محمود عزیز نہ صرف اہل کراچی بلکہ اردو زبان وادب سے محبت رکھنے والوں کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ میری اب تک بالمشافہ ان سے ایک ملاقات ہوئی ہے تاہم لیکن فون پر گا ہے گاہے رابطہ رہتا ہے۔انتہائی شریف النفس، قدیم روایات کے امین، حلیم الطبع، نستعلیق اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ان کی شخصیت کچھ ایسے مزاج کی حامل ہے کہ جو کوئی بھی ان سے ایک بارملتا ہے مدتوں یاد رکھتا ہے۔مجھے یاد ہے 2016 ء میں جب میری تصنیف”در برگ لالہ وگل“ کی جلد اول اشاعت کے مراحل سے گزر رہی تھی تو انہوں نے مسودہ پڑھ کر اس پرتفصیلی اظہارِ خیال کیا؛ تب سے ان کے ساتھ ادب واحترام کا ایسا رشتہ قائم ہے جو کم وقتی ہونے کے باوجود قدیمی احساس کا مالک ہے۔علم وادب کے اس بے بہا خزانے سے ملاقات اور رابطہ کرانے کا سو فی صد کریڈٹ قبلہ سید محمد ناصر علی کو جاتا ہے۔
محمود عزیز15فروری 1941ء میں کوچہ چیلان دہلی کے ایک علمی وادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ہجرت کرکے اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آکر مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اس وقت ان کی عمر صرف چھے برس تھی چنانچہ ان کی تعلیم و تربیت کے تمام مراحل بشمول ابتدائی تعلیم تا گریجوایشن کراچی ہی میں طے ہوئے۔گویا آپ کراچی کی گزشتہ سات دہائیوں کی تاریخ اور اتارچڑھاؤ کے گواہ مانے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کراچی (جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا اس کی اس دور کی محفلوں اور رعنائیوں کو ملاحظہ کیا اور پھر جب یہ شہرِ قائد دہشت گردی اور لوٹ کھسوٹ کا مرکز بنا اس دور کو بھی انہوں نے اتار چڑھاؤ کو)اپنی چشمِ بینا سے دیکھا اور خوب دیکھا۔ ان سے گفتگو کیجیے تو احساس ہو جائے کہ ماضی کے جھروکوں سے جب وہ تاریخ ِ پاکستان کو دیکھتے ہیں تو انہیں قائد اعظمؒ اور علامہ اقبال کا روشن پاکستان نظر آتا ہے لیکن جب دورَ حاضر کے ناعاقبت انگیز سیاستدانوں کو آپا دھاپی میں مبتلا دیکھتے ہیں تو سوائے کڑھنے اور دکھ اٹھانے کے کچھ نہیں ملتا۔
محمود عزیز ایک اچھے مضمون نگار، اسکرپٹ رائٹر، تبصرہ نگار اور کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایماندار اور سچے پاکستانی بھی ہیں۔ان کی زندگی کے شب وروز بتاتے ہیں کہ ان کے ایک ایک سانس میں پاکستانیت رچی بسی ہے اور وہ وطنِ عزیز کو شاہراہِ ترقی پر گامزن دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ادب اور زبان سے انہیں اوائل عمری سے دلچسپی رہی ہے اور اسی لگن کی بدولت ان کے اندر لکھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی اور یہ ایامِ جوانی ہی سے لکھنے میں ماہر ہو گئے تھے۔ چنانچہ ابتدائی زمانے میں ریڈیو پاکستان سے بچوں کے لیے ڈرامے لکھے نیز اسی زمانے میں ریڈیو پاکستان کے جریدے ”پاکستان کالنگ“ کے اسکرپٹ رائیٹر بھی رہے۔پھر روزنامہ”نوائے وقت“ میں کالم لکھنے لگے۔اس کے علاوہ ہفت روزہ تکبیر اور فاتح میں بھی لکھتے رہے۔بعد ازاں روز نامہ ”مقدمہ“ سے وابسطہ ہو گئے اور ترقی کرکے اس کے سینئراسسٹنٹ ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔یہی نہیں اسی اخبار کے ادبی ”اوراقِ ادب“ کے انچارج بھی رہے۔اردو کی نامور شخصیت خواجہ حمید الدین شاہد کے انتقالَ پرُ ملال کے بعد ان کے ماہنامہ”سب رس“ کے انتظامی مدیر کی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔
مکرمی محمود عزیز کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے شعری کیلنڈرمرتب کیے جن کا ایک عرصے تک چرچا رہا۔زبان و ادب سے ان کی محبت قابلِ رشک ہے چنانچہ اب بھی سرگودھا سے شائع ہونے والے سہ ماہی”ابجد“ کی مجلسِ ادارت کا حصہ ہیں اور ماہنامہ ”قومی زبان“ کراچی کے ترجمان کے قلمی معاون کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ان کی شخصیت وفن کے بارے پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں:
