ماحولیاتی مسائل بڑا چیلنج ہے جو معیارِ زندگی کے بہتر ہونے میں سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس حوالے سے چند بڑی غلط فہمیاں
ماحول اور معیشت کا توازن ضروری ہے
یہ فقرہ ماحولیاتی مسائل کو کسی تعیش کے طور پر دکھاتا ہے گویا کہ ان کو حل کرنے کے لئے قیمت ادا کرنا ہو گی جو صرف امیر ادا کر سکتے ہیں۔ یہ ان مسائل کو بالکل ہی الٹ کر کے دکھاتا ہے۔ ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے قیمت دینا پڑتی ہے اور طویل مدت میں بہت بھاری قیمت۔ ماحول کو صاف کرنے کی، اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل کو حل کرنے کی۔ زہریلے کیمیکل تلف کرنے کی، زمینوں کے بنجر ہو جانے کی۔ زمین کی پیداوار متاثر ہونے کی۔ انسانوں کے مر جانے کی۔
ٹیکنالوجی ہمارے مسائل حل کر دے گی
یہ ٹیکنالوجی سے حد سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے کا نتیجہ ہے اور اپنے ماضی سے لاعلمی کا۔ ٹیکنالوجی مسائل حل بھی کرتی ہے اور نئے مسائل بھی پیدا کرتی ہے۔ کئی مرتبہ نئے مسائل کا پتہ ہی ان کے بہت بعد میں لگتا ہے۔ اوزون کی تہہ کو کلوروفلوروکاربن کی وجہ سے پہنچنے والا نقصان ایک پچھلے مسئلے جو فریون کی وجہ سے ہونے والی اموات تھیں، ان کا حل تھا۔ دھواں اڑاتی گاڑیوں نے فضلے سے بھرے شہروں کو صاف کیا تھا۔ برقی قمقموں نے وہیل کی جان بچائی تھی۔ ظاہر ہے کہ کوئی اس بھیانک ماضی میں نہیں جانا چاہتا لیکن محض ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرنا دانشمندی نہیں ہے۔
اگر کوئی ریسورس ختم ہو گیا تو اس کی جگہ کوئی دوسرا لے لے گا
ہائیڈروجن والی گاڑیاں پٹرول کی گاڑیوں کی جگہ لے لیں گی۔ شمسی یا ہوا سے بجلی فوسل فیولز کی جگہ لے لے گی۔ ان ذرائع سے اتنی توقع محض حد سے بڑھی امید ہے۔ یہ مسائل کو کچھ کم کر سکتے ہیں اور ان پر کام ہوتا رہے گا لیکن یہ سب ابھی کم سے کم بھی کئی دہائیاں دور ہے۔ توانائی کا بے جا استعمال ختم کر کے ہی ہم مسائل پر ٹھیک طریقے سے قابو پا سکیں گے۔
دنیا میں خوراک کا مسئلہ نہیں، خوراک کی تقسیم کا مسئلہ ہے
ترقی یافتہ ممالک کے رہائشیوں کے پاس ضرورت سے زیادہ خوراک ہے، اگر یہ ٹھیک طرح سے تیسری دنیا کے ممالک میں تقسیم کر دی جائے تو بھوک ختم ہو جائے گی۔ ٹھیک؟ نہیں، بالکل غلط۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اپنی خوراک کم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ کسی سانحے یا کسی افسوس ناک واقعات پر یہ فاضل خوراک دوسروں کو دے دینا الگ بات ہے، لیکن یہ ریگولر بنیادوں پر نہیں ہو سکتا۔ اپنے ٹیکس کے پیسوں کو تیسری دنیا کے کسانوں کو سب سڈی دینے میں استعمال کرنا کسی بھی ملک میں پاپولر قدم نہیں۔ سیاسی لحاظ سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
جینیاتی لحاظ سے تبدیل شدہ فصلوں کے خلاف مزاحمت ہے۔ ابھی صرف چار فصلیں جینیاتی طور پر تبدیل کی جا چکی ہیں (سویابین، کینولا، کپاس اور مکئی)۔ جن میں سے ہر فصل ہر جگہ نہیں اگتی ۔ تیسری دنیا میں اگنے والی فصلوں پر وہ ممالک خود نہ تحقیق کر رہے ہیں اور نہ دوسروں کو اس میں خاص دلچسپی ہے۔ مسائل ہمیشہ لوکل ہوتے ہیں۔ حل بھی لوکل ڈھونڈنا ہوتے ہیں۔
