صاحب یہ محاورے بھی عجیب ہیں ۔کہاں کہاں نہ ڈیرہ جمایا ،کہاں کہاں نہ سکہ بٹھایا اور والے کون سا مقام ہے جہاں اپنے جھنڈے نہیں گاڑے ۔۔حد تو یہ کہ جسمانی اعضاء کو اپنے تصرف میں لوگوں آئے ۔دیکھیئے کیسے ۔۔۔۔سنیے اور سر دھنیے ، داد نہ دیں تو بیداد کو پہنچیں ۔
ہاتھ ۔۔
صاحب !آپ کا دست راست یعنی دوست معتبر جو کبھی نہ آپ کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑا ہو اور نہ کبھی آپ سے دو دو ہاتھ کیا ہو بلکہ سدا آپ کے سر پر دست شفقت رکھا ہو ،کے ہمراہ ایک سرنگ میں گھس گئے ہوں جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نام دیتا ہو ،اگر گھپ اندھیرے سے آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے ہوں تو اس میں سرنگ کا کیا قصور ؟ آپ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یا کم از کم ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر بغیر کلیجے کو تھامے ، اپنے ہاتھوں لائی آفت کو بنا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے پار کرجائیے۔۔اگر آپ ہاتھ میں لالٹین ۔۔نا نا ۔۔لالٹین کا زمانہ تو لد گیا ۔گر ٹارچ لائے تو اپنے ہاتھ سے سر نہ پیٹتے ممکن ہے اس تیرگی میں کسی بلائے ناگہانی کے باعث آپ کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا !!
کان۔۔
ویسے کان سماعت کے لیے ہے اور عینک کو ٹانگیں پسارنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ پتہ نہیں کان کو غیر اہم کیوں سمجھا گیا !! لبوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ۔۔ آنکھوں کی گہرائیوں کے تذکرے ۔۔ ابرو کے خم،زیر زنخداں کے چرچے ۔ ۔پیشانی کے ساتھ کشادہ پیشانی ، رخسار پہ ہر فنکار نثار ۔۔یہاں تک کہ مژگاں کے عاشق ۔۔ناک نے تو کچھ ناک رکھی ۔۔گاہے گاہے بارے کچھ بیاں مگر میاں ،! کان پر کوئی کان نہیں دھرتا ۔کان کی کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔۔بتائیے کہیں کان پر گفتگو یا سر گوشی بھی ہوئی ہے ؟ ہاں البتہ خرگوشی ضرور ہوئی ۔۔ یا ہمہ تن گوش اور گوش گزار تک محدود ۔۔لبوں کا تذکرہ گل سے گل وگلزار تک ،تبسّم خیز سے ترنم ریزتک۔۔یہاں تک کہ وہ دنداں جن کو کبھی ٹوتھ پیسٹ بھی نصیب نہیں ہوا ہو ۔۔آب دار موتی اور وہ دنداں شکن تشبیہات واستعارے کہ دانتوں پسینہ آئے ۔۔۔گوش سر کے ایک گوشے میں پڑا آہ وزاری کرتا ہوا ۔۔لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔۔طرفہ تماشہ یہ کہ اسے ، خر، کے ساتھ جوڑ کر خرگوش بنادیا گیا ۔جو کہ کان دبائے چھلانگیں مارتا آدھے رستے میں خواب خرگوش کے مزے لیتا ہے ۔۔کچھوے کی چاپ پر کان نہیں دھرتا ۔۔۔۔اور ریس ہار جاتا ہے ۔۔ آج بھی اس دوڑ پر کاناپھوسی ہورہی ہے ۔۔اور تمام خرگوش برادری کے کانوں میں انڈیلی جارہی ہے ۔۔خرگوش پھر خرگوش ہیں ۔۔وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال رہے ہیں اور کہہ دے ہیں کہ ۔۔ بس بہت ہوچکا اب ہمارے کان نہ کھاؤ۔۔
