قبلہ محمود عزیز صاحب کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ”اردو دشمنی نے تحریکِ پاکستان کے خد وخال میں رنگ بھرا، مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگایا اور مسلم لیگ کی شکل میں ان کو وہ پناہ گاہ نظر آئی جہاں سے وہ مورچہ بند ہو کر اپنی زبان کی حفاظت کی جنگ لڑ سکتے تھے“۔ ایک دوسرے مضمون میں جہاں ان کا موضوع تو بابائے اردو ہیں لیکن در حقیقت اس مضمون میں بھی انہوں قومی زبان اردو کی معرکہ آرائیوں کا ذکر کیا ہے،نیز اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے جو خدمات بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انجام دیں ان پر انہیں خراجِ عقیدت و تحسین بھی پیش کیا ہے کیونکہ بابائے اردو یہ سمجھتے تھے کہ زبان ہماری زندگی کے ہر ہر شعبے میں سرایت کر چکی ہے اس لیے اس کی ہر صورت میں حفاظت کرنا ہمارا قومی وملی فریضہ ہے۔ایک جگہ مولوی عبدالحق کا حوالہ دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
تنقید وہی لکھ سکتا ہے اور دوسروں کو ہدایت کر سکتا ہے جس کا تجزیہ وسیع، مطالعہ گہرا اور نظر دوربین ہو۔ جو صرف ذوق ہی صحیح نہ رکھتا ہو بلکہ دریائے ادبیات کا شناور بھی ہو۔جس نے ایک مدت کے مطالعے اور غور وفکر کے بعد ان رموز کے متعلقخاص رائے قائم کی ہواور وہ اس رائے کو بیان کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔دوسروں کی دل
نشینی کر سکتا ہو۔ہماری زبان میں یہ کام صرف مولانا الطاف حسین حالیؔ مرحوم نے کیا ہے۔
”اردو کی کہانی خطباتِ عبدالحق کی زبانی“ میں مولاناحالی ؔہی کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ”]انہوں [ نے صرف اردو شاعری پر ہی احسان نہیں کیا بلکہ اردو نثر کو بھی درجہ کمال تک پہنچادیا اور اس مین ایسی پختگی،متانت اور وسعت پیدا کردی جو اس سے پہلے اسے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔چکبست نے اسی رستے پر قدم اٹھایا اور تنگ کو چے سے نکل کر زندگی کے وسیع میدان پر نظر ڈالی“۔ وہ اسی مضمون ایک اور جگہ زبان کی حفاظت پر یوں گویا ہیں،”جب فاتح حکومت نے مفتوح کی زبان کو کچل دینے کی کو شش کی اور اس کا پڑھنا لکھنا، بولنا ممنوع قرار دیا تو زبان کے فدائی چھپ کر دروازے بند کرکے تہہ خانوں میں جا جا کر پڑھتے اور لکھتے تھے۔باوجود ہر قسم کی آفات اور مصائب کے و ؤلام کے وہ زبان بچا لے گئے۔مولوی عبدالحق کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مکرمی محمود عزیز ایک دوسرے مضمون میں رقم طراز ہیں:
بابائے اردو صرف اردو ہی کے بے مثال خادم نہیں تھے جنہوں نے اردو کی ترویج وشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی بلکہ وہ اردو کے صاحبِ نظر محقق، عہد حاضر کے صاھؓ ِ طرز ادیب، صفِ اول کے نقاد اور تبصرہ نگار تھے۔وہ اپنی ذہنی آزادی کے بھی علمبردار تھے اور ان کا درجہ ایک مصلح قوم کا تھا۔وہ سمجھتے تھے کہ زبان کا فروغ تہذیب وثقافت کا اور قومیت کا فروغ ہیاور زبان کے بغیر قومیت کی تکمیل ممکن نہیں۔
اسی کتاب میں انہوں نے علامہ اقبال ؒ کی شخصیت اور ان کی فکر کو بھی موضوع بنایا ہے اور اس سلسلے میں دو مضامین شامل کیے ہیں۔ پہلے مضمون میں علامہؒ کے وسعت ِ کلام پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے بے شمار حوالہ جات رقم کیے ہیں جب کہ دوسرے مضمون میں ”کلامِ اقبال میں ذکرِ نباتات“ کے عنوان سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے لالہ وگل کی اہمیت واضح کی ہے۔لکھتے ہیں:
شاعرِ مشرق علامہ اقبالؔ کو دنیا سے رخصت ہوئے پون صدی گزرچکی مگر ان کا کلام آج تک ہماری رہنمائی کررہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا کیونکہ اُن کا کلام علم و حکمت کے اُن موتیوں کی سی چمک دمک رکھتاہے جو اپنی آب و تاب نہیں کھوتے۔ علامہ علم و فن کے وہ باب وا کرتے ہیں جن کا لوگوں کو ادراک نہیں۔ کہتے ہیں۔
سبزہ نا روئیدہ زیب گلشنم
گل بشاخ اندر نہاں در دامنم
اُن کے سبزہ، گل و گلشن کے ایک شیدائی آر۔ ایم افضل رضویؔ‘ جو ہیں تو لاہوری مگر اب کینگروز کے دیس آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ وہیں سے وہ بلبل خوش نوا کی طرح کلامِ اقبال کے ایک منفرد گوشے نباتاتِ اقبال کے لئے ترنم ریز ہیں۔ ان کی نوا سنجی ”دربرگ لالہ و گل“ ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہے جو علامہ اقبال کے کلام میں مطالعہ نباتات پر ایک اہم اور منفردکتاب ہے۔ افضل رضویؔ نے کلام اقبال میں جگہ پانے والے مختلف الانواع پھولوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں، اشجار اور اجناس کا احاطہ کیا ہے۔ ان میں خاص طور پر ارغوان، انگور، افیون، انار،انجیر،ببول، باغ، لالہ، گل، بید، برگ، بوستان، چمن، چنار، دانہ، گندم، گھاس، گلِ رعنا کو خوبصورت تراکیب، استعاروں اور انداز بیان کی ندرت اور شاعرانہ مہارت سے استعمال کرکے ہمارے ادب کو دلآویز اسالیب سے مالامال کیا ہے۔ اُن کے انوکھے طرز ِ ادا سے شعر کو نہ صرف چار چاند لگ جاتے ہیں بلکہ وہ دل میں اتر جاتاہے اور نظر افروزی کا باعث ہوتاہے۔ وہ قارئین کو جتاتے ہیں کہ
محرم نہیں فطرت کے سرود ازلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
اور
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
———–جاری ہے—————-