بال
تو صاحب مکھن میں سے بال نکالنا تو آسان ہے لیکن بال کی کھال نکالنا دشوار اور یہ اسی کا حصہ ہے جس کا حافظہ تیز ہو نیز جو بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر جانتا ہو ۔ کہا جاتا ہے جو زیادہ سوالات کرتا ہے وہ زیادہ سیکھتا ہے ، بھلے ہی وہ سوالات بے سروپا ہوں یا ان میں بال برابر بھی ذکاوت نہ جھلکے۔ بس اپنی بات منوانے کے لیے بال ہٹ پر قائم رہے ۔ وہ شخص جو کسی کی ناک کا بال ہو ، ظاہر ہے وہ بال برابر کیا پہاڑ برابر بھی غلطی کرے تو کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا ۔ دھوپ میں بال سفید کرنا یا دھوپ میں بال سکھانا پرانی بات ہوچکی ۔ آج کل ہیئر ڈائی سے بالوں کو ہر رنگ میں رنگ لو ، چاہے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے جاؤ کوئی آپ کا بال ٹیڑھا نہیں کرسکتا ۔دراز زلفیں ، خمدار زلفیں ، ریشمی زلفیں سب قصئہ پارینہ ہوچکیں ۔ زلفوں کی ناگن کسی بل میں پناہ لے چکی ہے ۔بادل ، گھنگھور گھٹائیں ، شب دیجور ، عنبریں زلفیں بیوٹی پارلر کی نذر ہوچکیں ہیں ۔ زلفوں کے سائے اب ہمسائے کے یہاں بھی نہیں ملتے جو کبھی رقیب روسیاہ ہوا کرتا تھا اور میر اس کی شب بیداری کا تذکرہ کیا کرتے تھے ۔ اب کالے کالے بالوں نے لوٹنا چھوڑ دیا ، زلفوں نے عاشق زار کو قید سے رہائی دے دی ۔ سیاہ زلفوں پر نغمے یا بلیک اینڈ وہائٹ فلموں میں سنیےاور سردھنیے یا پھر ان گیسوؤں کو کتابوں میں ڈھونڈئیے جو علامہ اقبال کی بال جبریل میں خال خال مل جائیں گے اور قدیم شعراء میں ڈال ڈال ۔ علامہ راشد الخیری شاید ان زلفوں کے پھندوں سے بال بال بچے ۔