وہ لالہ کی قدر و منلت اور اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں
کیونکہ لالہ صحراؤں اور پہاڑوں کے آزادانہ ماحو ل میں ہی پنپ سکتاہے۔ علامہ لالہ (مسلمان) کو بے سوز جگر کہتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں بہت سی کار آمد چیزیں موجود ہیں مگر وہ بے کار اور بے مصرف پڑی ہیں کہ اس کے لئے عقل و دانش ا ورمحنت درکار ہے مگر افسوس آج کا مسلمان اس سے تہی دامن ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو ہنگامہ پرور ہونا چاہئے یعنی سرگرم ہونا چاہئے جو ترقی کا زینہ ہے۔
چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے
سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
یہاں کا لالہ بے سوز جگر ہے
مکرمی محمود عزیز صاحب کی اس رائے سے اختلاف کیا ہی نہیں جاسکتا کہ ”فیض احمد فیض:عہدِ حاضر کا ایک منفرد شاعر“ ہے؛ لیکن علامہ اقبالؒ کے کلام کا جائزہ پیش کرنے کے بعد فیض ؔ کی شاعری پر بات کرنا کچھ مشکل سا لگتا ہے۔استادِ مکرم ڈاکٹر رفییق خان کی تصنیف گزشتہ سال شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے دونوں کی مماثلتیں تلاش کیں ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اصل بات بیان کرنے کی یہ نہیں ہے کہ دونوں فطرت کے دلدادہ شاعر تھے بلکہ اصل بات ان کے فطرت کو محسوس کرنے سے ہے کہ دونوں کے محسوس کرنے میں فرق کہاں تک ہے۔جب کہ محترم محمود عزیز کہتے ہیں،”]فیض[ نے اردو شاعری میں غزل اور نظم میں ایک نیا لہجہ، نیا آہنگ، نئے اسالیب، نئی تراکیب، نئی لفظیات، استعارات و تشبیہات متعارف کرائیں اور طرزِ بیان میں جدت پیدا کی اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کلاسیکی ادب کی کار آمد روایات سے منہ موڑ ا، صالح روایات سے کنارہ کشی نہیں کی بلکہ قدیم اور مقبول تشبیہات و استعارات کو نئے معنوں کی دیدہ زیب قبا پہنائی“۔
ایک اور شخصیت جسے اس کتا ب کا حصہ بنایا گیا ہے وہ چراغ حسن حسرتؔ کی ہے۔یہ”ان نامور انِ علم وادب سے تھے جن سے کسی نے شاعری سیکھی، کسی نے نثر لکھنااور کسی نے ظرافت، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے معجز نما قلم نے ایک عہد کو متاثر کیا“۔میرے خیال میں جناب محمود عزیز صاحب کے اس بیان سے اتفاق کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ چراغ حسن حسرت عام طو رپر مزاحیہ کالم لکھنے کے لیے مشہور تھے لیکن ان کو صرف کالم نگار سمجھ لینا مناسب نہیں۔ انھوں نے چار جلدوں میں اسلامی تاریخ لکھی۔ فوجی زندگی کے مزاحیہ پہلو پر ''توتارام کی کہانی'' کے عنوان سے فوجی اخبار میں کالم لکھے جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے۔ ہفتہ روزہ اخبار شیرازہ ر1936ء میں سے جاری کیا۔ یاد رہے ان کے انتقال کے بعد ان کا مزاحیہ کالموں کا مجموعہ ”حرف و حکایت“کے نام سے سید ضمیر جعفری صاحب نے مدون کیا۔ حسرت نے اردو میں ایک نیا اسلوب بیان ایجاد کیا جس میں کلاسیکی ثقافت اور جدید سلاست دونوں کا ایک شیریں امتزاج تھا۔ تعجب ہے کہ اتنے عظیم مصنف کو اس طرح بھلا دیا گیا کہ اس کے کارنانے پر ایک آدھ کتاب تو کیا ایک آدھ مضمون بھی نہیں ملتا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے قبلہ محمود عزیز کا کہ انہوں نے ان کے فن وشخصیت پر قلم اٹھایا تو مجھ جیسے کم علم کو بھی ان کے بارے چند الفاظ لکھنے کا موقع میسر آگیا۔ان کی شخصیت کا مطالعہ کیجیے تو ان(چراغ حسن حسرت)کے ادبی اور شاعرانہ کارناموں کے اتنے پہلو ہیں کہ ان کو کسی ایک مضمون میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ اخبار نویسی، بذلہ سنجی، اسلامی مؤرخ، ادبی مؤرخ، ادبی تنقید نگار غرض ایسی کون سی خوبی ہے جو ان میں نہیں۔
مزاح پیدا کرنے کا ایک سادہ اسلوب یہ ہے کہ کسی واقعہ کے متعلق کوئی لطیفہ سنا دیا جائے یا اس کا رشتہ اسی قسم کے کسی اور واقعہ سے جوڑ دیا جائے اس طرح واقعے کی نوعیت پر ایک نئی روشنی پڑتی ہے اور لطیفہ بھی نئے واقعے سے مل کرتازہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ اصل واقعے اور لطیفے میں جتنی معنوی قربت ہو گی مزاح کا رنگ اتنا ہی نکھر ے گا۔چراغ حسن حسرت کے بعد بات ہے اس شخصیت کی جو بیک وقت فوجی بھی تھے، صحافی بھی اور شاعر بھی۔ ان کے کئی ملی نغمے اب بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں بلکہ ان کا لکھا ہوا نغمہ ”میرا لونگ گواچہ“ مسرت نذیر کی آواز میں جب سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو سید ضمیرجعفری کی شخصیت بے ساختہ سامنے گھومتی نظر آتی ہے۔ ان کا اصل نام سید ضمیر حسین شاہ تھا۔ وہ ضلع جہلم کے گاؤں چک عبدالخالق میں یکم جنوری 1916ء میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گاؤں کے ٹاٹ مدرسہ میں حاصل کی۔ بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا آغاز کیا۔ لاہور سے روزنامہ ”احسان“کے ذریعے صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ چراغ حسن حسرت کے رسالے ”شیرازہ“کے مدیر بھی رہے۔محترم محمود عزیز صاحب نے درست لکھا ہے کہ،”جن لوگوں نے اردو کی ظریفانہ شاعری میں ناموری حاصل کی ان میں ضمیر جعفری کا نام امتیازی حیثیت کا حامل ہے“۔
سید ضمیر جعفری مرحوم کے بعد اردو کی بڑی اور معروف شاعرہ پروین شاکر پر ایک مضمون شامل کتاب ہے۔پروین شاکروہ شاعرہ ہیں جنہوں نے کم سنی ہی میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اردو ادب پڑھنے والوں کے دِل میں گھر کر لیا تھا۔’’خوشبو‘‘کی رومانوی فضا سے لے کر’’صد برگ“ تک کا شعری سفر کچے جذبات رکھنے والی لڑکی کے عصری اور قلبی تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن بننے کا سفر ہے۔ پروین شاکر کی جواں مرگی نے اُن کی شہرت کو کم نہیں ہونے دیا۔محترم محمود عزیز نے پروین شاکر کو نسائی لہجے کی منفرد شاعرہ قرار دیا ہے۔ ان کی بات اس لیے بجا ہے کہ آج بھی اردو ادب میں جب ایک مکمل شاعرہ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو پروین کے نعم البدل کے طور پر کوئی شاعرہ ادبی منظر پر نظر نہیں آتی۔
جناب محمود عزیز تحریر فرماتے ہیں کہ ”دلاور فگارہمارے عہد کے مقبول اور بڑے طنزو ظرافت نگار تھے“۔رشوت ہمارے معاشرے کا ایسا ناسور ہے جس کا علاج تہتر برس بیت جانے کے بعد بھی تلاش نہیں کیا جا سکا۔ اس ناسور کا خاتمہ تو در کنار اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوا ہے چنانچہ درج چار مصرعو میں دیکھیے کس طر ح بھر پور طنز کی گئی ہے۔
حاکم رشوت ستاں فکر گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت،چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیر رہائی، مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
سید ذو الفقار علی بخاری ادیب، شاعر، صدا کار، ماہر نشریات اور معروف ادیب پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی تھے۔ 1904ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج پشاور سے میٹرک اور اورینٹل کالج لاہور سے منشی فاضل کیا۔ 1929ء میں ملٹری بورڈ آف اگزامزز(شملہ) میں بطور مترجم ملازم ہوئے۔ 1935ء میں آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن سے وابستہ ہو گئے۔ 1938ء میں براڈ کاسٹنگ کی تربیت حاصل کرنے لندن گئے۔ 1940ء میں جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن میں کام کیا۔ اسی زمانے میں بی بی سی سے اردو سروس شروع کی۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور بعد ازاں کلکتہ ریڈیو سٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ پاکستان میں ٹیلی وژن کا اجراہوا تو تین ماہ اس کے جنرل منیجر رہے۔شعر و ادب اورسٹیج سے بچپن سے ہی دل چسپی تھی۔ اعلیٰ درجے کے براڈ کاسٹر تھے۔ آواز نہایت پرسوز اور سحرانگیز تھی۔ مرثیہ خوانی شعر خوانی میں یکتا تھے۔ موسیقی سے بھی گہرا شغف تھا۔ ریڈیو اردو ڈرامے نے انہی کی بدولت قبول عام حاصل کی۔ فارسی، اردو، پنجابی اور انگریزی پر یکساں عبور حاصل تھا۔ بنگالی، برمی اور پشتو بھی جانتے تھے۔ دو تصانیف سرگزشت بخاری اور راگ ودیا یادگار چھوڑیں۔
”ہمارے کچھ شاعر اور ادیب“کا ایک اور کردار رحمان کیانی کا ہے ان کا نام اس وقت بہت عروج پر پہنچا جب 1965ء کی جنگ کے بعد ان کی ولولہ انگیز نظموں نے مشاعروں کے شرکا کو گرما کر رکھ دیا، انھوں نے اپنی نظموں میں پاک فضائیہ اور بری افواج کے کارناموں کو جس طرح سمویا اور الفاظ کے خوبصورت موتیوں سے اپنے اشعار کو مزین کیا یہ ان کا ہی حصہ ہے اور یہی چیز ان کی شاعری کو اتنا منفرد کر گئی کہ ان کو اردو ادب کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔
المختصرمخدومی محمود عزیز کے مضامین پڑھ کر ایک تاثر جو شدت سے دل ودماغ میں جگہ بناتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے دل کی اتھا گہرائی میں اردو اور پاکستان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں گویازبان اور اور وطنِ عزیز ایک دوسرے کے لئے جزو لاینفک ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب اردو زبان کی اہمیت و افادیت سے شروع ہوکر اسی پر اختتام پذیر بھی ہوگئی ہے۔ یوں اس کتاب کا اصل محرک زبان اردو کی اہمیت ہی کو اجاگر کرنا مقصود دکھائی دیتا ہے۔ کاش ہمارا صاحبِ اقتدار طبقہ بھی اس طرف توجہ دے سکے تو شاید ہماری قومی زبان اردو وہ مقام ومرتبہ حاصل کر لے جو دنیا کی دوسری زبانوں کو ان کے وطن میں حاصل ہے۔