تو ۔۔جناب ہمارا جسم دو حصوں میں بٹا ہے ۔ سراوردھڑ،۔۔اور گردن بطور پل گردانی جاتی ہے ۔ حق ماروتو کچھ نہیں ، گردن مارو تو کام تمام ۔۔۔جیالے سر دھڑ کا بازی لگا دیتے ہیں کہ وہ کسی کے آگے سر نہیں جھکاتے ، سر اٹھا کر چلتے ہیں بھلے ہی ۔۔رسم چلی ہو کہ نہ کوئی سر اٹھا کے چلے ۔۔نیز، سر مقتل کے پیے سیرچمن جاتے ہیں ۔یہ سر بہ کفن خال خال ملیں گے اور سر تسلیم خم، اور سر جھکانے والے ڈال ڈال ۔آج انہی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ۔ سر میں سات سوراخ ہیں ، تین جفت اور ایک طاق۔یہ طاق ہر فن میں طاق، یکتا ویگانہ اور منہ زور بھی کہ اس میں زبان ہوتی ہے ۔ جو چار میں اٹھاتی بھی ہے اور چار میں بٹھاتی بھی جسے بسا اوقات منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔
سر میں دماغ بھی ہوتا ہے مگر پتا نہیں بعض کیوں کہتے ہیں سر میں بھیجا نہیں !! ہاں سر میں سودا ضرور سماتا ہے ۔ عشق کا سودا ،عزت ،دولت ، شہرت کا سودا ۔ اکبر الہ بادی کے سر میں شوق کا سودا سمایا تو انہوں نے دلی کو جا دیکھا ۔ پتا نہیں کیا کیا دیکھا مگر جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا ۔
عقل پر پتھر پڑ گئے ہوں اور حماقت عود کرآئی ہو تو سوائے سرکھجانے کے کیا کیا جاسکتا ہے ؟ بعض شعراء کو سر پھوڑنا مقصود ہو تو وہ ، وفا کیسی ! کہاں کا عشق !! سب بھول کر محبوب کے سنگ آستاں سے بے اعتنائی برتتے ہیں ۔ مجنوں پر اگر سنگ اٹھاتے ہیں تو سر یاد آجاتا ہے کہ سر سلامت پگڑی ہزار ۔ زیادہ ٹامک ٹوئیاں مارنے سے یا سر مارنے سے سر چکراتا ہے اور وہ ایسا دردِ سر بنتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں ، اور اگر ہے بھی تو وہ بھی دردِ سر سے کم نہیں !! بقول شاعر ،
دردِ سر کے واسطے صندل لگانا ہے مفید
اس کا گھسنا اور لگانا ، دردِ سر یہ بھی تو ہے