اردو ماہیا کی بحث وزن اور مزاج سے ہوتے ہوئے اردو میں اس کی اہمیت کے مسئلہ پر غور و فکر کے ساتھ اب جیسے رُک سی گئی ہے۔ماہیا نگار حضرات اپنی اپنی صلاحیت اور دلچسپی کے مطابق ماہیے کہہ رہے ہیں تاہم اس کے مباحث میں اب پہلی گرم جوشی نہیں رہی۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ علمی و ادبی سطح پر جو دلائل ہماری طرف سے پیش کیے جاتے رہے،ان پر کج بحثی کرنے والوں کو بھی جلد ہی اپنی علمی کمزوری کا ادراک ہو گیا۔ایک راگ الاپتے چلے جانے میں اور دلیل کے ساتھ بات کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ہمارے مخالفین میں سے سنجیدہ اہلِ ادب نے اس بات کو ایک حد تک خوش دلی سے مان لیا اور باقی نے خاموشی میں عافیت سمجھی۔اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ ایک وقفہ کے بعد ہمارے مخالفین کی جانب سے ایک بار پھر’’شورِ قیامت‘‘ برپا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔تاہم عارف فرہاد کی کتاب’’اردو ماہیے کے خدو خال‘‘اور ماہیا کے جملہ موضوعات کا احاطہ کرنے والی(میری پانچ کتابوں کی کتاب)’’اردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘ میں اتنا علمی مواد موجود ہے کہ بعد میں اُٹھائے گئے بیشتر اعتراضات کے جواب انہیں میں سے نکال کر دئیے جاتے رہیں گے۔اس علمی کام میں ایک اور گراں قدر اضافہ ہو گیا ہے۔اگرچہ ابھی یہ کام کتابی صورت میں سامنے نہیں آیا،تاہم ناگ پور یونیورسٹی سے ڈاکٹر صبیحہ خورشید ’’اردو میں ماہیا نگاری‘‘کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر چکی ہیں۔یہ مقالہ میرے پاس موجود ہے۔ مارچ ۲۰۱۲ء میں جب مجھے کلکتہ کے فیض اور ٹیگور سیمینارز میں جانے کا موقعہ ملا،تب ڈاکٹر صبیحہ خورشید لگ بھگ چوبیس گھنٹے کا ٹرین کا سفر کرکے مجھے ملنے کے لیے کلکتہ آئی تھیں،تب ہی انہوں نے اپنے مقالہ کی یونیورسٹی کی مخصوص جلد مجھے عنایت کی تھی۔
نو ابواب اوربعض ابواب کے کئی ذیلی ابواب پر مشتمل اس مقالہ کے صرف نو ابواب کے عنوان یہاں درج کر رہا ہوں۔
۱۔اصنافِ شاعری
۲۔ماہیا اور فنِ ماہیا نگاری(پانچ ذیلی ابواب کے ساتھ)
۳۔ماہیے کی اقسام
۴۔اردو میں ماہیا نگاری(دو ذیلی ابواب کے ساتھ)
۵۔بین الاقوامی سطح پر ماہیا نگاری(دو ذیلی ابواب کے ساتھ)
۶۔ہندوستان میں ماہیا نگاری
۷۔مہاراشٹر میں ماہیا نگاری اور انتخاب کلام
۸۔اردو کی خواتین ماہیا نگار
۹۔خلاصۂ مقالہ
فل اسکیپ سائز کے۳۷۴ صفحات پر محیط اس مقالہ کے بعد آخر میں ۱۳ صفحات پر مشتمل کتابیات شامل کی گئی ہے۔پروفیسر ارشد جمال کی نگرانی میں صبیحہ خورشید نے اس مقالہ کو مقررہ میعاد کے اندر عمدگی سے مکمل کر لیا۔
یہ مقالہ کئی لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔اس کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض ادباء ماہیے کے بارے میں جان بوجھ کر کنفیوژن پیدا کرنے میں مصروف تھے ،اہلِ پنجاب کے حصے کا علمی و تحقیقی کام مہاراشٹرکے شہر ناگ پور کی یونیورسٹی میں کیا گیا اور ماہیے کی تفہیم کا یہ کام ایک لڑکی کو کرنے کا موقعہ ملا۔