معیارِ زندگی تو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ مستقل روشن ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے لئے یہ بات درست ہے لیکن بہت سے ممالک جہاں پر استحکام نہیں، وہاں کے لئے نہیں اور کن جگہوں پر ہم مستقبل سے ادھار لے رہے ہیں؟ جب ہم ماضی میں دیکھتے ہیں تو تمام تہذیبوں کو آنے والا زوال بہت تیزی سے آیا تھا۔ ان کی آبادی کے لحاظ سے عروج پر پہنچ جانے کے ایک سے دو دہائیوں کے اندر اندر۔ مایا، انسازی، ایسٹ آئی لینڈ، اور دوسری ماضی کی تہذیبیں ہوں یا بیسویں صدی میں سوویت یونین۔ ان کو گرتے ہوئے دیر نہیں لگی تھی۔ اپنے عروج پر معاشرہ اپنے ماحول کو سب سے تیزی سے نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔
بھی لوگ یاسیت والی باتیں کرتے رہے ہیں، جو غلط نکلیں
دھات کی قیمتوں سے خوراک کی عدم دستیابی تک کئی غلط الارم بجائے گئے ہیں۔ اور ایسا ہی ہے۔ جس طرح غلط فائر الارم بجایا جا سکتا ہے ویسے ہی اندازے بھی غلط ہو سکتے ہیں لیکن کئی مرتبہ ان الارم بجانے والوں کی وجہ سے ہی صورتحال بہتر ہو گئی ہے۔ ہوا کی کوالٹی پچاس سال پہلے لگائی گئے اندازوں سے بہتر ہے۔ اس کی وجہ سیسے سے پاک پٹرول، دھواں دیتی گاڑیوں کے خلاف اقدامات اور اچھی مائلیج والی گاڑیوں کا آنا ہے۔ اگر مستقبل اور ماحول کی فکر نہ کی جاتی، تو اندازے ٹھیک نکل آتے۔ خطرے کی گھنٹی پر توجہ دینے سے خطرہ ٹلتا ہے۔
آبادی کا مسئلہ خود اپنے آپ کو ٹھیک کر رہا ہے
آبادی کے بڑھنے کی رفتار کم ہو رہی ہے۔ لیکن اس دلیل کے ساتھ دو مسائل ہیں۔ اول تو یہ کہ پہلے ہی موجودہ لیول زمین کی کیپیسٹی سے زیادہ ہے۔ دوسرا یہ کہ اوسط معیارِ زندگی میں اضافے کی وجہ سے ہونے والا امپکٹ زیادہ ہو رہا ہے۔ چین اور انڈیا جیسے بڑی آبادی وای ممالک میں فی کس ماحول پر اثر تیزی سے زیادہ ہو رہا ہے۔ اگر آبادی موجودہ سطح پر ہی رہے تو بھی معیار ایک اور فیکٹر ہے۔
دنیا میں وسائل کی کمی نہیں۔ آبادی بڑھ بھی جائے تو اچھا ہے۔ زیادہ لوگ، زیادہ ایجادات، زیادہ دولت
اس کے لئے تو دنیا کے زیادہ آبادی والے ممالک کو ہی ایک نظر دیکھا جا سکتا ہے۔ گنجان آبادی والے ممالک اور آبادی کی زیادہ شرحِ نمو والے ممالک دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں سے ہیں اور ان کی فی کس آمدنی سب سے کم ہے اور ۔ جو بھی زیادہ آبادی سے ترقی کا خیال رکھتا ہے، وہ صرف یہ دیکھ لے کہ اگر اس کے اپنے محلے میں یا شہر میں دگنی آبادی ہو جائے تو کیا وہ برقرار رہ پائے گا؟ تین گنا یا دس گنا؟ کہیں تو لمٹ ہے نا۔
ماحولیاتی مسائل پر بات امیر ممالک کے امراء کے ڈرائنگ روم کا فیشن ہے
پیرو، پاپوا نیوگنی، ایسٹ افریقہ اور دوسرے تیسری دنیا کے ممالک کے عام شہریوں میں ماحولیاتی مسائل کا احساس جس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے یہ خوش آئند ہے۔ لوگ جنگلات کے کٹنے پر مزاحمت کرتے ہیں۔ پسماندہ ممالک میں رہنے والے بڑی فیملیوں والے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلے کیوں نہیں سوچا۔ اور اس پر سوال کرتے ہیں کہ اس پر انہیں پہلے کیوں آگاہی نہیں دی گئی۔ اگرچہ ماحولیاتی مسائل سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہ ہیں جو غریب ہیں لیکن ماحولیاتی مسائل سے فرار کسی کو نہیں۔ امیر ترین سرمایہ کار پانی تو منرل واٹر پی لیں لیکن ہوا اور خوراک وہی استعمال کرنی پڑتی ہے۔ یہ دنیا سب کی ہے۔