”عزیز اور ان کے ذوق و شوق سے واقفیت تو برسہا برس سے ہے اور اس واقفیت کا بنیادی وسیلہ ان کے وہ مضامین رہے ہیں جو مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہوتے اور مطالعے میں آتے رہے ہیں اور ایک دو سرسری ملاقاتیں اس پر مستزاد؛ لیکن ایک کشش اور ایک جاذبیت ان کی شخصیت میں ان کی بذلہ سنجی، ان کی یاداشتوں اور مطالعے کی وسعت کے سبب محسوس ہوتی رہی ہے“۔
وہ اپنے اسی اظہاریے”کرشمہ دامنِ دل می کشد“ میں مزید اظہارِ خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
”محمود عزیز نے زندگی کو بہت بھرپور انداز میں گزارا ہے اور ان کی زندگی کا یہی طور طریقہ اب بھی ہم سب کے لیے حد درجے پر کشش ہے۔زبان، ادب اور ان کا حلقہ ادب اب بھی ان کے روز مرہ کے مشاغل ہیں جن میں ان کی زندگی حد درجے فراغت اور سکون سے گزر رہی ہے کوئی ایسا موقع شاید نہیں گزرتا جب اردو‘ قائدِ اعظم، اقبال اور مولوی عبدالحق کا کہیں ذکر چھڑتا ہو اور یہ اپنے احساسات اورتاثرات اور ساتھ ہی اپنے جذباتِ عقیدت ومحبت کے ساتھ وہاں اپنے وجود اوراپنے احساسات و خیالات کا اظہار نہ کرتے ہوں“۔
مخدومی سیدمحمد ناصر علی ان کی کاوش”ہمارے کچھ شاعر اور ادیب“کی اشاعت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
”ان کے بکھرے ہوئیے مضامین کو کتابی شکل دینے کی تحریک کا موئد میں خود ہوں۔ ہمارا کام تالاب میں پتھر پھینکنا ہے اور لہریں گننے پر دوسروں کو مامور کردینا ہے؛ لیکن محمود عزیز کے معاملے میں پتھر تو ہم نے پھینکا مگر لہریں گننے میں موصوف نے ہمیں ہی لگا دیا“۔
ان کی زیرِ نظرتصنیف ”ہمارے کچھ شاعر اور ادیب“محمود عزیز کا دوسرا مجموعہئ مضامین ہے قبل ازیں ”ذکر کچھ دلی والوں کا“ شائع ہو چکے ہیں جس کی بقول سید محمد ناصر علی اس قدر پذیرائی ہوئی کہ دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔اس مجموعہئ مضامین میں انہوں نے مختلف شخصیات پر لکھے گئے کل 15پندرہ مضامین __قائداعظم کی اردو دوستی، کلام اقبال کی وسعت، کلامِ اقبال میں ذکرِ نباتات، بائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق: ایک عہد آفریں شخصیت، اردو کی کہانی خطباتِ عبدالحق کی زبانی، مولوی عبدالحق: حیات و خدمات کے چند گوشے، فیض احمد فیض: عہدِ حاضر کا ایک منفرد شاعر، نامور طنز وظرافت نگار:دلاورفگار، ذولفقار علی بخاری، چراغ حسن حسرت، ممتازحسن بحضور قائد اعظم، کلام رحمان کیانی: دفاع وطن کی کہانی، ضمیر جعفری: ایک قہقہہ آور شخصیت، پروین شاکرنسائی لہجہ کی منفرد شاعرہ اورپروفیسر خواجہ حمید الدین شاہدؔ:اردو کے سپاہی__شامل کیے ہیں۔
سطورِ بالا میں ذکر ہو چکا کہ محمود عزیز کو اردو سے بے پناہ علاقہ ہے اور ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں مولوی عبدالحق کی طرح اردو زبان سے عشق ہے۔ اگر چہ ان کی اس تصنیف کا نام ”ہمارے کچھ شاعر اور ادیب“ ہے لیکن اس کا آغاز انہوں نے ”قائداعظم کی اردو دوستی“ کے عنوان سے لکھے گئے ایک مضمون سے کیا ہے جو اس بات کا بیں ثبوت ہے کہ انہیں اردو سے واقعی اسی حد تک محبت ہے جس کا ذکر میں نے ابھی ابھی کیا ہے۔لکھتے ہیں،”قائد اعظم کو بطور قوم کے سب سے بڑے لیڈر کے اردو زبان سے گہری دلچسپی تھی چنانچہ انہوں نے آخری عمر میں اردو سیکھنے اور بولنے اور اس میں تقریر کرنے کی طرف توجہ کی۔اور وہی تھے جنہوں نے مارچ 1948ء میں ڈھاکہ میں علی الاعلان یہ کہا کہ“:
”اردو اور صرف اردو پاکستان کی قومی اور ملکی زبان ہے اور کوئی زبان اس کی جگہ نہیں لے سکتی۔پاکستان کی وحدت اور ہماری قومیت کے دو سب سے بڑے اجزااسلام اور اسلامی تہذیب کی مظہر ہماری قومی زبان یعنی اردو ہے“۔
————–جاری ہے————