::: محمود واحد کا افسانوی مجموعہ ۔۔" موسم کا مسیحا "۔۔۔ :::
اردو کے فکشن نگار، نقاد ، صحافی اور استاد کا افسانوی مجموعہ " موسم کا مسیح" 1988 میں کراچی سے شائع ہوا تھ اس میں تیس 23/ کہانیاں شامل ہیں ۔ محمدو واجد کا افسانوی آفاق میں جدیدیت کا گمان ہوتا ہے مگر ان کے افسانوں کو مکمل طور پر جدیدیت کے افسانے نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ان کے افسانوں کی ماہیت " بئی جدیدیت" سے زیادہ قریب ہے جس مین روایتی فرد کے اعصابی تناو اور مریضانہ مزاج کا نہ نوحہ سنائی دیتا ہے نہ تہذیب کا نقلی یا منافقانہ دکھڑا ان افسانوں میں نظر آتا ہے۔ اس مین سیاسی بے چینی ایک نطام کا عدم انصرام اور ہلکا سا ناسٹلجیائی کرب ضرور نمایاں ہے۔جس میں قراۃ العین حیدر کا ہلکا سا عکس ملتا ہے۔ " موسم کا مسیحا" میں معاشرتی اور سیاسی بحران عمیق ہے۔ وہ افسانہ " مدار کا چاند" میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔
"بنگال بنگالیوں کا ہے۔
سندھ سندھیوں کا ہے
پنجاب پنجابیوں کا ہے
سرحد پختنوں کا ہے
اور پاکستان ؟" {صفحہ 85}
قوم آج بھی اس سوال کا جواب حاصل کرنا چاھتی ہے۔ یہ سوال آج بھی زندہ ہے۔۔ ایک افسانے " جاگتے لحموں کا عذاب" میں ایک دلخراش حقیقت کو بیاں کیا ہے ۔۔۔۔۔" جن سنگھ کہتی ہے۔ رام راج ہوکر رہے گا۔ لنکا کا نقشہ ہندوستان کے نقشے کا حصہ ہے۔ جغرافیہ کے استاد نے ہمیں یہی بتایا تھا { صفحہ 46}
اس کتاب میں محمود واجد نے دس/10 صفحات پر مشتمل ایک پر مغز مقالہ " فکش کے بارے میں کچھ معروضات" کے عنوان سے لکھا ہے۔ جس میں فکش کے حوالے سے مغربی اور اردو فکشن کی مزاج ، ماہیت پر کچھ انتقادی حوالے سے ایسے سوالات اٹھایس ہیں جو قابل بحث ہیں۔ لکھتے ہیں" جدید فکشن نہ تو بڑی حقیقت پسندی کے حوالے سے سمجھا جاسکتا ہے اور نہ رومانی علامت نگاری کے وسیکے سے بلکہ آرٹ کے بامعنی کارناموں کے زریعے سے دیکھا جاسکتا ہے اور آرٹ جہان تک میں سمجھ سکا ہوں جزوی طور پر ترسیل ہے اس اس کا بیشتر کام بازیافت سے متعلق ہے" {صفہ 10}
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرقعہ ذات
=======
اصل نام: محمود واجد ہاشمی
بھارت کی ریاست بہار میں پیدا ہوئے، پھر ہجرت کرکے مشرقی پاکستان چلے گئے۔ بنگلہ دیش کے وجود میں آنےکے بعد کراچی چلے آئے۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبہ تجارت میں پروفیسر رہے ۔ سولہ سال کراچی سے ادبی اور ادبی جریدہ " آئندہ" ان کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ ان کا 78 سال کی عمرمیں کراچی میں انتقال ہوا۔اور جامعہ کراچی کے قبرستان میں اسودہ خاک ہوئے {احمد سہیل} :::
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