کچھ کائیاں کامیابی کا گر جانتے کہ ۔۔کب گلا پکڑنا اور کب پاؤں پکڑنا ۔۔یہ جسے آگیا وہ کامیاب وکامراں۔۔۔یہاں تک تو ٹھیک ہے صاحب ۔۔پر پاؤں بھاری ہونا ہضم نہیں ہوتا ۔۔پاؤں تو وہی رہتے ۔۔پر کچھ اور ہی بھاری ہوتا ہے !!–یہ محاورے ہمارے پلے نہیں پڑتے ۔۔۔پیٹ ہلکا ہونا ۔۔بغیر کسی اخراج کے ؟؟خیر صاحب عاشقوں کے حصے میں نقش قدم آتے ہیں جو خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں ۔۔۔ اس کے موجد بھی چچا غالب ہیں ۔۔انھوں نے ہی پیر دباکر پیسے دبانا سکھایا ہے ۔عاشق نامراد صحرا نوردی میں پاؤں کے آبلوں کا رونا روتے ہیں مگر معشوق ایک قدم آگے نہیں بڑھاتا ۔۔پھر سرپھرے عاشق ستم بالائے ستم پیروں کے آبلے کانٹوں سے پھوڑتے ہیں ! ضرور انھیں کوئی نشتر نہیں ملا ہوگا !! اور ویسے بھی صحرا میں تو کانٹے ہی دستیاب ہیں صاحب ۔پتا نہیں کیوں عاشقوں کا ہر قدم خرابات کی طرف ہی کیوں اٹھتا ہے ؟کہیں نہیں سنا کہ عاشق صحرا چھوڑ کر گلشن کی طرف ہولیے ۔۔۔سبزہ وگل کو دیکھ کر خوش ہولیے !! پتا نہیں کیوں ہر عاشق کے پاؤں میں صحرا کا چکر کیوں ہے ۔۔۔شاید یہ مجنوں کے وارثین ہیں ۔۔خبردار انہیں کچھ نہ کہو!!
خیر صاحب پیروں کو عطا کیا ہوا سب سے بہترین تحفہ جنت ہے ،جو ماں کے قدموں تلے ہے ۔۔ واہ۔۔وااہ ۔ ماں کے درجے کو خدائے بزرگ و برتر نے کس قدر بلند کیا ہے ،
کھال کی چپل بناکر ماں تجھے پہناؤں گر
ہو نہ حق پھر بھی ادا ، ارشاد جو روندے گیا
بال
تو صاحب مکھن میں سے بال نکالنا تو آسان ہے لیکن بال کی کھال نکالنا دشوار اور یہ اسی کا حصہ ہے جس کا حافظہ تیز ہو نیز جو بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر جانتا ہو ۔ کہا جاتا ہے جو زیادہ سوالات کرتا ہے وہ زیادہ سیکھتا ہے ، بھلے ہی وہ سوالات بے سروپا ہوں یا ان میں بال برابر بھی ذکاوت نہ جھلکے۔ بس اپنی بات منوانے کے لیے بال ہٹ پر قائم رہے ۔ وہ شخص جو کسی کی ناک کا بال ہو ، ظاہر ہے وہ بال برابر کیا پہاڑ برابر بھی غلطی کرے تو کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا ۔ دھوپ میں بال سفید کرنا یا دھوپ میں بال سکھانا پرانی بات ہوچکی ۔ آج کل ہیئر ڈائی سے بالوں کو ہر رنگ میں رنگ لو ، چاہے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے جاؤ کوئی آپ کا بال ٹیڑھا نہیں کرسکتا ۔دراز زلفیں ، خمدار زلفیں ، ریشمی زلفیں سب قصئہ پارینہ ہوچکیں ۔ زلفوں کی ناگن کسی بل میں پناہ لے چکی ہے ۔بادل ، گھنگھور گھٹائیں ، شب دیجور ، عنبریں زلفیں بیوٹی پارلر کی نذر ہوچکیں ہیں ۔ زلفوں کے سائے اب ہمسائے کے یہاں بھی نہیں ملتے جو کبھی رقیب روسیاہ ہوا کرتا تھا اور میر اس کی شب بیداری کا تذکرہ کیا کرتے تھے ۔ اب کالے کالے بالوں نے لوٹنا چھوڑ دیا ، زلفوں نے عاشق زار کو قید سے رہائی دے دی ۔ سیاہ زلفوں پر نغمے یا بلیک اینڈ وہائٹ فلموں میں سنیےاور سردھنیے یا پھر ان گیسوؤں کو کتابوں میں ڈھونڈئیے جو علامہ اقبال کی بال جبریل میں خال خال مل جائیں گے اور قدیم شعراء میں ڈال ڈال ۔ علامہ راشد الخیری شاید ان زلفوں کے پھندوں سے بال بال بچے ۔
ناک ۔۔۔
ناک بچانے کے چکر میں آپ وہ سب کر گزرتے جو کہ خوفناک ، ہولناک بلکہ شرمناک بھی ہے ۔ شادی آج کی بیٹی کی ہے مگر آپ کو اپنی ناک کٹنے کا ڈر ہوتا ہے ۔ مہمانوں سے زیادہ بن بلائے مہمانوں کی میزبانی میں کچھ کمی رہ جائے تو برادری میں آپ کی ناک کٹ جائے گی ۔ لہٰذا قرض کا بار گراں ، پرکھوں کا نام ونشاں بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں کیونکہ بیٹی آپ کی ناک اور داماد ناک کا بال ہوتا ہے جو آپ کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیتےہیں ۔ ناک اونچی رکھنے کے لیے قرض خواہ بھلے ہی آپ کی ناک میں دم کردیں ۔ ناک بھنویں چڑھا کر کچھ قطعہ اراضی قرض خواہ کے نام کردیں گے کہ ناک نیچی نہ رہے ۔۔۔ ناک سلامت ۔۔۔ مطلب سر سلامت پگڑی ہزار ۔
آنکھیں
آنکھیں قدرت کا گراں مایہ انعام ، مگر شاعروں کے لیے تشبیہ کا پیغام ۔ غزالی آنکھیں ، شربتی آنکھیں ، جھیل سی آنکھیں ، شرابی آنکھیں ، سوتی آنکھیں ، جاگتی آنکھیں ، خاموش آنکھیں ، بولتی آنکھیں ، چھلکتی آنکھیں ، نیم باز آنکھیں ، نرگسی آنکھیں ، مئے کے پیالے وغیرہ وغیرہ ۔
عجیب بات ہے دونوں آنکھیں ساتھ ہوتی ہیں لیکن تا عمر ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتیں مگر دونوں مل کر کیا سب کو ، کیا جگ کو بلکہ یہ بند ہوکر رب کو بھی دیکھ لیتی ہیں ۔ محبوب لبوں کو چھٹی دے کر آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کرلیتے ہیں ۔ بعض کائیاں کن انکھیوں سے بھی تاکتے ہیں ۔ زندگی کا سفر آنکھ کھلنے سے آنکھ لگنے تک سمجھا جاتا ہے مگر دوران سفر آنکھیں لڑ بھی جاتی ہیں اور بعض اوقات اس لڑائی میں آنکھوں میں جھڑی لگ جاتی ہے ۔ دنیا سے بے رغبتی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھانا، آنکھوں سے نیند کو اڑنا اور پئے انتظار آنکھیں رہنا ۔۔۔جیسے عارضے لاحق ہو جاتے ہیں ۔
دانت
ایک معزز عالم دین نے ایک انگریز کو وہ دنداں شکن جواب دیا کہ اس نے بھی دانتوں تلے انگلی دبالی، بلکہ شاید اب تک وہ اپنے آپ کو کوستا ، دانت پیستا ہوگا ۔ اس انگریز نے دانت دکھا کر سوال کیا کہ ،، جب بچہ بغیر داڑھی کے پیدا ہوتا ہے تو کیا داڑھی رکھنا ضروری ہے ؟ اپنی دانست میں اس نے سوچا کہ عالم دین کو دانتوں پسینہ آجائے گا ، عالم محترم نے کہا ،، بچہ بغیر دانت کے بھی پیدا ہوتا ہے تو تمام دانت نکال دینا چاہیے !!
