تبصرہ
نام کتاب : محمود ایاز کی تحریریں
مرتب : اکرم نقاش
ناشر : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
صفحات : ۶۱۹ قیمت : ۲۷۵؍روپئے سن اشاعت : ۲۰۱۸
مبصر : شاہد حبیب (ریسرچ اسکالر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، لکھنؤ کیمپس)۔
ترقی پسند تحریک جب اپنے حصے کی خدمت اداکرچکی تو ہمارے ادب میں فکری سطح پر ایک خلا پیدا ہوگیا تھا۔ اس خلا کو محسوس کرکے اس کو پر کرنے کی کوشش جن لوگوں نے کی،ان اساطین میں محمود ایاز (۱۹۲۹ء۔۱۹۹۷ء) کا نام سرفہرست لیاجاتا ہے۔ محمود ایاز نے اردو کی معروف بستیوں سے بہت دور بنگلورو سے ۱۹۵۹ء میں سہ ماہی رسالہ’’سوغات‘‘ جاری کیا تھا گویہ رسالہ مستقل جاری نہیں رہ سکا تھا اور تین الگ الگ ادوار میں نکلنے کے باوجود ۳۰؍سے بھی کم شمارے ہی منظر عام پر آسکے تھے۔ پھر بھی اس کے ذریعے سے انہوں نے اعلیٰ درجے کے ادب کی ترویج واشاعت کا کام انجام دیا اور نئے مغربی رجحانات اور تنقیدی وفلسفیانہ افکار کو اردو میں روشناس کروانے کی کوشش کی۔ ادب کے مؤرخین کا کہنا ہے کہ ان کی ان ہی کوششوں کی بدولت آگے چل کر اردو میں جدیدیت کے رجحان کی داغ بیل پڑی۔ لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ محمود ایاز ترقی پسندی کے مقابلے میں کسی دوسری فکر کو کھڑا کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ دراصل ادب میں انتہاپسندی کے مخالف تھے چاہے وہ ترقی پسندی کے نام سے کی جائے یا جدیدیت کے نام سے۔ وہ نہ کسی تبدیلی یا تجربہ پسندی کے منکر تھے اور نہ شاکی۔ بس ان کی شرط تھی کہ تبدیلی مثبت ہو اور ادبی اقدار کی پاسداری کرتی ہو۔ اس کا اظہار انہوں نے سوغات میں لکھے اپنے عالمانہ اداریوں، انگریزی ادب کے ترجموں اور اپنے روشن خیال مضامین کے ذریعے کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ساری چیزیں اب تک سوغات کے بوسیدہ شماروںمیں بکھری پڑی تھیں۔ ان سب کو یکجا کرنے کا خیال اردو کے ایک بے لوث خادم اور منفرد شاعر کی شناخت رکھنے والے گلبرگہ کے فرزند اکرم نقاش کو آیا۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ انہوں نے یہ کام اردو کی بے لوث خدمت کے جنون میں انجام دیا یا اپنی ریاست کو اردو ادب میں جائز مقام دلانے کی خواہش سے مجبور ہوکر۔ممکن ہے دونوں جذبے کارفرما رہے ہوں۔ لیکن بہرحال ان دونوں ہی جذبوں کو احترام کی نظر سے دیکھنا اردو کے مفاد میں ہی گنا جانا چاہئے۔ اس مجموعے کی معنویت کو دوبالاکررہے ۲۲؍صفحات پر مشتمل بسیط مقدمے سے پتہ چلتا ہے کہ اکرم نقاش کے ذہن میں جب یہ بات آئی تو پہلے مرحلے میں محمود ایاز کے صرف اداریوں کو ہی جمع کرنے کا خیال آیا تھا لیکن ان کے زرخیز دماغ نے یہ کمانڈدیا کہ صرف اداریے ہی کیوں؟ انگریزی ادب کے تراجم اور مضامین بھی تو اتنے ہی بلکہ ان سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ۲۰۱۲ء میں جب کام کو شروع کیا تو محمود ایاز کی تمام تحریروں کو جمع کرنے کا خمار ان کے ذہن میں سوار ہوچکا تھا۔ یہ خمار اردو کے لیے بہترثابت یوں ہوا کہ ڈھائی تین سال کی مسلسل جستجو وتلاش کے بعد ملک بھر کی نجی وپبلک لائبریریوں میں پھیلے سوغات کے شماروں کی فراہمی ممکن ہوگئی۔ ۶۱۹؍ صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں محمود ایاز کے کل ۱۹؍اداریے (دور اول کے سات، دورِ دوم کا ایک اور دورِ سوم کے گیارہ) ، ۱۲؍تبصرے اور ۱۱؍تراجم کے علاوہ دوانٹرویو، ایک مضمون، ایک مذاکرہ اور محمودایاز کا مجموعۂ کلام ’’نقش برآب‘‘ بھی شامل ہیں۔
محمود ایاز بہت ہی محنت سے اور فرصت سے سوغات کے اداریے تحریر کرنے کے عادی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے معاصر ادب کو سمت ورفتار کے تعین میں مدد ملتی تھی۔معروف افسانہ نگار سید محمد اشرف نے حرفے چند کے نام سے کتاب میں شامل اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ:
