میری بس ایک ہی چھوٹی سی خواہش ہے کہ میرے پاس 18 سو سی سی گاڑی ہو، د وکنال کا ایک بنگلہ ہو، چار ملازم ہوں اورماہانہ آمدنی بیس لاکھ ہو۔اس کے علاوہ میں نے کوئی حرص نہیں پالی، نہ کبھی لالچ کیا ۔ الحمدللہ جس دن میری یہ خواہش پوری ہوگئی میں سکون سے کسی کونے میںبیٹھ کرگمنامی کی زندگی گزاروں گا۔میرے دوست احباب جانتے ہیں کہ میں کبھی دنیاوی خواہشات کا غلام نہیں رہا۔چرغہ ، پیزا شاشلک، چکن کڑاہی بون لیس فش…جوبھی مل جائے کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔میں نے کبھی چنے کی دال بینگن کا بھرتہ، سوکھی روٹی اورٹنڈے کھانے کے بیش قیمت خواب نہیں دیکھے۔مجھے نفرت ہے ایسے ناشکرے لوگوں سے جو اپنی پسند کی جرسی خریدنے کے لئے ڈیڑھ دو گھنٹے لنڈا بازار میں ریڑھیوں کی تلاشی لیتے ہیں،وقت بھی برباد کرتے ہیں اور خوار بھی ہوتے ہیں۔ میں نے کبھی ایسا نہیں کیا، بازار جاتا ہوںاور جو پہلی جرسی پسند آتی ہے لے لیتا ہوں کہ اللہ نے یہی میرے نصیب میں لکھی ہے۔
قناعت پسندی نے میری زندگی کو اطمینان سے بھر دیا ہے، مجھے کبھی نیند کی گولی نہیں لینا پڑتی،خودبخود ہی صبح چار بجے ٹی وی دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں بوجھل ہونے لگتی ہیں۔مال و متاع سے مجھے کوئی سروکار نہیں،میرے کپڑوں کی الماری میں کوئی پینٹ، کوئی شرٹ، کوئی ٹائی تین ماہ سے زیادہ نہیں رہتی۔کیا فائدہ ایسی چیزیں سنبھال سنبھال کر رکھنے کا۔مجھے سخت افسوس ہوتا ہے جب میں دیکھتاہوں کہ لوگوں کے گھروں میںدو دو ٹی وی ہیں پھر بھی ان کے منہ سے شکر کے کلمات نہیں نکلتے۔مجھ درویش کے پاس تو یہ بھی نہیں، صرف ایک 80 انچ کی ایل ای ڈی ہے ،اُسی پر راضی ہوں۔میں نے سادگی سے بڑھ کر کچھ نہیں سوچا، گھرمیں کیبل تک نہیں لگوائی کہ اسی منحوس چیز نے ہمارے ذہن خراب کئے ہیں۔میرے کئی دوستوں نے مجھے کیبل لگوانے کا مشورہ دیا لیکن میں نے کانوں کو ہاتھ لگا دیے… ڈِش ہی ٹھیک ہے!مجھے 48 فیصد شک ہے کہ میری درویشی کی وجہ سے کئی لوگ مجھے ولی اللہ کہنا چاہتے ہیںلیکن جھجکتے ہیں کہ کہیں میں برا نہ مان جائوں۔ یقیناً اگر کسی نے ایسا کچھ کہا تو مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگے گا۔میں تو خدا کا ایک عاجز سا بندہ ہوں۔ نمود و نمائش سے دور، اپنے حال میں مست۔میرا ایمان ہے کہ خدا پتھر میں کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال میں خود ہوں۔ میں نے کبھی رزق کے لئے تگ و دو نہیں کی، کبھی پیسے کے پیچھے نہیں بھاگا، الحمد للہ کرائے دار خود ہی آکر مجھے کرایہ دے جاتے ہیں۔
میںحساب کتاب کے سخت خلاف ہوں، روپے پیسے کا لین دین مجھ درویش کے لئے کسی اذیت سے کم نہیں، یہ پیسہ ہی ہے جو انسان کوانسانیت کے مرتبے سے نیچے گرا دیتا ہے۔میں نے نوٹ کیا ہے کہ ہاتھوں کو پیسوں کا لمس لگ جائے تو دلوں میں کھوٹ آ جاتا ہے۔ پیسہ ہاتھ کی میل ہے اور میں یہ میل اپنے اجلے دامن پر کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔میرے پاس بٹوہ تو ہے لیکن میں اس میں کوئی پیسہ نہیں رکھتا، انسان کے پاس پیسہ ہو تونیت میں غرور اور تکبرکی آمیزش ہوجاتی ہے۔ اسی لئے میں نے پیسے کو ہاتھ لگانا ہی چھوڑ دیا ہے…کریڈٹ کارڈ سے ہی کام چلاتاہوں۔میں نے اپنی گھریلو زندگی بھی بڑی متوازن رکھا ہوا ہے، اللہ نے مجھے ایک نیک سیرت اوروفا شعار اہلیہ عطا کی ہے جس کی تمام ضروریات کا میں پورا خیال رکھتاہوں۔ اُسے کبھی بھی مجھ سے کوئی چیز مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آتی حتیٰ کہ مارکیٹ میں نیا موبائل بھی آتا ہے تو میں اُس نیک بخت کے کہے بغیر اپنا موبائل اُسے دے دیتا ہوں۔ سیانے کہتے ہیں کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں حالانکہ دو پہیے گاڑی کے نہیں ا سکوٹر کے ہوتے ہیں تاہم میں سیانوںکی بات کو سر آنکھوں پر رکھتاہوں اور اہلیہ کو باربار یہ باور کرانے کی کوشش کرتاہوں کہ مجھے مزید دو ’پہیوں‘ کی اجازت مرحمت کرے تاکہ گاڑی پوری ہوسکے تاہم اُس کاخیال ہے کہ اس کے دو باڈی بلڈر بھائی اِن دو پہیوں کی ضرورت بآسانی پوری کر سکتے ہیں…!!
