بلاغت
محاورات، روزمرہ، تلمیحات اور ضرب الامثال کو زبان کے زیور کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کی مدد سے سادہ بات کا بیان نہ صرف خوبصورت اور سحرانگیز ہو جاتا ہے بلکہ بسااوقات کلام کی بلاغت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ عہدِ حاضر میں اردو کی مناسب سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے سبب عوام بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص زبان کے بہت سے ضروی پہلوؤں سے ویسی واقفیت نہیں رکھتے جیسی کہ ہونی چاہیے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ محاورے، روزمرہ، تلمیح اور ضرب المثل کا تصور اکثریت کے ذہنوں میں پوری طرح واضح نہیں اور انھیں باہمدگر متبادل سمجھنے اور اسی طرح برتنے کا رواج جڑ پکڑ رہا ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں میں مجھے اتفاقاً اس قسم کے سوالات سے متواتر پالا پڑا تو خیال آیا کہ کیوں نہ انٹرنیٹ کی اردو گو دنیا کے لیے اس قضیے کو ایک جامع نگارش کے ذریعے فیصل کر دیا جائے۔ معلومات کو جامعیت سے پیش کرنے کے لیے جدول بندی سے بہتر راہ میرے ذہن میں نہیں آتی۔ سو یہی اختیار کی ہے۔ تاہم جدول آخر میں پیش کی گئی ہے اور اس سے پہلے تمام اصطلاحات کی مختصراً وضاحت کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس طرح ان تصورات کا خاکہ پہلے کھنچ جائے گا جو جدول کی مدد سے بعدازاں پوری طرح ذہن نشین کیا جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں مدعا کی طرف بڑھوں، یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس نگارش کے لیے میں نے مختلف مصادر و مآخذ سے آزادانہ استفادہ کیا ہے۔ تاہم چونکہ یہ تحریر تحقیقی کی بجائے عمومی مقاصد کے لیے لکھی گئی ہے سو حوالہ جات کا تکلف ضروری نہیں سمجھا۔ تمام محبانِ اردو پر درود!
محاورہ
محاورہ دراصل فعل ہی کی ایک شکل ہے جس میں سادہ طور پر اظہارِ مطلب کی بجائے اہلِ زبان ایک مختلف اور نرالے اندازِ بیان کا سہارا لیتے ہیں۔ مثلاً بیٹی کی شادی کرنے کو ہاتھ پیلے کرنا کہا جاتا ہے۔
روزمرہ
فعل کو چھوڑ کر دیگر الفاظ، حروف، تراکیب اور ان کے تلفظ اور معانی وغیرہ سے متعلق تمام رویے اور روایات جو اہلِ زبان میں رائج ہوں روزمرہ کی ذیل میں آتے ہیں۔ مثلاً موسم کو اہلِ اردو سین پر زبر کے ساتھ بولتے ہیں تو یہ ان کا روزمرہ ہے حالانکہ عربی میں یہ دراصل سین کی زیر کے ساتھ ہے۔ اخبار عربی میں جمع ہے مگر اردو کے روزمرہ میں اسے واحد کے طور پر برتا جاتا ہے۔
تلمیح
ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ جو کسی خاص تاریخی یا غیرتاریخی واقعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوں تلمیح کہلاتے ہیں۔ مثلاً کوہکن سے مراد اردو فارسی شاعری میں فرہاد لیا جاتا ہے جس نے شیریں کی خاطر پہاڑ کاٹا تھا۔ جلوۂِ طور حضرت موسیٰؑ کے خدا کی تجلیات سے بہرہور ہونے کے واقعے کی جانب اشارہ ہے۔
ضرب المثل یا کہاوت
کوئی شعر، مصرع، فقرہ یا جملہ جو اپنے اندر مکمل اور معنیٰخیز ہو اور عوام و خواص کی زبان پر چڑھ گیا ہو، کہاوت یا ضرب المثل کہلاتا ہے۔ مثلاً غریب کی جورو سب کی بھابی۔ یا مندرجۂِ ذیل دوہا:
مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ
تلسی داس گریب کی کوئی نہ پوچھے بات
خصوصیات محاورہ روزمرہ تلمیح ضرب المثل
نحوی کیفیت جزوِ کلام جزوِ کلام جزوِ کلام مکمل کلام
پہچان علامتِ مصدر (نا) کوئی نہیں کوئی نہیں کوئی نہیں
استعمال تبدیلی کے ساتھ تبدیلی کے بغیر تبدیلی کے بغیر تبدیلی کے بغیر
لفظی تغیر ناجائز ناجائز جائز ناجائز
پس منظر ثقافت کوئی نہیں تاریخ ثقافت
معانی غیراصلی اصلی اصلی یا غیراصلی اصلی یا غیراصلی
معیار اہلِ زبان اہلِ زبان کوئی نہیں اہلِ زبان
اہمیت فصاحت رواج تاریخ حکمت
مثال ۱ عقل گھاس چرنے جانا حماقت کو مونث بولنا بُزِ اخفش عقل بڑی کہ بھینس
مثال ۲ ہاتھ پیلے کرنا شادی بمعنیٰ نکاح سنتِ نبویؐ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ
مثال ۳ تل دھرنے کو جگہ نہ ہونا بھیڑ چال (بکری چال) اہلِ کوفہ عوام کالانعام
مثال ۴ شین قاف درست ہونا ہجے کرنا (جوڑنا) غتربود اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
جدول کی کلید
نحوی کیفیت
نحوی کیفیت سے مراد یہ ہے کہ آیا کوئی عنصر جملے کا حصہ ہے یا خود جملہ ہے۔ مثلاً محاورہ، روزمرہ اور تلمیح سب جملے کے اندر کھپ جاتے ہیں۔ جبکہ کہاوت یا ضرب المثل بجائے خود ایک مکمل جملہ یا فقرہ ہوتی ہے۔
پہچان
محاورے کی پہچان اس کے آخر میں علامتِ مصدر یعنی نا ہے کیونکہ یہ دراصل ایک فعل ہوتا ہے۔ جیسے بال بیکا نہ ہونا، لوٹ پوٹ ہونا وغیرہ۔
جدول کے باقی عناصر کی کوئی خاص پہچان نہیں۔
استعمال
محاورہ زمانے اور فاعل وغیرہ کے لحاظ سے تبدیل کر کے جملے کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ مثلاً مستقبل کے لیے کہیں گے کہ دل ٹوٹ جائے گا۔ ماضی کے لیے کہا جائے گا دل ٹوٹ گیا۔ حال میں یوں کہیں گے کہ دل ٹوٹ جاتا ہے۔ وغیرہ۔
کہاوتوں اور روزمرہ میں اس لحاظ سے کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ تلمیح کا بھی عموماً یہی حال ہے۔
لفظی تغیر
لفظی تغیر سے ہماری مراد یہ ہے کہ ان عناصر کا مواد مرضی سے بدلا جا سکتا ہے یا نہیں۔ روزمرہ، محاورے اور کہاوتوں کے الفاظ میں کسی اعتبار سے تغیر جائز نہیں۔ مثلاً اخبار کو اردو روزمرہ میں مذکر بولا جاتا ہے۔ آپ اسے مونث نہیں بول سکتے۔ اسی طرح ہاتھ پیلے کرنا محاورہ ہے۔ آپ زرد کرنا نہیں کہہ سکتے۔
تلمیحات میں لفظی تغیر روا ہے۔ مثلاً جلوۂِ طور، تجلئِ طور، شعلۂِ طور وغیرہ ایک ہی واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
پس منظر
محاورے زبان کے ثقافتی اور تمدنی سوتوں سے پھوٹتے ہیں۔ ان کی بنیاد اہلِ زبان کے رہن سہن اور رسم و رواج پر ہوتی ہے۔ جیسے ہاتھ پیلے کرنا کا محاورہ مہندی سے ہاتھوں کے رنگے جانے سے نکلا ہے۔ اس کے برعکس روزمرہ کی کوئی خاص بنیاد نہیں۔ جیسے اہلِ زبان نے بول دیا ویسے ہی چل نکلا۔
تلمیح کا پس منظر تاریخی یا نیمتاریخی ہوتا ہے۔ یہ کسی مشہور و مقبول واقعے سے نسبت رکھتی ہے۔ ضرب الامثال یا کہاوتیں بھی محاورے کی طرح عموماً مخصوص ثقافتی رنگ ڈھنگ سے علاقہ رکھتی ہیں۔ مثلاً غریب کی جورو سب کی بھابی ایک کہاوت ہے۔ اس میں بھابی کا تصور کم و بیش وہ ہے جو خاص ہندوستانی معاشرے سے متعلق ہے۔
معانی
محاورے کے الفاظ اپنے اصل معانی سے دور جا پڑتے ہیں۔ جیسے ہاتھ پیلے کرنا میں واقعی ہاتھوں کو پیلے رنگ سے رنگنے کی بجائے شادی کرنا مراد ہے۔ روزمرہ میں اس قسم کی معنوی تبدیلیاں نہیں ہوتیں۔ کہاوت کا بھی یہی حال ہے کہ اسے لغوی معانی کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ تلمیحات میں البتہ محاورے ہی کی طرح معانی اصل مطلب سے زیادہ وسیع ہو سکتے ہیں۔ مثلاً بُزِ اخفشؔ سے مراد واقعی ابوالحسن اخفشؔ نحوی کی بکری بھی ہو سکتی ہے اور کوئی احمق شخص بھی ہو سکتا ہے۔
معیار
محاورے، روزمرہ اور ضرب المثل یا کہاوت کا معیار اہلِ زبان ہیں۔ یعنی وہ جیسے بولتے ہیں انھیں ویسا ہی بولا جائے گا اور اس سے انحراف غلط تصور ہو گا۔ تلمیح کا البتہ کوئی ایسا معیار نہیں۔
اہمیت
محاورہ کلام کی فصاحت کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ یہ اس کی سب سے اہم صفت ہے۔ روزمرہ بھی فصاحت میں اضافہ کرتا ہے مگر اس کی نسبت یاد رکھنے کی زیادہ اہم بات شاید یہ ہے کہ اس کا تمام تر انحصار رواج پر ہوتا ہے۔ جو لفظ ترکیب یا تلفظ وغیرہ جس طرح مروج ہو گیا اسی طرح اہلِ زبان میں مستند گنا جاتا ہے۔
تلمیح ظاہر ہے کہ تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ کہاوتیں اور ضرب الامثال کی وقعت البتہ ان سب عناصر کے برعکس اکثر اس میں ہوتی ہے کہ ان میں کوئی نہ کوئی حکیمانہ نکتہ یا اشارہ ملتا ہے۔ لہٰذا انھیں کسی تہذیب کے مقبول رویوں کی عکاسی یا ان پر تنقید کے طور پر دیکھنا چاہیے۔