ماہیا بنیادی طور پر پنجابی شاعری کی قدیم ترین صنف ہے۔ جس طرح ہائیکو جاپانی شاعری سے اردو میں آئی اسی طرح ماہیا پنجابی سے اردو میں آیا۔ یہ ایسا رائج الوقت سنہری سکہ ہے جس کی چمک وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھتی رہی ہے۔ ماہیا پنجاب کا مقبول ترین لوک گیت ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ ایک ایسا سدا بہار پھول ہے جو وقت کی آنچ سے کبھی بوڑھا نہیں ہوا۔ اردو اور پنجابی کی آپس میں قرابت ہم سب کے سامنے ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہیئت کے اعتبار سے ماہیا ابھی تک پنجابی روایت کا پابند ہے حال آں کہ اردو ماہیا ایک عرصہ سے لکھا جارہا ہے۔
وجہ تسمیہ :
لفظ “ماہیا” کی وجہ تسمیہ سے متعلق کچھ روایات کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔
1۔ ماہیا فارسی لفظ ” ماہ ” سے ماخوذ ہے جس کے معنٰی ہیں ایک مہینا، مکمل مہینا، پورا چاند، مکمل چاند۔ چاند کو چونکہ محبوب کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اسی نسبت سے عشق اور عشق کے درد، فراق، ہجر، وصل، ملاپ، دوری وغیرہ کا ذکر ماہیے کا بنیادی موضوع رہا ہے ۔ ماہیے کے لغوی معنی سے متعلق یعقوب آسی صاحب کی رائے ملاحظہ ہو :
“ماہیا، ماہی (یعنی مچھلی) سے ماخوذ ہے اور شاید اسی وجہ سے ایک زمانے میں یہ ماہی گیروں اور ملاحوں میں بہت مقبول رہا ہے ۔ آپ ماہیے سے تڑپ نکال دیں تو کچھ نہیں بچتا، یا یہ کہ مچھلی کی سی تڑپ کے بغیر ماہیا ہو ہی نہیں سکتا”
آسی صاحب کی اس رائے کے مطابق درد اور تڑپ ماہیے کا خاصہ ہے۔
2۔ ماہیا چوں کہ خالصتاَ سرزمین پنجاب کا لوک گیت ہے اور پنجابی میں بھینس کو “مہیں” کہتے ہیں۔ بھینس چرانے والے چرواہوں کو اسی نسبت سے ماہی کہا جاتا ہے۔ ان چرواہوں کے پاس سارا دن بھینسیں چرانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ اکتاہت سے بچنے اور وقت گزاری کے لیے بے چارے چرواہے کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے تھے۔ اس طرح گنگنانا ان کا مشغلہ بن گیا اور یہی مشغلہ بعد میں ماہیے کی شکل اختیار کرگیا کیوں کہ ان کے گانوں میں پنجابی دیہاتی ثقافت کی جھلک ہوتی تھی (جوکہ اب بھی ماہیوں کا خاصہ ہے)۔ پنجاب کی رومانوی کہانیوں کے کردار رانجھے اور مہینوال نے اس وقت ماہی کو چرواہے کی سطح سے اٹھا کر نہ صرف ہیر اور سوہنی کا محبوب بنادیا بل کہ محبت کرنے والی ہر مٹیار کا محبوب ماہی قرار پایا جب ان کو اپنے محبوب تک رسائی کے لیے بھینسوں کا چرواہا بننا پڑا۔ ہیر وارث شاہ (1766ء) میں بھی ماہی بھینس چرانے والے چرواہے کو ہی کہا گیا ہے۔ جیسے کہ:
میری جان بابل جیویں ڈھول راجا
ماہی مہیں دا ڈھونڈ لیائیاں میں
مہیں چرن نہ باجھ رانجھڑے دے
ماہی ہور سبھے جھکھ مارے
ماہیاں پُچھیا رانجھیا دَس بھائی
تیرے کن پاڑے ہن کس کان میاں
3۔ ماہیے کا موضوع زیادہ تر محب اور محبوب کی جدائی ہوتا ہے اس لیے محب اپنے محبوب کی جدائی میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتا ہے، اسی نسبت سے اسے ماہیا کہا جانے لگا۔
4۔ محب اپنے محبوب سے والہانہ عشق کے اظہار کے لیے کئی ناموں سے پکارتا ہے جیسے کہ ماہی، ماہیا، ڈھول، ڈھولا، سجن، سجناں، یار، چن، چاند، سوہنیا ۔۔۔۔۔۔ وغیرہ۔ ہمارے کلاسیکی لوک گیتوں کا موضوع بھی محب اور محبوب رہا ہے اسی لیے ان لوک گیتوں کی ایک صنف ماہیا قرار پایا۔
5۔ کہا جاتا ہے کہ بالو اور شفیع کی رومانی داستان کی شہرت کے ساتھ اس صنف کو ماہیا کا نام مل گیا۔
ہیئت :
ماہیے کی تحری ہیئت کے بارے میں تین مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
الف) پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو ماہیے کو ایک ہی سطر میں لکھنے کی تجویز دیتے ہیں۔ جیسے کہ:
تھالی وچ کھنڈ ماہیا کنڈ دے کے لنگھناں ایں تیری کنڈ دی وی ٹھنڈ ماہیا
عاشق حسین عاشق اور امین خیال وغیرہم کے مطابق ماہیا ایک ہی سطر میں مذکورہ بالا صورت میں لکھا جاتا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہو لیکن اب یک سطری ماہیوں سے اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔ بہ قول حیدر قریشی:
” ایک سطری ہیئت تو اب صرف مضامین میں تذکرے کی حد تک رہ گئی ہے”
ب) دوسرا گروہ ماہیے کو دو سطور یعنی ڈیڑھ مصرعی نظم لکھنے کا حامی ہے اور اس کا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ ڈیڑھ مصرعی ہیئت کے باعث ماہیا دوسری سہ حرفی اصناف (مثلاََ ثلاثی اور ہائیکو وغیرہ) سے الگ پہچانا جا سکے گا۔ ایسے ماہیوں کی مثال دیکھیں:
کوٹھے اتوں اُڈ کاواں
سد پٹواری نوں، جند ماہیے دے ناں لاواں
دل اپنے کشادہ تھے
اس لیے رونا پڑا، ہم ہنستے زیادہ تھے
اس موقف کی حمایت کرنے والے اردو اور پنجابی کے دانش وروں کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں سے چند ایک کے نام مع اقوال درج کیے جاتے ہیں:
1۔ افضل پرویز
“ماہیا ڈیڑھ مصرعے کی ایک رومانی نظم ہوتی ہے”
2۔ عبدالغفور قریشی
“ایہہ دیس پنجاب دا اک بے حد مقبول گیت اےجہڑا ٹپے وانگوں ڈیڑھ مصرعے دا گیت اے، پہلا مصرع چھوٹا تے دوجا وَڈا ہوندا اے”
3۔ غلام یعقوب انور
“شعر دا ٹوٹا، بند، چوبرگہ، ڈیڑھ مصرعے دا لوک گیت ۔۔۔۔۔۔ ایہہ مضمون پاروں بالو، ماہیا، ڈھولا، دوہڑا، سدۤ، بولی اکھواندا اے”
4۔ محمد یعقوب آسی
“اگرچہ آج کل اسے دو کی بجائے تین سطروں میں لکھا جا رہا ہے۔ اردو میں تو اسے تین مصرعوں کی حیثیت دے دی گئی ہے، جب کہ اصلاََ یہ دو سطروں میں لکھا جاتا ہے اور لکھا جانا چاہیے۔ پہلی سطر میں آدھا مصرع ہے اور دوسری میں ایک پورا مصرع ”
ج) تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو ماہیے کو تین سطروں میں رواج دینے کے علم بردار ہیں۔ اس مقصد میں انھیں کچھ کام یابی بھی ملی ہے اور اردو ماہیے کو تین سطروں میں لکھنے کا رواج بھی عام ہورہا ہے۔ جیسے کہ:
1۔ ڈاکٹر روشن لال اہوجا
“ایہدیاں (ماہیے دیاں) تن تکاں ہوندیاں نیں”
کوٹھے تے وان پیا
نکیاں نکیاں کنیاں
ڈھولا چادر تان پیا
2۔ امین خیال
“ماہیا اپنی ہیئت کے اعتبار سے تین حصوں، تین ٹکڑوں، تین کلیوں، تین مکھڑوں، تین پتیوں پر ہی مشتمل ہے کیوں کہ لمبے یا بڑے مصرعے کا وسرام اسے دو حصوں میں بانٹ دیتا ہے اور گاتے وقت بھی یہ تینوں برگ واضح ہوجاتے ہیں”
3۔ فارغ بخاری
فارغ بخاری کی کتاب “سرحد کے لوک گیت” میں درج ماہیے سہ مصرعی ہیئت میں ہیں۔
اور پنجاب کے کچھ گائے ہوئے لوک ماہیے سہ مصرعی ہیئت میں:
چِٹا کُکڑ بنیرے تے
کاسنی دوپٹے والیے
مُنڈا صدقے تیرے تے
(آواز: مسرت نذیر۔۔۔ غیر فلمی)
ساڈے دل نیں گوا ماہیا
تیری میری اک جندڑی
بھاویں بُت نیں جُدا ماہیا
( فلم: ذیلدار)
تم روٹھ کے مت جانا
مجھ سے کیا شکوہ
دیوانہ ہے دیوانہ
فرصت ہو تو آجانا
اپنے ہی ہاتھوں سے
مِری دنیا مٹا جانا
(قمرجلالوی۔۔ فلم: پھاگن۔۔ آواز: محمد رفیع، آشا بھونسلے)
دُنیا کو دکھا دیں گے
یاروں کے پسینے پر
ہم خون بہا دیں گے
(ساحرلدھیانوی۔۔ فلم: نیادور۔۔ آواز: محمد رفیع)
ماہیا چوں کہ دیہاتیوں کے دل کی آواز رہا ہے اس لیے یہ سینہ بہ سینہ لوگوں کے دلوں میں محفوظ رہا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی ہیئت میں اختلاف اس وقت آیا ہوگا جب اسے تحریری طور پر لکھنے کی طرف توجہ دی گئی ۔ پہلی صورت (ایک سطر میں لکھنے کی) تو خیر اب کہیں بھی رائج نہیں تاہم دوسری اور تیسری صورت (دو سطری اور تین سطری) کے بارے میں حیدر قریشی صاحب کی رائے ملاحظہ ہو:
“یہ اختلاف رائے صرف ماہیے کو تحریر صورت میں پیش کرنے کا ہے ورنہ مذکورہ بالا دونوں ہیئتوں میں ماہیے کا اصل وزن محفوظ ہے۔ اگرچہ ماہیا کو تین مصرعوں کی ہیئت میں واضح پذیرائی مل چکی ہے اور یہی صورت ماہیے کی مقبول اور مروج صورت ہے تاہم دوسرے موقف سے بھی ماہیے کا مجموعی وزن بہ ہرحال قائم رہتا ہے”
دوج بالا ہر دو صورتوں میں ماہیے کی دھن، لَے اور وزن پر کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے دونوں صورتیں قابلِ قبول ہیں۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتو تین سطروں میں لکھنے والی صورت بہتر اور موزوں معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ اسے گاتے وقت بھی آواز کا اتار چڑھائو تین ٹکڑوں یا حصوں میں منقسم ہوتا ہے۔
وزن کا مسئلہ :
اردو ماہیا اب اردو ادب کے لیے کوئی نئی چیز نہیں رہا بل کہ اردو اصنافِ سخن میں اپنی جگہ بنا چکا ہے اور پاک و ہند میں خاصی مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ جہاں تک پنجابی شاعری کے وزن کا تعلق ہے تو وہ عام طور پر ہمارے اردو اور فارسی نظامِ عروض پر پورا نہیں اترتی۔ پنجابی شاعری کا اپنا ذاتی نظامِ آہنگ موجود ہے جسے چھندا بندی کہا جاتا ہے۔ لیکن اردو ماہیا فارسی کے عروضی اصولوں پر ہی کہا جاتا رہا ہے۔ اردو ماہیے میں عروضی ارکان سے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ ویسے تو وزن کی بحث درجنوں صفحات کی متقاضی ہے لیکن یہاں پر اس کا مختصراََ جائزہ لیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ماہیا نگار دو دھڑوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔ پہلا دھڑا تنویر بخاری کے موقف کی تائید کرتا ہے جن کے مطابق ماہیے کا وزن یہ بنتا ہے:
مفعولُ مفاعیلن
مفعولُ مفاعیلن
مفعولُ مفاعیلن
(مف، عولُ، مفا، عی، لُن ۔۔۔ دو وتد اور تین سبب)
دوسرا دھڑا ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری کے موقف کی وکالت کرتا ہے جن کے مطابق ماہیے کے ارکان یہ ہیں:
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
(فع، لن، فع، لن، فع، لن ۔۔۔ چھ سبب)
دیکھا جائے تو دونوں پنجابی اسکالرز میں بنیادی طور پر کوئی اختلاف نہیں۔ کیوں کہ:
الف۔ دو وتد اور تین سبب بھی مجموعی طور پر چھ سبب کے برابر ہیں۔
ب۔ عروض کی پیچیدگیوں کو سمجھنے والے حضرات “تسکین” یا “تخنیق” کی اصطلاحات سمجھتے ہیں۔ تخنیق کے عمل کے بعد مفعولُ مفاعیلن بھی فعلن فعلن فعلن ہی کا روپ دھار لیتا ہے۔
اس طرح مفعولُ مفاعیلن اور فعلن فعلن فعلن دو اوزان ہوتے ہوئے بھی ایک ہی ہیں۔ اگر ان دونوں اوزان میں سے کسی وزن میں بھی ماہیے کہے جائیں تو ماہیے کے مجموعی وزن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لہٰذا دونوں اوزان ہی از روئے قاعدہ درست ہیں۔ اردو میں مذکورہ دونوں اوزان کے ماہیے وافر تعداد میں مل جاتے ہیں۔ یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس بحث کا اختتام ہوا۔ ماہیے کے وزن کی ختم نہ ہونے والی اصل بحث اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اب تک کہے گئے تمام ماہیوں کا اگر عروضی مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دو اوزان سب سے زیادہ استعمال کیے گئے۔ ایک کا اوپر ذکر ہوچکا ہے یعنی مفعول مفاعیلن (فی سطر) یا اس کی مخنق صورت فعلن فعلن فعلن (فی سطر)۔ یہ وہ وزن ہے جس میں ماہیے کی تینوں سطور مساوی الوزن ہوتی ہیں۔
ایک دوسرا وزن جو ماہیے میں زیادہ استعمال کیا گیا، اس کے مطابق پہلا اور تیسرا مصرع ہم وزن جب کہ دوسرے مصرع (یا سطر) میں ایک سبب خفیف (یعنی دو حروف) کا کم ہونا ضروری ہے۔ یعنی
مفعولُ مفاعیلن
فعلُ مفاعیلن
مفعولُ مفاعیلن
اگر اس وزن کی تخنیقی صورت لکھیں تو یوں ہوگی:
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
وزن کی اس بحث کو لے کر ماہیا نگار واضح طور پردوگروہوں میں تقسیم ہیں اورہر گروہ کے حامیوں کی تعداد درجنوں، بیسیوں (یا شاید اس سے بھی زیادہ) تک جا پہنچتی ہے لیکن وزن کا یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔ ذیل میں ہر گروہ میں سے چند نمائندہ دانش وروں کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ حضرات جن کے مطابق ماہیا تین یکساں مصرعوں کی نظم ہے۔
1۔ محمد صدیق تاثیر
“پنجابی شاعری دی مشہور تے مقبول (سدا بہار) صنف ماہیا دا تول وی تِن فعلن اے۔ ماہیا لگدا تے ڈیڑھ مصرعے دی اک نکی نظم اے پر ایہدیاں تِن تکاں نیں تے ایہدی ہر تُک دا تول تِن فعلن اے”
دو پتر اناراں دے
