ماہر معاشیات عاطف میاں
عاطف میاں پاکستانی نژاد معروف امریکی ماہرِ معاشیات ہیں۔ آئی ایم ایف نے 2014 میں دنیا کے ٹاپ 25 قابل نوجوان ماہرِ معاشیات کی ایک لسٹ مرتب کی تھی ،جس میں عاطف میاں کا 16واں نمبر تھا۔ پاکستان کے لئے یہ عزت افزائی کا مقام تھا ۔۔۔جب یہ خبر وزیراعظم عمران خان تک پہنچی تو انہوں نے اعلان کیا کہ جب تحریک انصاف کی حکومت آئے گی تو وہ عاطف میاں جیسے ٹیلنٹڈ انسان کو پاکستان لائیں گے اور ان کو اپنے ملک کی معیشت بہتر کرنے کے لیے ٹاسک دیں گے۔عمران خان کا یہ کہنا ہی تھا کہ کچھ مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کپتان خان پر شدید تنقید کی گئی ۔۔۔عمران خان کا ردعمل پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لئے یقنیا شاندار تھا ۔ایک ایسا عالمی معیشت دان جسے عالمی اقتصادی ادارہ سراہا رہا تھا ،کیا عمران خان کو اس پر خوش نہیں ہونا چاہیئے تھا ؟
پروفیشنل لائف میں قابل لوگ اپنے عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے شعبے میں قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر ترقی کرتے ہیں اور عاطف میاں کی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ اگر آئی ایم ایف اور امریکہ اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو پاکستان ان کی صلاحیتوں سے فائدہ کیوں نہ اٹھائے ؟عمران خان نے معیشت کی بہتری کے لیے جو اقتصادی ٹیم بنائی ہے، اس میں کل 18 ممبرز ہیں جن میں سے ایک عاطف میاں ہے۔ ہم کو اس کے عقیدے سے ہرگز کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ہم کو صرف اس کی قابلیت سے مطلب ہونا چاہیے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ رہتے ہوئے پاکستان کی بہتری اور خوشحالی کے لیے کام کرے گا۔
پروفیسر عاطف میاں پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔پرنسٹن یونیورسٹی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہے۔ان کے ریسرچ پیپرز عالمی اقتصادی فورمز میں شائع ہوتے ہیں اور دنیا ان کے تحقیقی مقالموں سے فائدہ اٹھارہی ہے اور ہم ہیں کہ عقیدے کے نام پر انہیں رسوا کررہے ہیں؟تعصب کے بغیر خالص میرٹ پر عاطف میاں کی تقرری سے عمران خان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ واقعی ہی لیڈر ہیں جو صرف پاکستان کی ترقی کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔
امریکی پر نسٹن یونیورسٹی کےماہر معاشیات پروفیسر عاطف ایم میاں سمیت 18 رکنی اقتصادی مشاورتی کونسل میں عالمی شہرت یافتہ معیشت دان شامل ہیں ،جن میں 7 کا تعلق سرکاری اور 11 کا نجی شعبے سے ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر سے لیے گئے ارکان میں ڈاکٹر فرخ اقبال،ڈاکٹر اشفاق حسن خان، پروفیسر ڈاکٹر اعجاز نبی، ڈاکٹر عابد قیوم سلہری، ڈاکٹر اسد زمان،پروفیسر ڈاکٹر نوید حامد، سید سلیم رضا اور ثاقب شیرانی بھی شامل ہیں۔معروف امریکی اور برطانوی یونیورسٹیوں میں خدمات انجام دینے والے 3 ماہرین معاشیات کو بھی کونسل میں شامل کیا گیا ہے۔ان میں امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اور ووڈرو ولسن اسکول آف پبلک پالیسی کے پاکستانی نژاد پروفیسر ڈاکٹر عاطف میاں، امریکہ کے ہارورڈ کینیڈی اسکول کے پروفیسر آف انٹرنیشنل فنانس اینڈ ڈویلپمنٹ ڈاکٹر عاصم اعجاز خواجہ اور یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر آف اکنامکس ڈاکٹر عمران رسول شامل ہیں۔جبکہ سرکاری شعبے سے وفاقی وزیر خزانہ، وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، گورنر اسٹیٹ بینک، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن، مشیر ادارہ جاتی اصلاحات، مشیر تجارت اور سیکریٹری فنانس مشاورتی کونسل کا حصہ ہیں۔ کونسل معاشی معاملات پر وزیر اعظم کی معاونت کرےگی۔ عاطف ایم میاں کے بارے میں ایک انٹرویو میں وزیرا عظم عمران خان کا کہنا تھاکہ انہیں دنیامیں ٹاپ ا کنامسٹ ہونے پر کونسل میں شامل کیا گیا جب عمران خان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ ڈکٹر عاطف کون ہیں تو عمران خان نے کہا کہ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ۔
دو ہزار چودہ میں دھڑنے کے دوران جب میاں عاطف کے حوالے سے عمران خان سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھاکہ ان کے سامنے ریاست مدینہ کی مثال موجود ہےجس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تھا اوراس ریاست میں غیر مسلم باشندوں کو بھی برابری کے حقوق حاصل تھے ۔ ریاست مدینہ میں عیسائی اور یہودی بھی مکمل حقوق کے ساتھ رہتے تھے اور اسی ریاست مدینہ کی بنیادوہ پاکستان میں رکھنا چاہتے ہیں جہاں غیر مسلموں کو بھی برابری کے حقوق حاصل ہوں۔
پاکستانی معاشرے میں مذہبی بنیادوں پر پائی جانے والی تقسیم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عاطف میاں کو وزیراعظم کے لیے اس مشاورتی کونسل کا حصہ بنانے پر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے، جس کونسل کا مقصد ملک کی تباہ حال معیشت کو سہارا دینے کے لیے تجاویز مرتب کرنا ہے۔سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا نے بھی اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ’ پچاس لاکھ گھر ،کروڑ نوکریاں اور ایک سودن میں صوبہ جنوبی پنجاب کا جھوٹ پہلے دن سمجھ میں آگیا تھا لیکن اس منافقت کی توقع شاید کسی کو بھی نہیں تھی کہ ریاست مدینہ کو آئیڈیل قرار دینے والے عمران عاطف میاں کو قریبی مشیر مقرر کریں گے۔‘‘اس ٹوئیٹ کے بعد انہوں نے معذرت کر لی ہے اور کہا ہے کہ یہ ٹوئیٹ انہوں نے نہیں کی بلکہ ان کی سوشل میڈیا کے کسی فرد نے کی ہے ۔
پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکا حسین حقانی نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ’’معیشت سنبھالنے کے لیے بندہ کا اقتصادی علم رکھنا اہم ہے یا اُس کے مذہبی عقائد کا اکثریت کے عقیدے سے ہم آہنگ ہونا؟‘‘
تاہم اپنے ایک تازہ ٹویٹ میں ڈاکٹر عاطف میاں نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان کی اقتصادی صورت حال میں بہتری کی امید کی جانی چاہیے۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