any story told to justify another story, esp. involving artifice; a story about oneself that provides a view of one's experiences
مہابیانیہ {Metanarrative} کا تصور کا لفظی سراپا " عظیم داستان" کی شکل میں زہن میں آتا ہے۔ جسکو " شیریں داستان " بھی کہا جاتا ہے۔ خاص کر مابعد جدیدیت میں معنی اور تجربے اور علمیات کی روایت بن چکی ہے۔ جو ایک معاشرے میں ایک ضابطے کی حیثیت سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ مہا بیانیہ میحط ارّض سطح پر زندگی کے معنی اور انفرادی واقعات کو ایک نئی زندگی بناکر ہیش کرتا ہے۔ مارکسیت ، فرائڈیں ازم، آزاد بازر کاری { فری مارکیٹ} ، سرمایہ کاریت اور روشن خیال مہا بیانیہ کے نظرئیے کی اساس ہے۔ دینا کے سب مذاہب جیسے مسحیت، اسلام، ہندوازم، یہودیت، جین ازم، بدہ ازم اور سکھ ازم کے تاریخی واقعات ک کو اپنے طور پر مہابیانیہ کی مدرسے تشریح کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور حدالمکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ الجھے ہوئے بیانیہ کو ستھرے اور صاف انداز میں بیان کیا جائے۔ جو کہانی کے بیانیے میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جو مہابیانہ ایک داستان یا کہانی کے بیانیے میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کی یہ تکلّم اور کسی حد تک ابلاغ و ترسیل کا اظہاری اور تاثراتی فن ہے۔ بیانیہ کی اصطلاح 20 ویں صدی میں بعد از جدید فلسفے کی اساسی اصطلاح کے طور پر ہماری لغت کا حصہ بنی۔ اس کے خالق فرانسیسی مفکر اور ماہر عمرانیات لیوٹارڈ (1924-1998) ہیں اورزیر نظر اصطلاح کی وجہ شہرت لیوٹارڈ کی استعمارکے لئے تراشیدہ“مہا بیانیہ” (narrative۔ grand) پر کڑی تنقید ہے۔اس لحاظ سے مہابیانیہ ایک منفی اصطلاح ہے اس لئے مطلوبہ بیانیہ ‘مہا بیانیہ ’ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کو ادبی اور ثقافتی مطالعوں ، تجزیات اور مخاطبوں کا کصہ بنا۔۔جو اس بات کا دعوی کرتی ہے کہ مہا بیانیہ قدیم روایت کی پیش رفت اور تنویر کاری سے نجات اور یساریت پسندی سے خاصی قریب ہے۔ جو جدیدیت کے بنیادی اوصاف سے بھی ہیت کاری میں قریب ہے اور اس سے شراکت بھی کرتی ہے۔ اس میں عالمی سطح پر حقیقی واقعات اور تجربات سے آفاقی اقدار کو دریافت کیا جاتا ہے۔ جس میں حقائق کے حوالے سے اقدار کی سچائی کو پانے کے لیے اور دودہ کا دودہ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس تناظر میں داستان اور اس کا بیانیہ اقتدار، قوت، ، معاشرتی رواجوں، اقدار، اور تحریمات میں چے بسے واقعات اور تجربات کی وضاحت کی جاتی ہے اور واقعات میں ممکنات کے معنوں کو تلاش کیا جاتا ہے۔ مہا بیانیہ کی اصطلاح کے تحت ہی وسیع معنویت کو اخذ کرنے سعی کی جاتی ہے۔ جس میں مارکسزم ، مذھبی عقائد، عقاءد کی توجیح و تفھیم کو عالمی سطح پر تشریح کی جاتی ہے۔ مہابیانیہ " مہاروایت" کا بھی حصہ ہے جو فطرت میں پوشیدہ تشکیکات کو ایک " کلی" تناظر میں دیکھتی ہے۔ لیوتار کے مہابیانیہ کی تشریح ایک فلسفی ایلکس کالیبکوس را اور جرگن ہبرماس نے جدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اور اسے " ناقابل برداشت " بتایا ہے۔ جس کو خود مہابیانیہ کی حیثیت سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان دونوں کا خیال ہے کہ مابعدجدیدیت کے مفکر جیسے لیوتار آفاقی اصولوں سے آفاقی فراریت ہے ۔ مابعد جدیدت کی مابعد جدجدیت کی عالم گیر " شبہیہ " ہے۔ جس میں رومانویت، نئی مابعد جدجدیت سے مہا ایقانیت اور نئی رومانیت جنم لیتی ہے۔فیڈرک جیمسن کا خیال ہے مہا بیانے کا اختتام ممکن نہیں ہے وہ مہابیانیہ کے معدوم ہونے کو تسلیم نہیں کرتے۔ مہا بیانیے کی گم شدگی کی وجہ یہ ہےکہ مہا بیانیہ زیر زمین چلا گیا۔ اور جب بھی کوئی چیز جو ہمارے وجود کا حسہ رہ چکی ہو زیر زمیں چلی جاتی ہے۔ تو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن جاتی ہے۔ اور فکروعمل کو مسلسل متاثر کرتی ہے۔ جمشید اقبال نے لکھا ہے "بیانیے کی اصطلاح کے خالق کے نزدیک مہا بیانیہ استعمار کا ہتھیار ہے۔ وہ ایک جادو کی نظریاتی چھڑی ہے جیسے استبدادی قوتیں ہر قسم کے سماجی، اخلاقی ، معاشی اور سیاسی مسئلے کے حل کے طور پر پیش کرتی رہی ہیں۔ مہابیانیہ تشکیل دینے والے بیرونی حملہ آور رہے ہیں۔یہ حملہ آور مہابیانیے کی مدد سے عسکری طور پر کمزور اور مفتوحہ معاشروں کو جنت ارضی کے سراب کے تعاقب میں لگا کر یہ چرچا کرتے رہے ہیں کہ جب تک جنت ارضی کی موعودہ منزل نہیں آ جاتی، انتشاراور تشدد کو برداشت کرتے چلو۔ تشدد کے واقعات پر حسن ظن کا مظاہرہ کرو کیونکہ مظالم ظلم کے خاتمے ، جنگیں شر کے خلاف آخری فتح اور پائیدار امن کے قیام کے لئے لڑی جارہی ہیں۔
"مغرب کے پوسٹ ماڈرنزم نے ہر مہابیانئیے کی ڈیکنسٹرکشن کو لازم قرار دیا ہے اور اس فکر کے نزدیک ریاست بھی ایک مہا بیانئیے کا انتہائی طاقتور اظہار ہے؛ لیکن اس کے باوجود، یہ فکر، فرانس برطانیہ جیسے طاقتور مغربی ممالک کی ریاستوں کی تحلیل نہیں کرسکی اور ان کے مہابیانئیے آج بھی اپنے پورے جاہ حشم کے ساتھ قائم ہیں۔ یہ ادبی تحاریک کے پروردہ اذھان، اس بات کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں کہ جو رشتہ یہ “مصنف اور قاری” کے درمیان قائم کرتے ہیں وہ رشتہ ریاست اور عوام کے درمیان قائم نہیں ہوسکتا [اور پھر ریاست بھی پاکستان جیسی ہوکہ جو ابھی ماڈرنزم ہی کی گرد کو نہیں پہنچی، پوسٹ ماڈرنزم تو دور کی بات ہے]۔ مصنف کے بالباطن معانی کا التوا تو ہوسکتا ہے لیکن ریاست پرجو فرائض عوام کی فلاح کے ہیں ان کا التوا ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ عوام کیلئیے بھی ان کے حقوق کے وہی معانی ہیں جو آئین میں ریاست کے فرائض کے طور پر درج ہیں۔ یعنی مصنف کی موت کی طرح ریاست کی موت واقع نہیں ہوسکتی اور ریاست اور عوام دونوں کا، حقوق و فرائض میں التوا کئیے بغیر، بیک وقت زندہ رہنا ناگزیر ہے" ۔ {نعمان علی خان،'ھمارا اصل مہابیانیہ اوراس کی تحلیل کی کوششیں' ۔۔ دانش۔ ۱۵ اپریل ۲۰۱۷}۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے مہابیانیہ روبرو مقامی بیانیے کی مباحث کا جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ جو عالمگیریت یا محیط ارض کا رد ہے اور یہ محیط ارض حوالے سے انحراف کے زریعے یہ اصل میں یساریت میں ڈالی جانے والی رکاوٹیں ہیں۔ مابعدجدیدیت کا نظریہ یوں حقیقت اور سچائی کا دشمن قرار پاتا ہے جو آخر کار مابعد جدجدیت کے یہ مباحث مابعد الطبعیاتی باتوں میں الجھ گیا۔
" قبول عام مہا بیانیہ (Grand Narrative)یہ ہے کہ ہر تعمیر کیلئے تخریب ضروری ہے۔بڑے بڑے انقلابات میں بھی ان گنت لوگ اس نظرئیے کی بھینٹ چڑھا دیئے جاتے ہیں۔ عوام الناس کی طرف سے اگر کسی معاملے میں مزاحمت کا سامنا ہو ان کے سامنے بھی جس بڑی دلیل کا پہاڑ کھڑا کیا جاتا ہے، وہ یہی ہے کہ اگر یہ مقاصد حاصل کرنا ہیں تو یوں کرنا پڑے گا۔ عوام الناس کی اکثریت اس دلیل کے سامنے لا جواب نظر آتی ہے مگر کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں ایسی دلیلیں صادق نہیں آتیں، ان میں ایک محفوظ آثار کا انہدام ہے۔ جدیدیت پسند بڑے طنز سے روایت پسندوں کے اس روئیے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جس کے تحت وہ قدیم آثار کو محفوظ رکھنے پر اصرار کرتے ہیں مگر جدیدیت پسندوں کے سامنے اب مابعد جدیدیت کے دلائل کھڑے ہیں۔ مابعد جدیدیت کے آغاز میں نیٹشے کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے کہ جس نے خدا کی موت کا اعلان کر دیا تھا،مغرب کا سماجی ڈھانچہ اسی مہابیانیے کی قبولیت کا نتیجہ ہے۔ لوگوں نے جب ایک بالاوبرتر قوت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو ضرورتوں کے مطابق اپنے اپنے خداؤں کے بت تراش لئے۔ ان میں سرمایہ داری کا بت سب سے بڑا ہے۔ { حوالہ: ڈاکٹر غافر شہزاد کی کتاب ’’لاہور:نئی صدی، نیا شہر‘‘ }
یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ کسی وحدانیت سے پر مہالسانی مہابیانیہ کا وجود نہیں جوآج کےانتشار میں گھرے ہوئے کثیرالمزاج معاشرے کی سمت و اقدار کی تشریح کرسکے ۔ مہا بیانیہ کی ایک عمدہ مثال "رامائن" ہے ۔ "رامائن ہندوستان کا مہابیانیہ ہے. جو ہندوستان کی اجتماعی تہذیبی اور مذہبی روح کی نمائندگی کرتی ہے. رامائن میں زندگی اور زندگی کی تمام قدروں کو سیاح اور سفید رنگ و آہنگ میں دیکھا گیا ہے. رام بنیادی طور پر صداقت، خیر اور حسن کے نقیب ہیں یا دوسرے لفظوں میں صداقت، ہوش و آگہی اور روحانی سرمدی، نشاط و انبساط کی روشن فروزاں اور منور تمثیل ہیں.راون ان کے بر خلاف شر(برائی) کی تمثیل ہے. وہ زندگی کے تمام منفی اقدار کا ترجمان ہے. رام اور راون کی جنگ درحقیقت انسانی اور روحانی دولت اور ابلیسی، شیطانی اور دنیاوی دولت کے جنگ کی نمائندہ ہے. جس میں حقیقت اور خیر کی جیت ہوتی ہے. بقول علامہ اقبال :
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند{ریختہ روزن}
چونکہ ، مہا بیانیہ امپورٹڈ ہوتا ہے۔ اس لئے مطلوبہ بیانیہ امپورٹڈ نہیں، مقامی ہوسکتا ہے۔" جیمسن اس پوشیدہ بیانیے کو " سیاسی شعور" کا نام دیتا ہے۔ جو عوامی سطح پر بہتریں کہا جاتا ہے۔ اور آفاقی روایت سےسچی، علم حق اور غلط کے بارے میں تشکیک کو ابھارتی ہے۔ جس میں سچی پر یقین کرکے وہ جو بنیاد فراہم نہیں کر پاتا۔ جو بیانیہ کی تفاسیر کو کمزور کردیتی ہے۔ مگر لیوتار کا " یوطوفیا" {UTOPIA} کھڑا نیں کرتے۔اور نہ ہی الہیات کی وکالت کرتا ہے لیکن اس میں تناقص کا جھوٹ چھپا ہوتا ہے۔ جو مہا بیانہ کو کمزور بناتا ہے۔ مہابیانیہ ایک نامکن داستان بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس نے واحدانی تصورات کو توڈ پھوڑ دیا۔ لیوتاز کے خیال میں جدیدیت ایک برا مہابیانیہ ہے ۔ ثقافت اپنےہاتھوں سے اپنی ثقافت بناتی ہے جس میں کئی اور افترقات چھپے ہوتے ہیں : { احمد سہیل} :::
*** کتابیات ***
*Lyotard, Jean-François. Introduction:The Postmodern Condition: A Report on Knowledge," 1979: xxiv–xxv. Archived 2007-06-10 at the Wayback Machine.
David Carr, Time, Narrative, and History (Indiana UP, 1986)*
Geoffrey Bennington, Lyotard: Writing the Event (1988)*
Booth, Wayne C. (1952). “The Self-Conscious Narrator in Comic Fiction before Tristram Shandy.” PMLA: Publications of the Modern Language Association of America 67, 163–8
*Fludernik, Monika (1996). Towards a ‘Natural’ Narratology. London: Routledge
Hutcheon, Linda ([1989] 1996). “Incredulity toward Metanarrative: Negotiating Postmodernism and Feminisms.” K. Mezei (ed). Ambiguous Discourse: Feminist Narratology
*Nünning, Ansgar (2004). “Towards a Definition, a Typology and an Outline of the Functions of Metanarrative Commentary.” J. Pier (ed). The Dynamics of Narrative Form: Studies in Anglo-American Narratology. Berlin: de Gruyter, 11–57
*Prince, Gerald ([1987] 2003). A Dictionary of Narratology. Aldershot: Scolar Press
*جمشید اقبال " بیانیہ امپورٹڈ نہیں ہوتا " ۔۔۔*ہم سب* ۔۔۔۔ 29 جنوری 2016 {انٹرنیٹ پر}