اس مقالہ کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ اس میں نہ صرف ماہیے کی بحث میں اٹھائے گئے سارے مباحث کو سامنے لایا گیا ہے،ان کے بارے میں فریقین کے موقف کو ساتھ ساتھ پیش کرتے ہوئے علمی بنیاد پر درست موقف کی نشان دہی کی گئی ہے۔ڈاکٹر صبیحہ خورشید نے اردو ماہیا کے پاکستان اور مغربی دنیا میں مقیم شعراء کے ذکر کے ساتھ ہندوستان کے ماہیا نگاروں کا خصوصی ذکر کیا ہے۔اس سلسلہ میں ہندوستان کے بعض صوبوں کا جزوی طور پر تو بعض صوبوں کا خصوصی طور پر مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ان صوبوں (ریاستوں)میںمہاراشٹر ،بہار، مغربی بنگال،اتر پردیش،پنجاب،مدھیہ پردیش،راجستھان، کرناٹک،آندھرا پردیش کے ماہیا نگاروں کا خاص تذکرہ کیا ہے۔ہندوستان بھر کے ماہیا نگاروں کا اتنا تفصیلی مطالعہ انہوں نے تقریباََ سب سے براہِ راست رابطہ کرکے مکمل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کلکتہ آئیں تو کلکتہ کے ماہیا نگارشعراء ان سے بخوبی واقف تھے۔اس سے اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر صبیحہ خورشید نے مقالہ کی تکمیل کے دوران ممکنہ حد تک ہر اہم ماہیا نگار سے رابطہ کیا اور ان کی تخلیقات کو اپنا موضوع بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صبیحہ خورشیدکے اس مقالہ کو میں بالواسطہ طور پر خود پر کیے گئے تحقیقی کام میں شمار کرتاہوں۔
ڈاکٹر صبیحہ خورشید کا مقالہ ۲۰۰۹ء میں منظور کر لیا گیا تھا۔ اس کے سال بھر کے بعد میری کتاب’’اردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘ستمبر ۲۰۱۰ء میںشائع ہوئی۔یہ کتاب میری تین پہلے مطبوعہ کتب اور دو غیر مطبوعہ کتب ،گویا پانچ کتابوں پر مشتمل ہے۔ان کتابوں کے نام یہاں درج کررہا ہوں۔
۱۔اردو میں ماہیا نگاری(۱۹۹۷ء)
۲۔اردو ماہیے کی تحریک(۱۹۹۹ء)
۳۔اردو ماہیے کے بانی:ہمت رائے شرما(۱۹۹۹ء)
۴۔اردو ماہیا(ماہیے کے مختلف مجموعوں کے لیے لکھے گئے پیش لفظ)
۵۔ماہیے کے مباحث(یہ مضامین مختلف ادبی رسائل میں چھپ چکے تھے،انہیں یکجا کیا گیا)
اس سارے تحقیقی و تنقیدی کام کے بعد اب ماہیے کی کسی بھی بحث میں کسی بھی نکتۂ اعتراض پر کوئی نئی بات سامنے نہیں آتی اور عام طور پر پہلے سے لکھے ہوئے جواب کو پورے حوالے کے ساتھ دہرا دینے سے ہی کام چل جاتا ہے۔اسے میں ماہیے کے درست وزن والے موقف کی علمی و ادبی کامیابی سمجھتا ہوں۔
گزشتہ دس بارہ برسوں میںتخلیقی طور پر اگرچہ پہلے جیسی گہما گہمی تو دکھائی نہیں دی لیکن مختلف ادبی رسائل میں اردو ماہیے شائع ہوتے رہے۔اردو ماہیا نگار کسی بحث مباحثہ کے بغیر اپنی اپنی لگن کے ساتھ ماہیے لکھتے رہے۔ ماہیے کے چند نئے مجموعے بھی منظرِ عام پر آئے۔میں نے ایک عرصہ سے ماہیے کا سالانہ جائزہ لکھنا چھوڑ دیا ہے۔تب سے اب تک بہت سارے نئے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ان میں سے چند قابلِ ذکر مجموعوں کے نام یہاں درج کررہا ہوں۔اٹلی سے جیم فے غوری کے ماہیوں کا مجموعہ’’خواب کی کشتی پر‘‘،انڈیا سے علیم الدین علیم کا مجموعہ ’’پھول ہتھیلی پر‘‘،پاکستان سے شاکر کنڈان کا مجموعہ’’جلتے صحراؤں میں‘‘،سجاد بخاری کا مجموعہ ’’ردائے شبنم‘‘،افضل چوہان کا ’’خاموش نہ ہو ماہیا‘‘،انڈیا سے مختار ٹونکی کا’’صد رنگ ماہیے ‘‘،انڈیا ہی سے فراز حامدی کی مرتب کردہ کردہ کتاب’’راجستھا ن میں اردو ماہیے کا تخلیقی سفر‘‘اورپاکستان سے امین خیال کا’’پانی کی کہانی‘‘۔
یہ چند اہم مجموعوں کے نام ہیں۔ان میں ’’پانی کی کہانی‘‘بہت ہی خاص تحفہ ہے۔افضل چوہان اور جیم فے غوری کے ماہیوں کے مجموعوں پر میں تفصیلاََ لکھ چکا ہوں جو ان کے مجموعوں میں شامل ہونے کے ساتھ میری کتاب’’اردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘میں بھی شامل ہے۔اور امین خیال کے مجموعہ’’پانی کی کہانی‘‘پر بھی اپنی تفصیلی رائے لکھ چکا ہوں جو اس مجموعہ میں بھی شامل ہے اور ’’اردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘میں بھی شامل ہے۔ اس صورت میں ’’پانی کی کہانی‘‘بہت ہی خاص تحفہ کیسے ہو گیا؟اس کی وضاحت ذرا آگے چل کر کرتا ہوں پہلے یہاں اپنے تحریر کردہ ’’پانی کی کہانی‘‘ کے پیش لفظ کا کچھ ابتدائی حصہ درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
