پر بھی اثر ڈالا۔ پہلے یہ فصلیں ستمبر اکتوبر تک بوئی جاتی تھیں۔ مگر اب ان کی بوائی نومبر تک چلتی ہے۔ غرض آب و ہوائی تبدیلیوں نے فصلیں بونے کا نظام الاوقات ہی بدل ڈالا۔
یہ تبدیلیاں پانی کے نظام پر بھی اثرات ڈالیں گی۔ پاکستانی دریاؤں میں پہاڑوں پر برف پگھلنے سے پانی آتا ہے۔ مگر ماہرین کا دعویٰ ہے، عالمی گرماؤ کے باعث اگلے 40 سے 80 سال میں ہمالیہ، ہندوکش، قراقرم وغیرہ کے تقریباً سبھی گلیشیئر پگھل جائیں گے۔گلیشیئر پگھلنے کے باعث شروع میں موسم گرما کے دوران پاکستان زبردست سیلابوں کا نشانہ بنا رہے گا۔ لیکن اس کے بعد پاکستانی زراعت زیادہ تر بارشوں پر انحصار کرے گی۔ خوش آئند بات یہ ، ماہرین کی رو سے بلند درجہ حرارت کی وجہ سے پاکستان میں بارشوں کی شرح بڑھ سکتی ہے۔ مگر جس سال کم بارشیں ہوئیں، ہمیں قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مستقبل کی درج بالا صورت حال مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ پانی ذخیرہ کرنے والے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے۔ یہ ڈیم نہ صرف سیلاب کی شدت روکیں گے، بلکہ بارشیں نہ ہونے کی صورت میں زراعت کو مطلوبہ پانی بھی فراہم کرسکیں گے۔ اگر زرعی مقاصد کے لیے پانی نہ ملا، تو مستقبل کے پاکستان میں خوراک کا شدید بحران جنم لے سکتا ہے۔
آب وہوائی تبدیلیوں کا مقابلہ یوں بھی ممکن ہے کہ پاکستانی کسانوں کو کھیتی باڑی کے دوران کم پانی سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے طریق کار سکھائے جائیں۔ نیز ایسی غذائیں بھی متعارف کرانا ہوں گی جوکم پانی پی کر نشوونما پالیں۔
درختوں کی کٹائی بھی پاکستان میں عالمی گرماؤ بڑھا رہی ہے۔ یہ درخت ماحول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ چوس کر آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ یوں ماحول صاف ستھرا ہوجاتا ہے۔
مگر ایک طرف لکڑی حاصل کرنے کی خاطر درخت کٹ رہے ہیں، تو دوسری طرف ہاؤسنگ سوسائٹیاں، کارخانے اور دفاتر بنانے کے لیے جنگل صاف کردیئے جاتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے، کاٹے گئے درختوں کی جگہ بہت کم درخت اگائے جارہے ہیں۔ خصوصاً شہروں میں ان کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ اسی لیے شہروں میں فضائی آلودگی بڑھتی جاتی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی شہروں میں زہریلا دھواں اگلتی گاڑیاں اور کارخانوں کی چمنیاں کثرت سے نظر آتی ہیں۔ ان گاڑیوں و کارخانوں کے مالک اتنے دلیر ہیں کہ علی الاعلان فضا میں زہر چھوڑتے ہیں اور پولیس یا شعبہ ماحولیات کا کوئی افسر انہیں روک نہیں پاتا۔
آب و ہوائی تبدیلیوں کا ایک خطرناک مظہر سمندروں کی سطح بڑھنا ہے۔ وجہ یہی کہ دنیا بھر میں گلیشیر اور قطبین پر جمی برف پگھلنے سے سمندروں کی سطح بڑھ رہی ہے۔ خیال ہے، اگلے ایک سو برس میں سطح 6 فٹ بلند ہوجائے گی۔یہ صورتحال پاکستانی ساحلی شہروں کے لیے خطرناک ہے۔ ہمارے کئی ساحلی شہر مثلاً کراچی، پسنی، جیوانی وغیرہ سمندری سطح سے کچھ ہی بلند ہیں۔ لہٰذا 6 فٹ کا اضافہ ان شہروں کے کئی علاقے پانی میں ڈبو دے گا۔
عالمی گرماؤ کے دیگر اثر
فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کچھ حصہ سمندروں میں جذب ہوجاتا ہے۔ چونکہ فضا میں اس گیس کی مقدار بڑھ چکی لہٰذا وہ زیادہ تعداد میں سمندروں میں جذب ہورہی ہے۔مسئلہ یہ ہے، یہ گیس پانی میں حل ہوکر کاربونک تیزاب میں بدل جاتی ہے۔ پچھلے ڈھائی سو برس کے دوران یہ تیزاب سمندری پانی کو 25 فیصد زیادہ تیزابی بناچکا۔ اسی تیزابیت کے باعث خول والے سمندری جانور مثلاً گھونگھے، مرجان، سیپ وغیرہ زندہ نہیں رہ پاتے۔
ان کے خول تیزابی پانی میں حل ہوجاتے ہیں۔ غرض سمندروں میں بڑھتی تیزابیت کئی آبی اقسام کو نیست و نابود کردے گی۔ خشکی پر بھی ارضی جانوروں کی ناپیدگی کا آغاز ہوچکا ۔ بے دریغ شکار اور جنگلوں کی کٹائی کے باعث بہت سے جانور مٹنے کا خدشہ ہے۔ اوپر سے بڑھتا درجہ حرارت بھی انہیں موت کے منہ میں لے جائے گا۔
اگر درجہ حرارت چھ سات ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا، تو عالمی پیمانے پر ہجرت کا عجوبہ بھی جنم لے گا۔ ظاہر ہے، شدید گرمی کئی علاقوں میں زندگی برقرار رکھنا ناممکن بنا دے گی۔ تب ان علاقوں کے باشندے سرد ممالک کی سمت ہجرت کرجائیں گے۔ اس عالمی ہجرت کی وجہ سے کئی اقسام کے معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل جنم لیں گے۔ مثلاً ترقی یافتہ ممالک مہاجرین کی آمد زبردستی روک سکتے ہیں۔
ایک بری خبر یہ ہے کہ بالفرض انسان فضا میں سبزمکانی گیسیں چھوڑنا بند بھی کردے، تو عالمی گرماؤ کا مسئلہ جلد حل نہیں ہوگا۔ دراصل یہ گیسیں دو تین سو سال تک فضا میں موجود رہیں گی۔ لہٰذا آنے والی انسانی نسلوں کو زیادہ شدید آب و ہوائی تبدیلیوں کا نشانہ بننا پڑے گا۔جدید انسان نے مادی ترقی تو بہت کر لی،مگر آنے والی نسلوں کو خصوصاً اس کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