یہ مسائل دور کے مستقبل کے ہیں۔ میں تو اس وقت تک زندہ بھی نہیں ہوں گا، مجھے کیا پرواہ
ہم اپنی زندگی کا ایک بڑا ھصہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں، ان کو تعلیم دلوانے میں، ان کو اچھا انسان بنانے کی کوشش میں کھپا دیتے ہیں کہ وہ آرام دہ زندگی گزار سکیں۔ ماحول کے مسائل ہمارے بھی ہیں اور ان کے بھی۔ کچھ مسائل فوری ہیں، کچھ چند برس بعد کے، کچھ چند دہائیوں بعد کے۔ وہ مسائل جن کا تعلق اس وقت سے ہے جب میرے بچے پچاس سال کے ہوں گے، وہ کیوں اہم نہیں؟ یہ محض تصوراتی اعداد نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ دو اور یک سطری فقرے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسازی، مایا، نورس وغیرہ دنیا سے مٹ گئے لیکن ان میں کوئی آرکیولوجسٹ یا انوائرمنٹولوجسٹ نہیں تھے، جو ان کو مستقبل سے خبردار کر سکیں۔ یہ بات درست ہے اور ہمارے پاس ان سے بہتر موقع ہے کیونکہ ہمارا علم زیادہ ہے۔ جدوجہد اس علم کو عمل میں بدلنے کی ہے۔
دوسرا یہ کہ یہ والے کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں۔ اکیلا انسان کیا کر سکتا ہے؟ اکیلے انسان ہی سب کچھ کرتے ہیں، حکومتوں پر پریشر ڈالنے سے لے کر دوسروں تک آگاہی پیدا کرنے تک یہ کام اکیلے لوگوں نے ہی کئے ہیں۔ حکومتیں اور بزنس بھی اپنا رویہ اور پالیسیاں بدل لیتی ہیں لیکن صرف اس وقت جب شعور اور آگاہی عام ہو۔ اگر کسی کو پرواہ نہ ہو تو پھر کچھ بھی نہیں ہوتا۔
ہمیں قدم اور جدید معاشروں میں اچھی مثالیں بھی ملتی ہیں اور وہ بھی جب سب کچھ مٹ گیا۔ جہاں ایک طرف مٹنے والوں کی مثالیں ہیں، وہیں پر دوسری طرف ٹوکوگاوا کے شوگن، انکا کے بادشاہ، نیوگنی کے ہائی لینڈر اور سولہویں صدی کے جرمن زمینداروں کی بھی اور آج کے چین کی بھی، جنہوں نے بدلنے کی جرات کی۔ طویل مدت تک رہنے والے ادارے اور اقوام وہ ہوتی ہیں جو طویل مدت کے مسائل اور پالیسویں کے بارے میں سوچنے اور عمل کرنے کی جرات رکھتی ہوں۔
آج کی دنیا میں بنگلہ دیش کا پاپولیشن کنٹرول پروگرام اس کی مثال ہے۔ پاکستان سے الگ ہونے کے بعد اس نے بہت موثر طریقے سے اسے اپنایا اور اس کے آثار واضح ہیں۔ ملیشیا، تائیوان، ماریشیس نے طویل مدتی صحت کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کر کے اس کے مثبت نتائج حاصل کئے۔ امریکہ نے چھ بڑے فضائی آلودگی کے اسباب کو بڑی حد تک کم کیا۔ ڈومینکن ری پبلک کی مثال سب کے سامنے ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہمیں صومالیہ اور افغانستان کی مثالیں بھی نظر آتی ہیں جنہوں نے اپنے مسائل سے بالکل صرفِ نظر کئے رکھا اور معاشرہ ہی کھو بیٹھے۔
زمین موجودہ آبادی سپورٹ کر سکتی ہے اور اس سے زیادہ بھی۔ شرط یہ ہے کہ جنگلوں، دریاوٗں اور ماحول کی حفاظت اور مینجمنٹ ٹھیک طریقے سے کی جائے۔ دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ کیا ہم اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟
یہ اس کتاب سے
Collapse: Jared Diamond