’’ پہلا مجموعہ’’یادوں کے سفینے ‘‘تھاایسے لگتا ہے کہ ان سفینوں پر ایک عرصہ تک سفر کرنے کے بعدانہوں نے اپنے اندر اور باہر کے پانی کو دیکھا۔پانی کی کہانی کو سنااور پھر اس کہانی کو اپنے سفر کے حاصل کے طور پر بیان کر دیا۔گویا پانی کی کہانی،یادوں کے سفینوںپر کیے گئے اسفار کا حاصل ہے۔تو کتاب کا نام ہی ایک پیش رفت کا احساس دلاتا ہے۔
پانی کی کہانی میں ایک دو جگہ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی ٹیچر کی طرح سمجھانے لگے ہیں۔لیکن پھر اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی بات کی بنیاداستوار کرنے کے لیے ایسے ماہیے کہے ہیں۔
پانی کی کہانی ہے
خشکی اک حصہ
تِن حصے پانی ہے
پانی اک نعمت ہے
جتنا زیادہ ہے
اتنی ہی ضرورت ہے
مٹی تو نمانی ہے
آپ ہی آگ،ہوا
اور آپ ہی پانی ہے
سو امین خیال اپنے ٹیچر ہونے کے زمانہ میں بچوں کو پڑھانے کی طرح نہ توکوئی فارمولا بتانے لگے ہیں،نہ ہی پانی کو فلسفیانہ انداز سے دیکھ رہے ہیں۔ایسا کچھ نہیں ہے۔انہوں نے نہ کوئی فلسفہ بگھارا ہے اور نہ ہی سائنس پڑھانے بیٹھے ہیں۔وہ تو بس ماہیے کی روانی میں ،یادوں کی جوانی میں ،ایک سفینے سے دوسرے سفینے تک جاتے آتے پانی کو دیکھتے ہیں،سنتے ہیں،جتنا سمجھ میں آتا ہے سمجھتے ہیں اور پھر اپنی واردات کو سادگی سے بیان کر دیتے ہیں۔اسی لیے مذکورہ بالا تین ماہیوں میں سے تیسر ے ماہیے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ پانی کی کہانی میں کئی اور کہانیاں سنانے جا رہے ہیں۔
پانی کی گاگر ہے
میں اک قطرہ ہوں
تو پیار کا ساگر ہے
کیا درد کا لہرا ہے
سات سمندرسے
بڑھ کر دل گہرا ہے
دل بحر کو چھَل دی ہے
یار نے تو دل کی
دنیا ہی بدل دی ہے
شروع میں دئیے گئے تین ماہیوں میں سے ’’مٹی نمانی‘‘ والے ماہیے سے ہمہ اوست والا معروف صوفیانہ تصور ابھرتا ہے جو ان تین ماہیوں(پانی کی گاگر،درد کا لہرا اور دل بحر) کے ذریعے واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔پہلے تو سب کچھ وہ ’’آپ‘‘ہے۔۔۔۔پھر ’’وہ‘‘ ساگر ہے اور’’ میں‘‘ ایک قطرہ ہے۔اس’’ میں‘‘ کو جب درد کی دولت ملتی ہے تو سات سمندروں سے بھی بڑھ کر گہرا ہوجاتا ہے ۔ قطرے کی سمندر میں تبدیلی اُس یار کی طرف سے ہے جس نے اپنی ایک لہر کے ذریعے اسے کیا سے کیا کر دیا۔اس سب کچھ کے باوجود بات تصوف کی دنیا میں گم نہیں ہوتی۔صوفیانہ رمزوں سے گزرتے ہوئے، امین خیال زندگی کے لیے بہتے ہوئے پانی کے معروف تصورکو بیان کرتے ہوئے،اسے عمر کے مختلف حصوں میں دیکھتے ہیں۔‘‘
یہاں تک تو امین خیال کی ماہیا نگاری پر میری خیال آرائی شامل ہے۔پنجابی کے ممتاز شاعر ہونے کے ناطے ان کے اردو ماہیے ہمیشہ اردو ماہیا نگاری کے لیے تقویت کا باعث بنتے رہے ہیں۔لیکن میرے لیے تحفۂ خاص والی بات یہ ہے کہ انہوں نے کتاب کا انتساب ایسی محبت کے ساتھ کیا ہے کہ میں ابھی تک سرشاری کی کیفیت میں ہوں۔ان کے الفاظ میںانتساب یوں درج ہے۔
’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما اور اردو ماہیے کے جانی حیدر قریشی کے نام‘‘
متعدددوستوں نے اپنی کتابوں کا انتساب میرے نام کیا ہے۔ان سب کی محبت اور خلوص کا میں معترف ہوں اور ان سب کا شکر گزار ہوں۔لیکن امین خیال کے انتساب نے مجھے ایک انوکھی خوشی عطا کی ہے۔جیسے مجھے ماہیا کے فروغ کے لیے کی جانے والی اپنی ساری جدہ جہدکا اجر اس ایک انتساب کے ذریعے مل گیا ہے۔
شکریہ امین خیال جی!،
بے حد شکریہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