مجھے غریب اور مسکین لوگو ں سے ہمیشہ انسیت رہی ہے، پچھلے دنوں میں نے سڑک کنارے فٹ پاتھ پرایک انتہائی لاغر شخص بیٹھادیکھا، اس کی ہڈیاں نکلی ہوئی تھیں، نقاہت کا یہ عالم تھا کہ اس نے بیٹھنے کے لئے بھی پاس پڑی ہوئی اینٹوں کا سہارا لیا ہوا تھا۔ درویش کا دل دہل گیا، فوراً ڈرائیور سے کہا کہ اسے گاڑی میں بٹھائو۔لاغر شخص حیران تھا کہ یہ اچانک اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ لیکن میں نے اسے تسلی دی اور سمجھایا کہ گھبرائو مت،‘ میرے ساتھ چلو۔وہ خوش ہوگیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ میں اسے نہایت عزت و احترام سے لے کر گھر آیا، ڈرائنگ روم میں سب سے قیمتی صوفے پر بٹھایااور اپنے چھوٹے بیٹے کو آواز دی۔ بیٹا آیا تو میں نے رقعت آمیز لہجے میں لاغر شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’بیٹا! یہ دیکھو…اگر تم بھی دودھ نہیں پیو گے تو ایسے ہوجائو گے‘‘۔
میں جہیز جیسی لعنت کے بھی سخت خلاف ہوں، خود جب میری شادی ہونے والی تھی تو میں نے اپنے سسرال والوں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ مجھے جہیز میں ایک کرسی تک نہیں چاہئے۔ میرے سُسر صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے ’بیٹا! یہ تمہاری سعادت مندی ہے لیکن ہم بیٹی کو خالی ہاتھ تو نہیں رخصت کرسکتے، زیادہ نہ سہی، تھوڑا بہت تو قبول کرو۔لیکن میں جانتا تھا کہ جہیزتھوڑا ہو یا زیادہ، جہیز ہی ہوتاہے لہٰذا ا میں نے پوری نیک نیتی سے کہہ دیا کہ اگر ہم جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے خود مثال بننا ہوگا، میں بارش کا پہلا قطرہ بننا چاہتا ہوں، میرے پاس اللہ کا دیا جو کچھ بھی ہے کافی ہے لہذاجہیز دینے کی بجائے دس لاکھ کیش دے دیجئے….!!!
درویش ہونا کوئی آسان کام نہیں، اپنا اندر مارنا پڑتاہے، خواہشات کا گلا گھونٹنا پڑتاہے، میرا خدا جانتا ہے کہ جب مجھے بیکری سے ’بلیک فارسٹ‘ کیک نہیں ملتا تو میں کیسے خود پر ضبط کرتاہوں، دل خون کے آنسو روتاہے ‘دماغ سُن ہوجاتاہے‘ ہاتھوں پیروں میں جان نہیں رہتی لیکن میںپھر بھی صبر کرتاہوں، اپنے آپ کو سمجھاتاہوں کہ یہ آزمائش کا وقت ہے، شکوہٰ نہ کر، گلہ نہ کر!!!کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوتاہے کہ کپڑوں کی دکان پرکسی شرٹ کا کلر پسند آجاتاہے لیکن پتا چلتاہے کہ کالر سائز میرا نہیں۔ایسے میں درویش کس اذیت سے گزرتاہے ناقابل تحریر ہے، لیکن صد آفرین کہ پایہ استقلال میں آدھا انچ لغزش بھی ندارد۔ وہی صبر،‘ وہی برداشت…زباں پر ایک ہی تکرار…یااللہ اس میں بھی تیری کوئی مصلحت ہوگی۔زندگی مشکل سہی لیکن اطمینان قلب سے لبریز ہے۔علم سے محبت ہے‘ کتابیں دوست ہیں، سارا دن شیکسپئر‘ کنفیوشس ‘ میکسم گورکی اور مینا ناز پڑھنے میں گزر جاتاہے…پھر شام ہوتی ہے اور سارا درویش عشق کی روشنی میں نہا جاتاہے، لیکن یہ منظر تاریخ دان نہیں صرف دل والے ہی دیکھ سکتے ہیں۔فیض احمد فیض نے اپنی کتاب’دیوان غالب‘ میں کیا خوب کہا ہے کہ ’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیںگور پیا کوئی ہور‘!!!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“