ساڈا دکھ سن کے چناں
روندے پتھر پہاڑاں دے
تقطیع: (چھندا بندی)
دو پت (2ماترے، 2ماترے)، ر انا (1ماترا، 1ماترا، 2ماترے)، را دے (2ماترے، 2ماترے)
سا ڈا (2ماترے، 2ماترے)، دُکھ سن (2ماترے، 2ماترے)، کِچ نا (2ماترے، 2ماترے)
رُند پتھ (1ماترا، 1ماترا، 2ماترے)، ر پہا (1ماترا، 1ماترا، 2ماترے)، ڑاں دے (2ماترے، 2ماترے)
ہر مصرع میں گرو اور لگھو کو جمع کریں تو فی مصرع وزن 12 ماترے ہے جو کہ عروض کے تین فعلن کے برابر ہے۔
فاضل مصنف آگے چل کرمخالف موقف پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
” ۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ ماہیے دی دوجی تُک وچ وی دو رکن (دو ماترے، اک سبب خفیف) گھٹ لیا رئے نیں جد کہ ماہیے دیاں تِناں تکاں دا تول اکو جیہا (برابر) ہونا چاہیدا اے۔ پنجابی ماہیا ہزاراں سالاں توں پنجاب وچ پرچلت اے تے ایہدا کوئی وزن تے تول وی اے جیہڑا ہزاراں سالاں توں ای بنھیا جا چکیا ہے”
2۔ دل نواز دل
“اردو زبانِ شعر کی تمام مختصر اصناف سخن مثلا قطعہ، رباعی، ثلاثی اور مثلث وغیرہ سبھی (کے مصرعے) مساوی الاوزان ہیں۔ ان اصناف کی نغمگی، غنائیت، شعریت اور آہنگ اسی مساوات سے قائم ہے۔ ان منظومات کے لیے جہاں وزن کا مساوی ہونا لازم قرار پایا ہے وہاں ملزوم بھی ٹھہرایا گیا ہے۔ ہائیکو جاپانی سے اردو میں درآمد کی گئی ہے، ماہیے کا ورود پنجابی سے اردو میں ہوا ہے۔ اس لیے بوجوہ ہمیں جان اور مان لینا چاہیے کہ ان اصناف کا اردو زبان کے سانچے میں ڈھل کر مساوی الاوزان ہونا لازم و ملزوم ہے۔ استثناء کی بات اور ہے اور یہ بات کبھی کبھی ہی کی جائے تو بنتی ہے، بہ صورتِ دیگر کثرت اسے بگاڑ دیتی ہے اور بگاڑ رہی ہے”
3۔ آل عمران
دریا میں اترتے ہیں
اے کاش کوئی پوچھے
کس غم سے گذرتے ہیں
تقطیع: (عروض)
دریا مے (مفعولُ)، اُترتے ہے (مفاعیلن)
اے کاش (مفعولُ)، کُ ئی پوچے (مفاعیلن)
کِس غم سِ (مفعولُ)، گزرتے ہے (مفاعیلن)
4۔ نثار ترابی
موجوں کا عذاب اب تک
سوہنی ترے لیکھوں پر
روتا ہے چناب اب تک
5۔ چراغ حسن حسرت
راوی کا کنارا ہو
ہرموج کے ہونٹوں پر
افسانہ ہمارا ہو
یہ رقص ستاروں کا
افسانہ کبھی سن لو
تقدیر کے ماروں کا
6۔ دلدار ہاشمی
جو نیند میں روتے ہیں
محسوس ہوا مجھ کو
سب درد میں ڈوبے ہیں
درج بالا تمام ماہیا نگارچراغ حسن حسرت کے پیروکار ہیں جن کی تینوں سطور برابرعروضی قیمت رکھتی ہیں یعنی “مفعول مفاعیلن” کے وزن پر۔ اس طرح ہرسطرمیں کل چھ اسباب (سبب کی جمع) بنتے ہیں۔
اب ان دانش وروں کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں جن کے مطابق ماہیے کا پہلا اور تیسرا رکن ہم وزن جب کہ دوسرے رکن میں ایک سبب (دو حروف) کم ہونا چاہیے۔
1۔ عارف فرہاد
“اصل وزن کے مصداق ماہیے کے دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم رکھا جاتا ہے”
جیسے کہ:
زرخیز زمینوں میں
راوی بہتا ہے
پنجاب نگینوں میں
تقطیع:
زرخیز (مفعول)، زمینو مے (مفاعیلن)
راوی (فعلن)، بہتا (فعلن)، ہے (فع)
پنجاب (مفعول)، نگینو مے (مفاعیلن)
یہاں دوسرا مصرع فعلن فعلن فع کے وزن پر ہے یعنی ایک سبب کم ہے اور یہ فعل مفاعیلن کی مخنق صورت ہے جس کی تفصیل اوپر موجود ہے۔
2۔ حیدر قریشی
عصرِ حاضر میں اس وزن کے حامیوں میں حیدر قریشی کا نام سرِ فہرست ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ان کی تحقیق نے ماہیا نگاری کو بلاشبہ ایک تحریک کی شکل دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“لَے کی رو سے ماہیے کا پہلا اور تیسرا مصرع تو مساوی الوزن ہوتے ہیں جب کہ دوسرے مصرع کا وزن ایک سبب کم ہوتا ہے”
3۔ ہمت رائے شرما
سہمی ہوئی آہوں نے
سب کچھ کہہ ڈالا
خاموش نگاہوں نے
4۔ مسعود ہاشمی
جھرمٹ یہ ستاروں کا
کون زمانے میں
تقدیر کے ماروں کا
5۔ پربھا ماتھر
گوری کا اڑا آنچل
کتنا سنبھالا تھا
دل پھر بھی ہوا پاگل
6۔ اقبال حمید
تصویر نہیں بدلی
سر پہ اگی چاندی
تقدیر نہیں بدلی
درج بالا تمام ماہیوں میں پہلی اور تیسری سطر کا وزن چھ اسباب کے برابرہے جب کہ دوسری سطر میں ایک سبب کم (یعنی پانچ اسباب) ہے۔ اس موقف کے حامی جدید ماہیا نگاروں میں امین خیال، عارف فرہاد، مناظر عاشق ہرگانوی، قمر ساحری، پروین کمار اشک، نذیر فتح پوری، انور مینائی، سعید شباب، یوسف اختر، غزالہ طلعت، بقا صدیقی، ضمیر اظہر، اجمل جنڈیالوی، ارشد نعیم، نوید رضا، رشید اعجاز و دیگر شامل ہیں۔
اشتیاق احمد قمردونوں مروجہ اوزان کو درست مانتے ہیں۔ ان کے مطابق:
“جب پنجابی ماہیا اردو کی زوجیت میں آہی چکا ہے تو اس کے دوسرے مصرعے کے ایک سبب کی کمی بیشی سے اس کا نکاح فسخ نہیں ہوجائے گا”
یعقوب آسی صاحب کے نزدیک بھی دونوں اوزان کو درست مان لینا چاہیے۔
وہ لکھتے ہیں:
“ہمیں اردو ماہیے میں دو اوزان کو اعتبار دینا ہوگا۔ پہلی اورتیسری سطرکا وزن ہر دوصورتوں میں چھ چھ سبب کے برابر ہوتا ہے جب کہ دوسری سطر کا وزن پانچ یا چھ سبب کے برابر ہوسکتا ہے۔ ہر سطر کا اختتام بہ ہرحال سببِ خفیف پر ہوگا”
اگر پنجابی ماہیوں کو عروضی اوزان پر پرکھنے کی کوشش کی جائے تو درج ذیل اوزان میں ماہیے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
دوسرا مصرع پہلے اور تیسرے مصرعے کے وزن سے
1۔ دو حروف کم ہوگا
2۔ چار حروف کم ہوگا
3۔ مساوی الوزن ہوگا
4۔ دو حروف زیادہ ہوگا
5۔ چار حروف زیادہ ہوگا
پروفیسر عرش صدیقی کے مطابق وزن نمبر1، 3 اور 4 ماہیے کے لیے موزوں ہیں۔
وہ لکھتے ہیں:
“اس رائے سے مجھے اختلاف نہیں ہے کہ ماہیے کے دوسرے مصرع میں پہلے سے ایک سبب کم ہوتا ہے۔ میں صرف اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ کم بھی ہوسکتا ہے اور بیش بھی۔ یوں بنیادی وزن فعلن تین بار رہے گا اور دوسرا مصرع تین، اڑھائی یا ساڑھے تین بار بھی ہوسکے گا۔ پنجابی ماہیے میں یہ تینوں صورتیں ملتی ہیں”
اردو ماہیا نگاری کے حوالے سے عارف فرہاد نے درج ذیل سات اوزان تجویز کیے تھے۔ ان کے بہ قول ان ساتوں اوزان میں پہلا اور تیسرا مصرع ہم وزن جب کہ دوسرے مصرع میں ایک سبب کم ہے۔
1۔ مفعول مفاعیلن
فاع مفاعیلن ۔۔۔۔ مفعول مفاعیلن
2۔ فعلاتن فعلاتن
فعلاتن فعلن ۔۔۔۔ فعلاتن فعلاتن
3۔ مفعولن مفعولن
مفعول مفعولن ۔۔۔۔ مفعولن مفعولن
4۔ فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع ۔۔۔۔ فعلن فعلن فعلن
5۔ فعلن فعلن فعلن
فعلن مفتعلن ۔۔۔۔ فعلن فعلن فعلن
6۔ مفعول مفاعیلن
فعل مفعولن فع ۔۔۔۔ مفعول مفاعیلن
7۔ متفاعلتن فعلن
متفاعلتن فع ۔۔۔۔ متفاعلتن فعلن
محمد یعقوب آسی صاحب کے مطابق یہ ساتوں اوزان دراصل ایک وزن مفعول مفاعیلن ۔۔۔۔ فعل مفاعیلن ۔۔۔۔ مفعول مفاعیلن کی مختلف تاویلات ہیں۔ اگرتسکین و تخنیق سے ان ساتوں اوزان کی تمام ممکنہ صورتیں جمع کرنے لگیں تو فارسی عروض کے حساب سے ان کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچتی ہے اور یہ تمام صورتیں پنجابی ماہیے کی مخصوص عوامی دھُن
چِٹا کُکڑ بنیرے تے
کاسنی دُپٹے والیے ۔۔۔۔ مُنڈا صدقے تیرے تے
(جسے پاکستانی گلوکارہ مسرت نذیر نے گایا) پر پورا اترتی ہیں۔ پنجابی عروض (چھندا بندی) کے مطابق یہ تمام صورتیں ایک ہی چال کے تابع ہوں گی۔ کیوں کہ چھندا بندی کا یہ اصول ہے کہ چال بنانے کے لیے پنجابی ماہیے کی ہر سطر (ہر مصرع) کے آخر میں ایک گرو رکھا جاتا ہے، دیگر مقامات پر لگھو یا گرو کی کوئی قید نہیں ہوتی۔
یہاں پر ایک بات ضمناَ عرض کرتا چلوں کہ جس طرح چال بنانے کے لیے پنجابی ماہیے (تینوں مصارع) کے آخر میں گرو رکھا جاتا ہے اسی طرح اردو ماہیے (تینوں مصارع) کے آخر میں سبب خفیف رکھا جاتا ہے۔
اگرچہ ماہیے کے درج بالا تمام اوزان میں اردو اور پنجابی ماہیے لکھے گئے ہیں لیکن دو اوزان میں سب سے زیادہ ماہیے کہے گئے ہیں جن کا ذکر اوپر تفصیلاََ ہوچکا ہے۔
1۔ مفعول مفاعیلن
مفعول مفاعیلن ۔۔۔۔ مفعول مفاعیلن
یعنی تینوں مصارع ہم وزن، چراغ حسن حسرت اور ان کے پیروکار اس وزن کی وکالت کرتے ہیں۔
2۔ مفعول مفاعیلن
فعل مفاعیلن ۔۔۔۔ مفعول مفاعیلن
یعنی دوسرے مصرع میں ایک سبب کم، عارف فرہاد حیدر قریشی اوران کے پیروکار اس وزن کی وکالت کرتے ہیں۔ نئے ماہیا نگارحیدر قریشی کی تحقییق سے متاثر ہوکر دوسرے مصرع میں ایک سبب کم والے ماہیے لکھ رہے ہیں۔ تاہم مساوی الوزن ماہیوں کی تعداد اب بھی زیادہ ہے اور یہی بات اس وزن کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ناصر عباس نیر کے مطابق:
“اگرچہ حیدر قریشی کے موقف سے ہم آہنگ پنجابی ماہیوں کی کثیر تعداد موجود ہے تاہم ایسے ماہیے بھی افراط سے مل جاتے ہیں جن کی تینوں لائنیں مساوی الوزن ہیں”
ماہیے پر کی گئی اب تک کی تمام تحقیق کے باوجود دوسرے مصرع کے وزن کا مسئلہ اس قدر الجھا ہوا ہے کہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ کر ایک وزن کا انتخاب کرنا مشکل ہے۔ وزن کا یہ الجھائو شاید تقطیع کے ایک نظام (چھندا بندی) سے دوسرے نظام (عروض) میں داخل ہونے کی وجہ سے ہے۔ ذیل میں کچھ تجاویز دی جارہی ہیں جن سے اس الجھن کے حل میں کافی معاونت مل سکتی ہے۔
1۔ ماہیے کے اصل وزن کے لیے ہمیں اس کی “اصل” کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ یہ چوں کہ پنجابی لوک گیت ہے جس کی اپنی مخصوص دھن ہے اور اسی دھن میں اس کا وزن موجود ہے۔ اس مقصد کے لیے پنجاب کے عوامی گلوکاروں کے گائے ہوئے ماہیوں کے وزن کو بنیاد تسلیم کرنا ہوگا۔ یعقوب آسی صاحب کے ہاں اس طریقہ کی بنیاد پر کافی وضاحت ملتی ہے۔ مثلاََ انھوں نے
کوئی کُترا گائیں جوگا
جے دُکھ ناں ونڈسیں تے، فِر ماہیا توں کاہیں جوگا
گڈی دیاں دو لیناں
ظلماں دی حد مک گئی، دل دے کے کھوہ لیناں
کوئی چمٹا اگ جوگا
ناں دھولاسانوں ملیوں، ناں چھڈیاای جگ جوگا
اور اس جیسے دیگر مشہورعوامی ماہیوں کا فاعلات کے صفحہ 238 تا 245 پر چھندا بندی کے مطابق تقطیع کرکے اوزان کا تجزیہ کیا ہے۔ مذکورہ اوزان میں مساوی الوزن ماہیے سب سے زیادہ جب کہ دوسرے مصرع میں ایک سبب کم والے ماہیوں کا تناسب دوسرے نمبر پر ہے۔ اگر اس طریقہ کو بنیاد بنالیا جائے تو دوسرے مصرع کے وزن کا مسئلہ خود بہ خود حل ہوجاتا ہے۔
(حیرت کی بات ہے کہ ماہیے کے اصل وزن کے لیے حیدر قریشی صاحب نے بھی بہ ذاتِ خود یہی طریقہ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ تجویز کیا ہے۔ آخر میں صرف لے کی بنیاد پر دوسرے مصرع میں ایک سبب کم والے وزن کو درست وزن قرار دیتے ہیں۔ حال آں کہ اگر لَے کی بات کی جائے تو پنجاب کے عوامی گلوکاروں کے گائے ہوئے اکثر ماہیے مساوی الوزن ہیں اور ایسے ماہیے جن میں دوسرا مصرع پانچ سبب کا ہے انھیں گاتے وقت اس مصرع پر وزن ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے ہندکو ماہیے گاتے وقت وزن پورا کرنے کے لیے گلوکار دوسرے مصرع کے آخری سبب یا گرو کو لمبا کرکے گاتے ہیں یا پھر دوسرے مصرع کے شروع یا آخر میں لفظ “وے” کا اضافہ کرکے وزن کی کمی کو پورا کرتے ہیں)
2۔ چراغ حسن حسرت کے تجویز کردہ وزن کو درست سمجھ لیا جائے کیوں کہ مساوی الوزن ماہیوں میں نغمگی ایک سبب کم والے ماہیوں کی نسبت زیادہ ہے۔
3۔ جس وزن میں آج تک سب سے زیادہ ماہیے (اردو اور پنجابی) کہے گئے ہیں اسی وزن کو درست سمجھا جائے کیوں کہ اکثریت کا عقیدہ ہمیشہ درست سمجھا جاتا ہے۔
4۔ پنجابی ماہیے کا وزن تو چوں کہ طے ہے (تینوں مصارع مساوی الوزن) جب کہ اردو ماہیے کے اوزان کی ابحاث کو ترک کردیا جائے اوراسے وقت کے بے کراں سمندر کی لہروں پر چھوڑ دیا جائے۔ کچھ عرصہ کے بعد وزن کے سلسلے میں یہ اپنا رستہ خود بنا لے گا۔ جس وزن میں سب سے زیادہ ماہیے کہے جائیں اسے حتمی سمجھا جائے۔
5۔ ماہیے کواس کی مخصوص عوامی دھن کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ جس وزن کے ماہیے زیادہ روانی سے گائے جاسکیں اس وزن کوماہیے کا حتمی وزن سمجھ لیا جائے۔
ماہیا ۔۔۔۔۔ ابتدا :
پنجابی ماہیے کا بانی کون ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں کہیں بھی نہیں مل سکتا۔ کیوں کہ یہ چرواہوں سے مخصوص ہے اورخدا جانے اس کی ابتدا کب اورکس نے کی۔ لیکن اردو ماہیے کی ابتدا سے متعلق بھی دانش وروں میں (اوزان کی طرح) اختلاف پایا جاتا ہے۔ عام طور پر اردو ماہیے کا بانی چراغ حسن حسرت کو سمجھا جاتا ہے۔
