زبان
تو صاحب ! ظاہری اعضا کی تقریباً جوڑیاں ہیں ۔آنکھ ،کان۔۔ہاتھ سے لے کر پیر تک ۔۔کاندھے بھی دو کہ کاندھا بدلنے میں آسانی ہو ،اور تو اور لب ورخسار بھی دو ۔لب اگر خدانخواستہ ایک ہوتا تو شاعروں کو لپٹی ہوئی کلیوں کی تشبیہ نہ سوجھتی ۔۔ نہ ہی لب بند ،زیر لب،لب سوز گالیاں کھانے سے بے مزہ ہوتے نہ ہی بارے خدا زباں پہ نام آتا نہ ہی نطق بوسے زبان کے لیتا ۔۔میاں رخسار ایک ہوتے تو کب میاں مسکین دوسرا رخسار پیش کرتے ؟۔۔حتیٰ کہ ناک بھی اسی تاک میں ۔۔نتھنے پھلا پھلا کر ایکتا میں انیکتا کا اعلان کرتی نظر آتی ہے ۔
ہاں صاحب ! مگر زبان ایک ہوکر وہ غضب ڈھاتی ہے کہ دانتوں تلے انگلی دبانے کو جی چاہتا ہے ۔۔کہ اٹھائی زبان لگادی تالو کو ۔۔بس زبان ۔۔اپنی زبان درازی دکھا لبوں کے پردوں میں جا چھپتی ہے اور بے چارے پورے جسم کو اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے ۔کچھ احباب زبان دے کر بھی پھر جاتے ہیں ،کچھ اپنی زبان پر اس قدر قائم رہتے ہیں کہ ۔۔پران جائے پر وچن نہ جائے ۔۔کچھ فطرتاً کم سخن ،کم گو واقع ہوتے ہیں ان پر اقبال کی طرح زبان بندی کا اطلاق نہیں ہوتا کہ بات کرنے کو زبان ترسے۔۔بعض کی زبان جو کہہ نہیں سکتی ۔۔۔شاید عارضے کی وجہ سے نہیں کم ہمتی کی وجہ سے وہ کام ان کی آنکھیں کر دکھاتی ہیں ۔۔بعض تو آنکھوں آنکھوں میں بات کرلیتے ہیں اور کچھ کی تو خموشی بھی گفتگو ہوتی ہے ۔۔ایسے افراد ساؤنڈ پالوشن کے نقیب ہوتے ہیں ۔۔زبان دراز افراد کو ان سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے ۔
پتا نہیں کیوں ہر ساس کو اپنی بہو کی زبان سے شکایت رہتی ہے ۔۔کم گو ہو تو گونگی ۔۔زبان کھولے تو زبان دراز ۔۔پر صاحب ایک بات خدا لگتی کہوں کہ ۔۔زبان چلانے میں عورتوں کو خوامخواہ بدنام کیا جاتا ہے ۔۔کیا آپ نے سیاسی اسٹیج پر ماہرين زبانیات کو زبانی جمع خرچ کرتے نہیں دیکھا ؟ارے صاحب ۔۔ایسے ایسے سنہرے خواب دکھاتے ہیں کہ آپ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے ۔۔بے زبان گھوڑے کے منہ میں لگام دی جاتی ہے مگر زبان دراز کی زبان پر لگام نہیں !۔۔۔زبان بھی مختلف قسم کی ہوتی ہے ۔۔کالی زبان تو میٹھی زبان ۔۔زہر آلود زبان تو کوثر و تسنیم میں دھلی زبان اور ۔۔قینچی کی طرح چلنے والی زبان ۔ ۔۔زبان کھولی بھی جاتی ہے تو بند بھی کی جاتی ہے ۔اگر بند نہ ہوئی تو کاٹ دی جاتی ہے ۔اکثر حریف کے لیے یہ حربہ اختیار کیا جاتا ہے ۔۔بعض کو اپنی زباندانی پر بڑا ناز ہوتا ہے ۔۔اب اہلِ زبان خال خال اور چرب زبان ڈال ڈال ملتے ہیں ۔۔کہتے ہیں زبان چار میں بٹھاتی بھی ہے اور چار میں سے اٹھاتی بھی ہے ۔۔مگر اب اٹھانے کا رواج کم ہوگیا ہے زبان چلانے والے کو اب سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ۔۔۔یہ بات زبان زد خاص و عام ہے کہ پیٹ ہلکا کرنے کا آسان راستہ زبان سے ہوکر گزرتا ہے ۔۔بس اس شعر پر اپنی زبان روکتا ہوں کہ ،
ساری دنیا میں حکومت جو زنانی ہوتی
عالمی جنگ جو ہوتی تو زبانی ہوتی