بیسویں صدی میں بوسنیا یا ابخازیا کی جنگ ہو، جنگِ عظیم، قرونِ وسطیٰ میں یورپ یا مشرقِ وسطیٰ کی جنگیں یا قدیم رومی یا یونانی فوجوں کی، کسی آبادی کا محاصرہ کر لینا پوری دنیا میں جنگی حکمتِ عملی رہی ہے۔ اس کے دوران محاصرہ کئے جانے والے لوگوں کے راشن، پانی کی بندش لوگوں کی نفسیات بدل دیتی ہے۔ کامیاب محاصرے میں وہ کسی اور کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ تناؤ اور یاسیت کی کیفیت محاصرے کی ذہنیت ہے۔ یہ اصطلاح اور کیفیت معاشروں کی نفسیات میں جگہ جگہ نظر آتی ہے۔
یہ اپنے بارے میں اجتماعی مظلومیت کا تاثر ہے۔
سب ہمارے خلاف ہیں اور کوئی ایک یا دو گروہ نہیں بلکہ پوری دنیا ہی ہمارے خلاف ہے۔ ہر شے خراب ہے۔ دشمن طاقتور ہو رہا ہے۔ چیزیں اب اور خراب ہوں گی۔ کہیں کوئی امید نہیں۔ مستقبل تاریک ہے۔
جو لوگ اس کا شکار ہو جاتے ہیں، انہیں اس میں گھرے رہنا اچھا لگتا ہے کیونکہ ان کو ہر مسئلے کا سادہ جواب مل جانا آسان ہے۔ ہر بری چیز کی وجہ کا جواب سامنے ہی پڑا ہے۔ ہم مظلوم ہیں اور ہر مشکل کا الزام کسی اور کے سر ہے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ ایک برتری کا احساس ہے۔ ہم خاص ہیں۔ ہم ہار رہے ہیں مگر ہم معصوم ہیں۔ سب ہمارے پیچھے اسی لئے ہیں۔
اس میں ولن کوئی طبقہ بھی ہو سکتا ہے، کوئی دوسرا گروہ بھی یا کوئی شناخت بھی۔ سپورٹس ٹیم کے کوچ یا قومی لیڈران اس ذہنیت کو اپنی قیادت کے پیچھے اکٹھا کرنے کے لئے ابھارتے ہیں۔
یہ ذہنیت کیوں ہوتی ہے؟
1۔ وہ گروہ جو اپنی اندرونی وجوہات کے باعث دوسروں سے کٹ جاتے ہیں۔ اس کی مثال شمالی کوریا اور البانیہ کی ہے جہاں پر سیاسی قیادت نے دوسروں سے الگ تھلگ ہو جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے تعلیمی نصاب میں انقلابی سپِرٹ کو اجاگر کرنے کے لئے تبدیلیاں کیں۔ بند دروازوں کی پالیسی اپنائی۔ دوسروں سے تعلقات کم کرنے اور دوسروں کو شک کی نظر سے دیکھنے کی سرکاری پالیسی رکھی۔
2۔ وہ جنہوں نے اپنے بارے دوسروں سے شاکی رہنے کو اپنا قومی شیوہ بنا لیا۔ اس کی بیسویں صدی کی مثال کمیونسٹ انقلاب کے بعد کا سوویت یونین اور نسلی امتیاز کی وجہ سے الگ کر دئے جانے والے جنوبی افریقہ کی سوسائٹی ہے۔
3۔ اپنے ماضی کے تجربات میں سے منفی چیزوں کو ابھار کر اپنا راہنما بنا لینے کی۔ اپنی ثقافتی اور تعلیمی پالیسی کو اس کے مطابق کر دینے اور اور اپنی شناخت اس حوالے سے رکھنے کی۔ موجودہ اسرائیل اس کا معاشرہ اس کی ایک مثال ہے۔
ایسے معاشرے کام کیسے کرتے ہیں؟
1۔ اس سے کسی سوسائٹی کو اکٹھا کر کے ان کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے۔ دنیا کو سیاہ و سفید میں دیکھنا جس میں اپنے گروہ کے علاوہ تمام خیالات کو رد کر دیا جاتا ہے۔
2۔ معاشرہ ہر وقت کسی بری چیز کے لئے تیار رہتا ہے۔ افراد کو اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے لئے مستقبل کی غیریقینیت ختم ہو جاتی ہے اور منفی چیزوں کو برداشت کرنا آسان رہتا ہے کیونکہ ان کی توقع ہی یہی ہوتی ہے۔
3۔ اپنوں اور غیروں کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دینے سے گروہی شناخت مضبوط ہوتی ہے۔ البانیہ میں خالص ثقافت اور خالص شناخت کا آئیڈیا اس کی مثال ہے۔
4۔ باقی تمام دنیا کو ظالم اور برے کے روپ میں دیکھنے سے اپنی برتری کا احساس رہتا ہے۔
5۔ دوسروں پر بھروسہ ختم ہو جانے سے خود کفالت پر زور دیا جاتا ہے۔
معاشرے ایسے چلیں تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
1۔ ایسا معاشرہ زینوفوبیا کا شکار ہو جاتا ہے۔ یعنی دوسرے معاشرے کے لوگوں سے نفرت کا احساس جنم لیتا ہے۔
2۔ ہر نئی معلومات جو دوسرے گروہ سے آئی ہو، اس پر شک کیا جاتا ہے اور عام طور پر اسے بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
3۔ اپنے گروہ کے وہ لوگ جو گروہ کے مین سٹریم سے اختلاف کریں، ان کو غدار تصور کیا جاتا ہے۔ ان اختلاف رکھنے والوں کو دشمن کا کارندہ سمجھا جاتا ہے۔
4۔ ایسا گروہ مشترکہ اقدار کی پرواہ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اپنی انتہائی ناقابلِ قبول چیزوں کا دفاع صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ دوسرے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔
یہ ذہنیت مختلف شدت کے ساتھ ہر طرح کے گروہوں میں پائی جاتی ہے۔ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس کو بدلا جا سکتا ہے لیکن اس کے چکر سے نکلنا آسان نہیں۔
اس ذہنیت پر ایک مضمون یہاں سے