روزمرہ زندگی میں محاورات کا استعمال نا صرف آپ کی گفتگو میں چاشنی بھر دیتا ہے بلکہ شخصیت میں نکھار پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی میں ایسے ایسے انقلابات رونما کرتا ہے کے قارئین و سامعین کے دل میں وقعت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہاں ہم ایسے محاورات کا زکر کرتے ہیں جن کو اپنی تحاریر اور روران گفتگو استعمال کرکے اپنی شخصیت ہو بہتر بنا سکتے ہیں۔
اگ میں لگی آگ (فساد میں فساد پیدا کرنا)،
انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل
(معمولی عمل سے بڑے رتبے کا طالب ہونا)،
تو ڈال ڈال تو میں پات پات
(میں تجھ سے کچھ زیادہ۔ ہوشیاری دکھائےگا تو میں تجھ سے زیادہ ہوشیاری دکھاوّنگا)
اونٹ کس کل بیٹھے (معاملے کا انجام کیا ہو)
پانچوں انگلیاں گھی میں
(ہر طرح فائدہ ہی فائدہ )
دودھ کی مکھی کس نے چکھی
(خراب چیز کوئی استمعال نہیں کرتا )
ڈولی نہ کہار 'بی بی بیٹھی ہیں تیار
(سامان کچھ نہیں ارادے اور دعوے بہت بڑے )
کوے کوسا کریں ,کھیت پکا کریں
(نہ حق بد دعا کا اثر نہیں ہوتا)
کیا کابل میں گدھے نہیں ہوتے ؟
(بیوقوف ہر جگہ ہوتے ہیں)
کہیں اوس چاٹنے سے بھی پیاس بجھتی ہے.
(بہت کم ملے تو کہتے ہیں)
اپنے ہی تن کا پھوڑا ستاۓ
(اپنے درد کا احساس ہوتا ہے 'اپنے عزیز دکھ پہنچاتے ہیں)
وہ کون سی کشمش جس میں تنکا نہیں.
(ہر چیز میں کوئی نہ کوئی عیب ضرور ھوتا ہے)
گودی میں بیٹھے. داڑھی نوچے…
(بدتمیز بے ادب شخص)
آنکھ نہ دیدہ، کاڑھے کشیدہ
(بڑے بڑے دعوے، آتا کچھ نہیں..)
گھر میں سوت نہ کپاس، جولاہے سے لٹھم لٹھا۔
(بے بنیاد بات پر جھگڑا)
گنجی کبوتری محلوں میں ڈیرا۔
(بدصورت اور کمینہ اونچے مقام پرفائز ہو جاۓ)
غریب نے روزہ رکھا، دن بڑھ گیا..
(غریب کے مسائل بہت)
جیسی روح ویسے فرشتے …
(جیسی نیت ہوتی ھے ویسا ہی پھل ملتا ہے)
آم کھاۓ پال کا، خربوزہ کھاۓ ڈال کا، پانی پیے تال کا۔
(تازہ چیزیں کھانے پر کہا جاتا ہے)
ایک ترکش کے تیر ہیں
(سارے کے سارے ایک جیسے ہیں)
اندھیر نگری چوپٹ راج
(لاقانونیت کا راج)
الگنی پر ڈالنے کے لائق ہو گئے
(بہت ضعیف ہو گئے
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
(جھوٹا شرمندہ ہونے کے بجائے سچے پر الزام لگائے)
اصیل گھوڑے کو چابک کی حاجت نہیں
(شریف اور سچے خودبخود نیکی کی راہ پر چلتے ہیں)
اس گھر کا بابا آدم ہی نرالا ہے
(یہاں کا طریقہ سب سے جدا ہے)
پرانے چاول ہیں
(جہاندیدہ لوگ)
اپنی گلی میں کتّا بھی شیر
(حمایتی کے بھروسے پر بزدل بھی بہادر)
چادر تان کر سوئے
(بے فکری اور لاپرواہی کی زندگی)
روز کنواں کھودنا روز پانی پینا
(جتنا کمانا اتنا خرچ کرنا کوئی بچت نہ ہو)
چراغ تلے اندھیرا
(اپنے قریب کے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچے)
تین میں نا تیرہ میں
(جس کی عزت کہیں نہ ہو)
اوچھے کا کھانا جنم جنم طعنہ
(کم ظرف تھوڑا سا احسان کرکے ہمیشہ جتلاتا ہے)
جتنی دیگ اتنی کھرچن
(جتنا مال اتنا نفع)
سو گز پھاڑیں ایک نہ واریں
(بظاہر محبت جتانا مگر کام نہ آنا)
اونٹ کس کروٹ بیٹھے
(معاملے کا انجام کیا ہو)
گدھا کیا جانے زعفران کی بہار
(بیوقوف کسی جاہ و منصب کے لائق نہیں ہوتا )
جیسا دیس ویسا بھیس
(جہاں رہیں وہیں کے طور طریقے اختیار کرنا ہوتے ہیں )
سہج پکے سو میٹھا
(جلد بازی کے بجائے اطمینان سے کام کرنا بہتر ہے )
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...