جسم کے ہر عضو میں پسینہ آتا ہے سوائے دانتوں کے ۔ مگر صاحب ہم نے دانتوں میں پسینہ لاکر ، پسینے کے دانت کھٹے کردیے ۔ ایک محفل میں ایک بزرگ شاعر کو ،، داد ،، دینے کی بجائے ، دانت ، دینے کو طبیعت چاہ رہی تھی کیونکہ وہ پوپلے منہ سے ، گدھے ، کو ، گھگھے، اور بندھے ، کو ،، بنگھے،، فرمایا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا انہیں پوری بتیسی دے دوں کیونکہ وہ دانت خواہی ۔۔ مطلب داد خواہی کی تلاش میں مجمع پر نظریں دوڑا رہے تھے جہاں سناٹا چھایا ہوا تھا صرف کڑاکے کی سردی میں مجمع کے دانت کڑکڑ بج رہے تھے ۔
ہاتھ توڑنا ، پیر توڑنا ، سر توڑنا ان میں سب سے زیادہ اہميت دانت کو دی جاتی ہے کہ دانت بریدہ قہقہہ تو درکنار مسکراہٹ سے محروم ہمیشہ لب بند رہتا ہے ۔ بالائے ستم دانتوں تلے انگلی بھی نہیں دبا سکتا ۔۔ ہاتھی کے دانت جو کھانے کے ہوتے ہیں وہ اس کے شکم کا جہنم بھرتے ہیں پر دکھانے کے دانت اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔
منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے خال خال مگر دانتوں سے پیسہ پکڑنے والے ڈال ڈال ہوتے ہیں ۔ بعض میں یہ عمل دودھ کے دانت گرنے کے بعد ہی سے شروع ہو جاتا ہے ۔بعض اصحاب دانت پیسنے اور دانت کاٹنے کے مقابل دانتوں میں زبان کی طرح رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
عجیب دل کا حال ہے ۔اسے توڑا بھی جاتا ہے ،اسے جوڑا بھی جاتا ہے ۔مٹھی بھر دل میں آگ بھی لگتی ہے اور وہ کباب بھی ہوتا ہے ۔آپ نے بالفرض کسی سے دل لگا لیا خدا نہ کرے ۔۔اور وہ سنگدل کسی اور کو دل دے بیٹھا تو صاحب دل پر جو چوٹ لگتی ہے پھر کسی کام میں دل نہیں لگتا ، دل بجھا بجھا سا رہتا ہے گویا چراغ مفلس کا ۔۔۔اور انتہا یہ کہ غالب کو کہنا پڑا ،
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
بات ہے تو عجیب ، دل باغ باغ بھی ہوتا ہے تو دل میں داغ بھی ہوتا ہے اور اسی چھوٹے سے دل میں نہ جانے کیا کیا بھرا ہوتا ہے ۔دل میں کپٹ، غبار حتی کہ زہر بھی بھرا ہوتا ہے ۔ اس کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں اس میں کوئی آتا بھی ہے اور جاتا بھی ہے اور اگر بہت ڈھیٹ ہے تو دل میں سماتا بھی ہے اور پھر بستا بھی ہے گویا دل میں گھر بنالیتا ہے ۔محترم دل پھسلتے بھی ہیں اور چوٹ لگنے پر سنبھلتے بھی ہیں اور اسے باہر کا راستہ دکھا دل سے نکال دیتے ہیں ۔پھر بھی دل ہے کہ مانتا نہیں ۔
عاشق کی ادنیٰ ترین قسم دل پھینک عاشق کہلاتی ہے ۔کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جنہیں دل طے کرتا ہے وہاں عقل کو تنہا رہنے کا مشورہ اقبال بہت پہلے دے چکے ہیں پھر بھی دل بیمار دل بینا طلب کرنے کی بجائے آنکھ کا نور طلب کرتا ہے اور یہ نور اسے ناری کی طرف لے جاتا ہے !!
