انگلی
تو صاحب !کہا جاتا ہے کہ پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ۔۔اگر وہ سیدھی ہیں تو !!۔۔انہیں موڑ کر ہتھیلی پر لے آئیں تو برابر ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی پر ایک انگلی اٹھائیں تو تین ہماری جانب ہوتی ہیں مگر کون اس کی پروا کرتا ہے ؟۔۔ایسے خودنگر انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ۔ان میں صف اول میں بہادر شاہ ظفر کا شمار ہوتا ہے کہ انہیں جب اپنی برائیوں پر نظر پڑی تو ان کی نگاہ میں کوئی برا نہیں رہا ۔۔۔ایک بات اب تک سمجھ نہیں آئی کہ سیدھی انگلی سے اگر گھی نہ نکلے تو انگلی کو ٹیڑھی کرنے کی کیوں زحمت دی جاتی رہی ہے ۔۔۔یہ کام چمچوں پر چھوڑ دیجیے ۔ ۔۔۔آج کل چمچے کیا نہیں کرتے ؟۔۔فی زمانہ چمچوں کی تعداد سے ،،صاحب ،،کے مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے !!۔۔بعض انگلی دکھاتے ہیں اور بعض انگلی نچاتے ہیں ۔۔اور تو اور کچھ انگلیوں پر نچاتے بھی ہیں ۔۔کہا جاتا ہے یہ شرف عورتوں کے حق میں محفوظ ہے ۔۔بھلے مرد ہربات پر انگلی رکھے ،انگلی دکھائے یا انگلی کرے ۔۔حتیٰ کہ انگشت نمائی کرے ۔۔ایک زمانے میں کٹھ پتلیوں کو انگلیوں پر نچایا جاتا تھا ۔۔اب کاٹھ کے الو سیاسی بازی گروں کی انگلیوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں ۔
تو صاحب !!!۔۔ایک ہاتھ میں انگلیاں ہوتی ہیں پانچ مگر ہوتی ہیں چار ۔۔کیونکہ پانچویں انگشتِ نر کہلاتی ہے ،جسے عرف عام میں انگوٹھا کہا جاتا ہے ۔جو کہ عام طور پر ٹرخانے کے لیے دکھایا جاتا ہے ۔ پہلے دستخط کی بجائے انگوٹھا ثبت کرنے والے کو بطور استہزا انگوٹھا چھاپ کہا جاتا تھا جو کہ سڑک چھاپ سے بھی آگے کی چیز ہوا کرتی تھی مگر آج کل اچھے بھلے سفید کالر بھی حاضری درج کرانے کے لیے تھمب امپریشن لگاتے ہیں ۔۔۔پہلے انگلیوں میں قلم پکڑنا شان امتیاز تھا ۔۔اب کی بورڈ پر انگلیاں چلتی ہیں اور قلم منھ تکتا ہے ۔۔ایک بات اور ۔۔چاروں انگلیاں دائیں بائیں ہوتی ہیں پر ان کا آمنا سامنا نہیں ہوتا ۔۔یہ انگوٹھے صاحب ہی ایسے ہیں کہ تمام انگلیوں کا سامنا ہیں ۔ ورنہ انگلیاں عاجز ۔۔واہ رے قدرتی نظام !!۔۔ورنہ نہ کوئی انگلی پکڑ کر چلا سکتا نہ کوئی مٹھی میں جکڑ سکتا ۔۔۔ویسے کہا جاتا ہے کہ پانچویں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں تو صاحب ! ایسے افراد انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ۔۔اور پھر ان کے کارناموں کو دیکھ دانتوں تلے انگلی دبانے کو جی چاہتا ہے ۔