’’وہ عصری ادب کے تعلق سے پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات ومسائل کواپنے خلاق ذہن کی بھٹی میں تپا کر بے حد سلیس، شائستہ اور پاکیزہ نثر میں بیان کرنے پر قادر تھے۔ اور اس قدرت کا ثبوت ان کی تقریباً تمام تحریروں میں ملتا ہے۔‘‘
وہ آگے لکھتے ہیں کہ:
’’محمود ایاز نے انگریزی ادب کے ترجموں، اپنے مضامین اور سوغات کے اداریوں کے ذریعے اپنے اضطراب کا اظہار کیا ہے اور اچھے، کم اچھے اور برے ادب کی نشاندہی کی۔‘‘
ان کے یہ اداریے اعلیٰ ادب کی تخلیق کی خواہشات کے غماز ہیں اور ان سے ادب کے تئیں ان کی فکر مندی جھلکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے سوغات کے تیسرے شمارے کے اداریہ میں تحریر کیا کہ:
’’آج اگر اول درجے کا تخلیقی ادب نہیں پیدا ہورہا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نئی نسل علم سے، مطالعے سے، اکتسابات سے، تجربات سے، فکروذہن کی ریاضت سے جی چرارہی ہے۔‘‘ (ص؍۱۵)
محمود ایاز ایک بے باک انسان تھے۔ ان کی یہ صفت ادارتی امور میں ان کے محتاط رویے سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ اپنے اولین اداریہ میں بھی اپنے انتخاب کی روش کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’مشہور ومعروف لکھنے والوں کی غیر معیاری اور تیسرے درجے کی چیزیں شائع کرنے کے بجائے نیم معروف اور ابھرتے ہوئے فنکاروں کی تخلیقات کی اشاعت میں نے زیادہ اہم سمجھی۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ یہ شمارہ میں اپنی آرزوئوں کے مطابق نہیں نکال سکا۔‘‘ (ص؍۴)
اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اردو دنیا کو وہ کس پائے کا ادب پیش کرنا چاہتے تھے۔ آج کتنے ایسے مدیران ہیں جو اس طرح کی ہمت دکھاکر ادب کو کچرے میں بدلنے سے روکنے کی سعی کرسکتے ہیں!
محمود ایاز اپنے سلجھے ہوئے تبصروں کی وجہ سے اردو دنیا کے محبوب بھی بنے اور معتوب بھی۔ کتاب میں شامل ۱۲؍تبصروں سے اس کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ ’’آگ کا دریا‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے جس توازن کا ثبوت پیش کیا ہے ویسا کم ہی مبصرین کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔توازن کی ایک مثال پیش خدمت ہے:
’’آگ کا دریا‘‘ کا وہ حصہ جو قدیم ہندوستان کی تاریخ سے شروع ہوکر سرل ہاروزڈایشلے کی کہانی پر ختم ہوتا ہے۔ اگر ناول سے ختم کردیاجائے تو اس ناول اور ابتدائی دونالوں (میرے بھی صنم خانے اور سفینۂ غم دل) میں بہت کم فرق ملے گا۔‘‘ پھر آخر میں لکھتے ہیں:
’’اس ناول میں کمزوریاں اور خامیاں بھی ہیں جن کا ابتدا میں ذکر کیاجاچکا ہے۔ لیکن ان کمزوریوں کے باوجود آگ کا دریا ایک عظیم کوشش ہے اور ناول نگاری میں یہ ناول ایک سنگ میل ہے۔‘‘ (ص؍۱۹۷)
اس مجموعے میں محمود ایاز کے ۱۱؍تراجم شامل ہیں جو بیشتر فکشن سے متعلق ہیں۔ جے بی پرسٹلے کے مضمون کو’’ ادیب کا مستقبل‘‘کے نام سے سلیس اردو میں منتقل کیاگیا ہے۔ اس طرح ایرش فرام کی تخلیق کو ’’زوال آدم خاکی‘‘ کے نام سے اردو کاجامہ پہنایا گیاہے۔ اسی طرح کی انتہائی اہم تخلیقات کو اردو میں منتقل کرکے محمود ایاز نے جس دانشوری کی روایت کو قائم کیا تھا اس کو پانے کے لیے آج بھی کئی دانشور خواب دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔
محمود ایاز نے شاعری بھی کی۔ ان کی شاعری کا مجموعہ بھی اکرم نقاش نے اس میں شامل کرکے شاعری کے متوالوں کو بھی محمود ایاز کی طرف متوجہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
قومی اردو کونسل سے ہماری توقعات اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ وہ اردو کا سب سے فعال ادارہ ہے۔ اس لیے جب تک دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ، منشی نول کشور پریس جیسے اداروں کی مفقود کتابوں کی تلاش اور اس کی ازسرنو اشاعت کے ساتھ ہی سماجی وسائنسی علوم کی نصابی وغیر نصابی کتب کی مزید فراہمی نہیں ہوجاتی تب تک محمود ایاز کی ان بکھری تحریروں کو یکجا کرنے کی کوشش کے لیے بجا طور پر کونسل کو سراہا جائے گا۔
٭٭٭