دل
تو صاحب دل ہے اعضائے رئیسہ میں سے ایک جو کہ ایک پمپنگ مشین ہے ۔ مگر یہ حسین بھی ہے ،کمین بھی ہے ۔دل آئینہ کی طرح صاف بھی ہے اور سیاہ بھی ۔ موم کی طرح نرم بھی ،پتھر کی طرح سخت بھی اسی لیے پتھر دل ،سنگدل ، شقی القلب جیسے الفاظ دل پر چوٹ پہنچاتے ہیں ۔
دل بمعنی قلب جسم کے قلب میں واقع ہونے کی وجہ سے ہے ۔ یہ تو ماہرین قلب ہی بتاسکتے ہیں جو کہ رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں ۔ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ سینے میں دھڑکتا دل ہر انسان کی مٹھی برابر ہوتا ہے جو عین قلب میں نہ واقع ہوتے ہوئے بائیں جانب ہوتا ہے اسی لیے اسکاؤٹ گائیڈ بچے بایاں ہاتھ ملاتے ہیں اور مہذّب ممالک کے سفراء دایاں کہ ،
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے
تو ۔۔جناب ہمارا جسم دو حصوں میں بٹا ہے ۔ سراوردھڑ،۔۔اور گردن بطور پل گردانی جاتی ہے ۔ حق ماروتو کچھ نہیں ، گردن مارو تو کام تمام ۔۔۔جیالے سر دھڑ کا بازی لگا دیتے ہیں کہ وہ کسی کے آگے سر نہیں جھکاتے ، سر اٹھا کر چلتے ہیں بھلے ہی ۔۔رسم چلی ہو کہ نہ کوئی سر اٹھا کے چلے ۔۔نیز، سر مقتل کے پیے سیرچمن جاتے ہیں ۔یہ سر بہ کفن خال خال ملیں گے اور سر تسلیم خم، اور سر جھکانے والے ڈال ڈال ۔آج انہی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ۔ سر میں سات سوراخ ہیں ، تین جفت اور ایک طاق۔یہ طاق ہر فن میں طاق، یکتا ویگانہ اور منہ زور بھی کہ اس میں زبان ہوتی ہے ۔ جو چار میں اٹھاتی بھی ہے اور چار میں بٹھاتی بھی جسے بسا اوقات منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔
سر میں دماغ بھی ہوتا ہے مگر پتا نہیں بعض کیوں کہتے ہیں سر میں بھیجا نہیں !! ہاں سر میں سودا ضرور سماتا ہے ۔ عشق کا سودا ،عزت ،دولت ، شہرت کا سودا ۔ اکبر الہ بادی کے سر میں شوق کا سودا سمایا تو انہوں نے دلی کو جا دیکھا ۔ پتا نہیں کیا کیا دیکھا مگر جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا ۔
عقل پر پتھر پڑ گئے ہوں اور حماقت عود کرآئی ہو تو سوائے سرکھجانے کے کیا کیا جاسکتا ہے ؟ بعض شعراء کو سر پھوڑنا مقصود ہو تو وہ ، وفا کیسی ! کہاں کا عشق !! سب بھول کر محبوب کے سنگ آستاں سے بے اعتنائی برتتے ہیں ۔ مجنوں پر اگر سنگ اٹھاتے ہیں تو سر یاد آجاتا ہے کہ سر سلامت پگڑی ہزار ۔ زیادہ ٹامک ٹوئیاں مارنے سے یا سر مارنے سے سر چکراتا ہے اور وہ ایسا دردِ سر بنتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں ، اور اگر ہے بھی تو وہ بھی دردِ سر سے کم نہیں !! بقول شاعر ،
دردِ سر کے واسطے صندل لگانا ہے مفید
اس کا گھسنا اور لگانا ، دردِ سر یہ بھی تو ہے
پیشانی
تو صاحب ! پیشانی سر کا وہ بالائی حصہ ہے جو دائیں بائیں کنپٹیوں تک محدود اور حسینوں کے کاکل تک جو سبزہ خط کو دبانے کی ناکام کوشش کرتی ہیں اور ،۔۔بالائی حصہ اگر گنجا ہو تو لامحدود ۔پیشانی جسے ۔۔ماتھا ، جبین بھی کہا جاتا ہے ۔ جبین سے صرف حسین وابستہ ہیں ۔۔جیسے زہرہ جبیں ، مہ جبیں وغیرہ مگر خندہ جبیں سے دونوں اصناف منسلک ۔ بعض لوگ خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اسی لیے انہیں خندہ جبیں کہا جاتا ہے اور چیں بجبیں افراد تنک مزاج بلکہ سنکی مشہور ہو جاتے ہیں ۔بعض اتنے نرالے کہ معمولی بات پر شکن آلود اور بعض اتنے جیالے کہ بڑے سے بڑے حادثہ سے بھی ماتھے پہ شکن نہیں آتی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ،
