ماہنامہ رنگ وبو اپنی اشاعت کے 26سال مکمل کرچکا ہے۔ دکن کا یہ تاریخ ساز رسالہ ہرما ہ پابندی سے وقت پراپنے قارئین کے ہاتھوں تک پہنچ جاتا ہے جس کے لیے مدیر جناب صاحبزادہ مجتبیٰ فہیم مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وہ خاموشی سے ماہ رنگ وبو کوجاری رکھتے ہوئے اردو کی خدمت کررہے ہیں ۔ رسالہ گوکہ کم صفحات پرمشتمل ہے لیکن تمام مضامین ‘تبصرے‘ غزلیں اورا داریہ عصری موضوعات کااحاطہ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔جس سے قاری کوبوریت محسوس نہیں ہوتی۔رنگ وبو کا جب مطالعہ شروع کیاجاتا ہے تو ایک ہی نشست میں قاری مکمل رسالہ پڑھ لیتا ہے کیوں کہ اس میں طویل اور غیرضروری حوالہ جاتی مضامین نہیں ہوتے ہیں جس سے قاری مضمون کوادھورا چھوڑنے پرمجبورہو۔کم صفحات پر عصری موضوعات پرمبنی اور دل کوچھوجانے والے مضامین کی وجہ سے رنگ وبو کے مطالعہ کے بعد کچھ تشنگی رہ جاتی ہے۔
اس دورمیں سوشیل میڈیا نے ادب پرگہرا اثرڈالا ہے او ر مکمل حالات بدل گئے ہیں۔آج کاانسان کوئی بھی کام مکمل یکسوئی سے نہیں کرپارہا ہے اوروہ ہرپانچ منٹ بعد موبائیل چیک کرنے کی بیماری میں مبتلا نظرآرہا ہے۔ اس ذہنی بیماری نے مطالعہ کی عادت پرگہرا اثرڈالا ہے ۔ اس لیے لوگ مطالعہ کی عادت سے آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔
آپ کئی معلوماتی ویڈیوز دیکھ لیں لیکن آپ میں سنجیدگی وگہرائی صرف اور صرف مطالعہ سے ہی آتی ہے۔رسالہ جومکمل سنجیدگی اور پرسکون انداز میں پڑھاجاتا ہے ‘ ان حالات میں اسے پڑھنا مشکل نظرآرہا ہے۔ ٹیلی ویژن اورٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد لوگ جواخبارات کی سرخیاں پڑھنے تک محدود ہوگئے تھے اب وہ پلٹ کراخبار کوبھی غلطی سے نہیں دیکھ رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ تمام خبریں اوراہم معلومات کو واٹس اپ اور فیس بک کے ذریعہ حاصل کررہے ہیں۔ ایسے میں ماہنامہ رنگ وبو موجودہ دور کے قاری کی نبض کودیکھتے ہوئے اہم اورمعلوماتی مضامین‘ دیگرادبی خبریں ‘رسائل پرتبصرے اور غزلوں کوشائع کرکے ادب کے موجودہ منظرنامہ کو قاری کے سامنے رکھ رہا ہے۔ اداریہ بھی بہت ہی مختصر ہوتا ہے جس میں مدیر کم لفظوں میں وہ تمام باتیں کہہ جاتا ہے جس کووہ محسوس کرتاہے۔ اداریہ میں بلا کسی جھجک راست تنقید کی جاتی ہے ۔ڈسمبر کے شمارہ میں محمدعباس دھالیوال نے فیض احمد فیض کو ترقی پسند تحریک کا نمائندہ شاعر قراردیتے ہوئے دوصفحات میں فیض کی زندگی کوبیان کردیا ہے جس کے پڑھنے سے فیض کی زندگی سے متعلق تمام معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔
فہمیدہ بیگم(ریسرچ اسکالرعثمانیہ) نے اپنے مضمون ’’وضاحتی اشاریہ کی اہمیت وافادیت ‘‘میںاسکالرس سے درخواست کی کہ وہ وضاحتی اشاریہ پرکام کریں۔انہوں نے اردومیں وضاحتی اشاریے سے متعلق کتابوں کی کمی پرفکرمندی کااظہار کیاہے۔ حال ہی میں ساتاواہنا یونیورسٹی (کریم نگر ) کی اسکالر سریٰ تسنیم نے قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو نئی دہلی کے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالہ ’’فکروتحقیق ‘‘کاوضاحتی اشاریہ مرتب کیا ہے جسے کتاب شکل میں انہوں نے شائع کیاہے۔ رنگ وبو میں پاکستان‘امریکہ اوربیرونی ممالک کے اہم ادیبوں کوبھی جگہ دی جاتی ہے اور دکن کے طلبہ واسکالرس بھی پابندی سے اس میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آئی ایس ایس این نمبرہونے کی وجہ سے اس رسالہ میں شائع ہونے سے طلبہ کو کافی مدد ملتی ہے۔ ڈسمبر کے شمارہ میں ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی نے ہندوستان کے اہم رسائل پر مختصر اورجامع تبصرہ کیا ہے جوکافی معلوماتی ہے۔رسالہ کے آخری صفحہ پر34 نمبرلکھاتا ہوتا ہے جبکہ رسالہ کے جملہ صفحات بتیس ہی ہے اورٹائٹل اوراس کے بعد کے سادہ کاغذ کابھی شمار کیاجارہے جبکہ ان کاشمارنہیں کیاجاناچاہئے۔
مجاہدین اردو اور اردو کی خدمت کا دعویٰ کرنے والوں کوچاہئے کہ وہ باتوں کے بجائے عملی اقدامات کریںاور اس رسالہ کے ممبر بنیں اورصرف سالانہ دوسوروپئے ادا کرتے ہوئے رسالہ کی اشاعت کویقینی بنائیں۔اردو کے نام پرجلسوں کے بجائے اسکولوں میں بچوں کے ہاتھوں تک رسائل وکتابیں پہنچائیں تاکہ وہ مطالعہ کے عادی بنیں ۔اس عمل سے رسالہ کے ذمہ داروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ رسالہ کاممبر بنے کے لیے 9912707786‘ 04024344290پرربط پیدا کیاجاسکتا ہے۔
٭٭٭