بہ قول سید ضمیر جعفری:
“جہاں تک مجھے معلوم ہے اردو میں پہلا ماہیا میرے ادبی پیرو مرشد (اردو ادب کے صاحبِ اسلوب ادیب) مولانا چراغ حسن حسرت مرحوم نے لکھا تھا ۔ جس کی یہ کلی آج بھی گلی گلی میں گونج رہی ہے”
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو، ہم تم کو نہیں بھولے
ڈاکٹر بشیر سیفی کی تحقیق کے مطابق بھی چراغ حسن حسرت ہی اردو ماہیے کے اولین شاعر ہیں جبکہ ڈاکٹر انور سدید نے مذکورہ بالا دونوں آراء سے اختلاف کرتے ہوئے اردو ماہیے کا بانی عبدالمجید بھٹی کو قرار دیا ہے۔
اس ضمن میں اشتیاق احمد قمر کی رائے ملاحظہ ہو:
“انورسدید نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، جس سے عبدالمجید بھٹی کی اولیت ثابت ہو سکے۔ ان کی ماہیا نگاری کا آغاز 1971ء سے تیس برس قبل شمار کیا جائے تو بھی 1941ء بنتا ہے جب کہ چراغ حسن حسرت کے ماہیے 1937ء میں چھپے تھے۔ اس لیے چراغ حسن حسرت ہی کو اردو ماہیے کا اولین شاعر سمجھنا چاہیے”
حیدر قریشی پہلے قمر جلال آبادی کو ماہیے کا بانی مانتے تھے لیکن بعد میں مناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق سے متاثر ہوکر ہمت رائے شرما کو اردو ماہیے کا اولین شاعر ماننے لگے۔ یادرہے کہ ہمت رائے شرما نے فلم “خاموشی” کے لیے (دوسرے مصرع میں ایک سبب کم والے) ماہیے لکھے اور گائے بھی خود۔ حال آں کہ اس سے پہلے قمر جلالوی اور ساحر لدھیانوی اور ان سے بھی پہلے چراغ حسن حسرت فلم “باغباں” کے لیے مساوی الاوزان ماہیے لکھ چکے تھے۔ ہمت رائے شرما کے ماہیے 1937ء میں کہے گئے اور 1939ء میں ریلیز ہونے والی فلم خاموشی کے لیے ریکارڈ کیے گئے جب کہ حسرت کے ماہیے1937ء تک منظرِعام پر آچکے تھے۔
حیدر قریشی کی چراغ حسن حسرت کوماہیے کا بانی تسلیم نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حسرت نے یکساں مصرعوں کے ماہیے لکھے جنھیں حیدر قریشی سرے سے ماہیے ہی تسلیم نہیں کرتے بل کہ انھیں “مبینہ ماہیے” ، “ثلاثی” ، “ثلاثی نما کوئی اور چیز” ۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ کہتے ہیں اوروہ ہمت رائے شرما کو ماہیے کا بانی اس لیے بھی مانتے ہیں کہ انھوں (شرماجی) نے دوسرے مصرع میں دو حروف کم والے ماہیے لکھے (حیدر قریشی کے نزدیک یہی درست وزن ہے)۔
جس طرح عروض کے موجد خلیل احمد فراہیدی کے نظامِ عروض میں اردو نے اپنے مزاج کے مطابق خفیف سی تبدیلیاں کرکے قبول کرلیا تو اس سے متاخرین کو عروض کا موجد ہرگز نہیں کہا جائے گا بل کہ اس کے موجد بدستور خلیل احمد فراہیدی ہی رہیں گے، بالکل اسی طرح اگر حسرت جی کے وزن کو متاخرین نے ہلکی سی کمی بیشی کے ساتھ رائج کرلیا ہے تو اس سے ان کے بانی ہونے پر کوئی حرف نہیں آتا۔
جب ماہیے کے دو مسائل (بانی اور وزن) کو گڈ مڈ کردیا جاتا ہے تو اس وقت یہ موضوع مزید الجھ کر رہ جاتا ہے۔
“یکساں مصرعوں والے ماہیے درست ہیں”
یا
“چراغ حسن حسرت ماہیے کے بانی ہیں”
اگر ان میں سے کوئی ایک بیان درست مان لیا جائے تو دوسرا بلا مشروط خود بہ خود درست ثابت ہوجاتا ہے۔
موضوع :
پنجابی ماہیے کے موضوعات محدود نہیں ہیں۔ بہ طورِ خاص ہمارے دیہاتی ماحول کا ہر پہلو پنجابی ماہیے کا موضوع رہا ہے۔ ماہیا خدا اور رسول ﷺ سے محبت، حسن و عشق کے قصے، فلسفہ و نفسیات، بزرگانِ دین سے لگائو، بہادری کے قصے، طنزومزاح، لہلہاتی فصلیں، دھواں، چولھا، کچی سڑکیں، کچے مکان، کھیت کا کنارا، شادی بیاہ کے ہنگامے، سہیلیوں کی ملاقات، دوستوں کی محفل، ساون کی پھوار، خزاں، بہار ۔۔۔۔۔۔ غرض زندگی کے ہر پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہ قول اسلم جدون اکثر ماہیے ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اس میں ماہیا کہنے والے کی زندگی کا نچوڑ اور صدیوں کا اجتماعی شعور شامل ہوتا ہے۔ ذیل میں موضوع کے لحاظ سے کچھ پنجابی ماہیوں کا انتخاب پیشِ خدمت ہے۔ یاد رہے اس ضمن میں وزن ملحوظِ خاطر نہیں ہے۔ یہاں صرف ماہیوں کا موضوعاتی انتخاب شامل کیا جارہا ہے۔
1۔ اللہ پر کامل ایمان:
سنیاریا گھڑ چاندی
بخشیں گناہ مولا، بھُل بندیاں توں ہوجاندی
2۔ عشق حقیقی:
لکڑی ٹول دی اے
کیہ یاری دنیا دی، یاری اللہ رسول ﷺ دی اے
3۔ رسالت مآب ﷺ:
لکڑی ٹول دی اے
پھُلاں وچوں پھُل سوہنا، سوہنی ذات رسول ﷺ دی اے
4۔ بزرگانِ دین سے عقیدت:
سپ چڑھ گیا کیلے تے
آ ماہیا نال جُلاں، بری امامؒ دے میلے تے
5۔ تقدیر:
اسمانی تارے نی
اوہ بندے نئیں مِلدے، جہڑے موت نے ماری نی
دو پتر پئے ہلدے نے
باہجھ نصیباں دے، رویاں یار نہ ملدے نے
6۔ جدائی:
چِلماں چہ چھک چرساں
اوہ کہڑا دن ہوسی، جدوں ماہیا تے میں ملساں
7۔ یاد:
گڈی دیاں دو لیناں
جِتھے ماہی یاد آوے، اوتھے بہہ کے رو لیناں
8۔ پردیس:
گھڑے گھرونجیاں تے
اساں ماہی ٹر جاناں، ہتھ ماریں گا منجیاں تے
9۔ دیدار:
گڈی آ گئی ٹیشن تے
پچھے ہٹ وے بابو، سانوں ماہیا ویکھن دے
10۔ خط:
تندوری تائی ہوئی اے
اگ لگے روٹیاں نوں،چٹھی ماہیےدی آئی ہوئی اے
11۔ مزاح:
چاولاں دی پِچھ ماہیا
لوکاں دے چن ماہی، ساڈا جنگلاں دا رِچھ ماہیا
12۔ تنقید:
ککراں دے سوٹے نیں
پتر بلوچاں دے، جیوں مصری دے ٹوٹے نیں
بیری تے پھُل کوئی نا
کالا شاہ ماہیا پر، نقشاں دا مُل کوئی نا
13۔ طنز:
دو پتر اناراں دے
محبتاں وِسر گئیاں، ہتھ لگے نی یاراں دے
14۔ غم:
تندوری تائی ہوئی آ
بالن ہڈیاں دا، روٹی غماں والی لائی ہوئی آ
15۔ محبوب پر اندھا یقین:
جھولی وچ پا دانے
اسیں تیرے نوکر آں، تیرے دل دیاں رب جانے
16۔ امید:
پتر نارنگیاں دے
ایہ ویلے لنگھ جاسن، جہڑے آئے نے تنگیاں دے
17۔ موسم:
دو پتر اناراں دے
ہن تے مُڑ آ سجناں، دن آگئے بہاراں دے
18۔ محبوب کا حسن:
راکٹ لیٹ آیا
مُکھڑے توں چا زُلفاں، چَن بدلاں دے ہیٹھ آیا
19۔ محبوب کی ادائیں:
لسی تاراں مکھنے توں
جگ قربان کراں، تیرے پِچھاں مُڑ تکنے توں
20۔ داخلی جذبات:
کوکے دا کِل ماہیا
لوکان دیاں رون اکھیاںِ، ساڈا روندا ای دِل ماہیا
کولے وچ دہیں ماہیا
جدوں دل ٹُٹ جاوے، فِر جُردا نئیں ماہیا
21۔ خارجی احساسات:
آٹا گُننی آں گو گو کے
خط آیا ماہیے دا، پئی پڑھنی آں رو رو کے
22۔ انتظار:
کالر چولے دا
مدتاں گزر گئیاں، راہ تکنے آں ڈھولے دا
23۔ محبوب سے شکوے:
پانی بھرنی آں پُن پُن کے
ماہی بد راہ ہویا، گلاں لوکاں دیاں سُن سُن کے
24۔ انتہائے عشق:
ڈھیر امروداں دے
تیری میری اک جندڑی، ذرا فرق وجوداں دے
25۔ غمِ جاناں اورغمِ دوراں کی آمیزش:
ہَٹیاں تے کھَنڈ ویٹی
اک تاں غریبی آ، دوجی سجناں کَنڈ کیتی
26۔ محبوب کا شباب:
چٹا رنگ وے دوانی دا
اک تیرا رنگ مُشکی، دوجا حسن جوانی دا
اس کے علاوہ معرفت، تصوف، فطرت، مذہب، ہجو، لڑائیوں اور بہادریوں کے قصے، سچے اور خالص جذبات، غرض کہ ماہیے نے اس کائنات کے ہر پہلو کو اپنے اندر سمولیا ہے۔ عصرِ حاضر کے اردو ماہیا نگار بھی ہرموضوع پر ماہیے لکھ کر اردو ماہیے کا دامن وسیع کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
ہمارے ہاں ماہیے کی ایک اور مروجہ قسم بھی ملتی ہے۔ یہ لمبے ماہیے ہوتے ہیں۔ جن کا آغاز “میں ایتھے تے ۔۔۔۔۔ ” سے ہوتا ہے۔ ان ماہیوں میں دور دراز کے علاقوں کا ذکر ہوتا ہے۔ مثلاََ
میں ایتھے تے ڈھول گجرات اے
سودا لیندیاں پئے گئی رات اے
میریا وے ماہیا
کنڈے بھُر گئے چاٹیاں دے
ڈر پیا لگدا اے لمے لڑ گجراتیاں دے
غالب گمان ہے کہ ایسے ماہیوں کو رواج دینے میں گجرات کے دیہاتوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :
1۔ اردو میں ماہیا نگاری (از: حیدر قریشی)
2۔ اردو ماہیے کی تحریک (از: حیدر قریشی)
3۔ اردو ماہیا (از: حیدر قریشی)
4۔ ماہیے کے مباحث (از: حیدر قریشی)
5۔ فاعلات (از: محمد یعقوب آسی)
6۔ بول تے تول (از: غلام یعقوب انور)
7۔ پنجابی دا اپنا عروض (از: محمد صدیق تاثیر)
8۔ لعلاں دی پنڈ (مرتب: اقبال صلاح الدین)
9۔ ماہیے (تلاش و ترجمہ: اسلم جدون)
10۔ پنجاب دے لوک گیت (مرتبین: نازش کاشمیری، راجا رسالو)