جو پیشانی پہ لکھا ہے وہ تو پیش آنی ہے
بدن پہ پسینہ آنا تو عام سی بات ہے یہ اور کہ کسی کسی کو پسینہ ہی نہیں آتا !! مگر ماتھے پہ پسینہ آنا قرینِ مرگ کی علامت یا پھر غم یا شرمندگی کی شدت ہوتی ہے ۔کچھ کے ماتھے پہ بل ہی نہیں آتا چاہے کتنا ہی ماتھا رگڑا جائے ۔کچھ سادہ لوح لٹنے پٹنے کے بعد ماتھا کوٹتے ہیں کہ یہ ان کا پیدائشی حق ہے ۔ چھٹی حس سے ماتھا ٹھنکتا ہے اور اچھا بھلا آدمی خلجان میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ مومن تو اختر شناسی کی وجہ سے آسمان سے شاکی تھے مگر یہ مرد مومن کسے ماتھے بتینا بنائے ؟
پیشانی کی خصوصیت کہ ۔۔بندیا بھی یہیں تھا نقشِ سجود بھی یہیں اور ماتھے کا تلک بھی ۔ماتھا رگڑنے سے آج بھی خوشامدی خوشحال اور ماتھا پھوڑی کرنے والے بدحال ،بہرحال ماتھا گودنا تو ختم ہوا مگر ماتھا کوٹنا آج بھی جاری وساری ہے ۔
احباب کہیں خامی نظر آئے تو نشاندہی کریں ،
کیونکہ ،۔میں نہیں کہتا ۔۔
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
پیر
تو صاحب ! احسن تقویم میں پیر بھی شامل ہے جو جسم کے نچلے حصے میں ہوتے ہیں مگر نیو کی اینٹ کے مصداق،اسے اسے سر ۔ نہیں بٹھاتے بلکہ پیر کی جوتی سمجھتے ہیں ۔ ۔۔خوبصورت عمارت کے گنبد ومینار پر نظریں گاڑے ۔۔۔حسن کے متلاشی ۔۔یا تو آنکھوں میں ڈوبتے ہیں یا گیسوؤں کے پھندوں میں الجھتے ہیں ۔۔کچھ ابرو کے خم پر شیدا تو کچھ گلاب کی پنکھڑیوں پر فدا ۔۔کچھ گرمئ رخسار کے شیدائی ،بعض تو اپنی کج کلاہی کی بھی پروا نہیں کرتے ۔۔جو ان سے بچ نکلے وہ صراحی دار گردن پر وارفتہ ۔۔۔مگر صاحب پیر۔۔واہ۔۔وااہ ۔۔پیروں کی جوتی ۔۔۔پیروں تلے کی زمین بھی کھسک جاتی ہے مگر پتا نہیں کھسک کر کہاں جاتی ہے !! پیروں تلے روندا جاتا ہے تو کہیں ،ٹھوکر ماری جاتی ہے ۔یا پاؤں تلے کچلا جاتا ہے ۔۔قصہ مختصر تمام تر تخریب کاری پیروں کے حصے میں آتی ہے ۔۔۔بہادر ہیں تو قدم آگے نڑھاتے ہیں ورنہ الٹے پاؤں پھر جاتے ہیں ۔۔۔پتا نہیں احتراماً یا رسماً پاؤں چھونے کا رواج بھی پایا جاتا ہے ۔۔۔دشمن کا رعب آپ پر غالب آجائے تو گھگھیا گھگھیا کر پاؤں پڑتے ہیں ،یا پھر مسمسی صورت بنا کر کہنا کہ ۔۔میں تو آپ کے قدموں کی دھول ہوں ۔۔مجھے قدموں میں پڑا رہنے دو ۔یہی آخری حربہ پتا نہیں بزدلانہ ہے یہ عاشقانہ ۔؟؟
تو صاحب جہاں آپ سن بلوغت کو پہنچے آپ پر بزرگ نصیحتوں کے ڈونگرے برسائیں گے ۔۔اب اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ۔۔گویا ان کی نظر میں اب تک دوسروں کے پیروں پر کھڑے تھے ۔۔۔پدرانہ شفقت کہے گی ۔۔میرا جوتا تمہارے پیر میں آگیا ہے ۔۔اب ہاتھ پاؤں مارو۔۔کبھی نہیں کہیں گے کہ لمبا ہاتھ مارو۔۔۔بس زمانے کو ٹھوکر مارو۔۔دنیا تمہارے قدموں میں ہوگی ۔۔۔شاید انہوں نے سن رکھا ہوگا ،،
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے