(Last Updated On: )
اللہ تعالی نے نبی آخرالزماں ﷺکو تسلی دیتے ہوئے قرآن مجید کی سورۃ کوثر میں یہ آیت نازل کی کہ”اے نبیﷺہم نے آپ کو کوثر عطا کردیا“۔کوثر سے مرادخیرکثیر یعنی کثرت ہے۔قرآن مجید کی یہ آیت اپنے اندر معانی و مفاہیم کا بے عمیق سمندر لیے ہوئے ہے۔قرآن مجید کاایک اسلوب بیان ہے کہ وہ عام اور خاص سے بحث کرتاہے،یعنی عام حکم بیان کر اس میں کچھ مستثنیات کو علیحدہ کردیتاہے۔مثلاََپہلے یہ عام حکم دیا گیاکہ ”لا الہ“یعنی کوئی بھی معبود نہیں ہے،پھراس حکم میں سے خاص کو الگ کردیا کہ ”الا اللہ“یعنی سوائے اللہ تعالی کے،اسی طرح ایک جگہ عام حکم لگا دیا کہ ”ان الانسان لفی خسر“کہ سب کے سب انسان،خواہ ایمان اورعلم و عمل کے کسی بھی درجے سے متعلق ہوں نقصان میں ہیں،بعد میں اس حکم میں تخصیص کر دی کہ نہیں ان چار خواص کے حامل انسان اس نقصان سے بچ جائیں گے۔جب کہ سورۃ کوثرکی اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ السلام کو دی گئی خیرکثیرمیں کوئی تخصیس نہیں کی،پس کل دنیا بلکہ کائنات بے کنارکی معلوم و نامعلوم کل دنیاؤں کی کل کثرتیں،خالق مطلق کی طرف سے گویا آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں بغیر کسی تخصیص و تحدیدکے پیش کر دی گئی ہیں۔
اس آیت کو اگر آپ ﷺکی ذات بابرکات سے منسلک کردیاجائے تو سیرۃ طیبہ کاایک لمحہ اپنی کل کثرتوں کے ساتھ آج تک موجودومحفوظ ہے۔جتنی کثرت سے آپ ﷺ کے معمولات زندگی کوقلمبندکیاگیاہے اس کی مثال انسانوں کی کل تاریخ عالم میں ناپید ہے۔آپ ﷺ کو قرآن مجید نے ”سراجاََمنیرا“(چمکتاہواسورج)کہاہے اور ذات نبویﷺکے آفتاب کی کرنیں آج بھی اسی کثرت و برکت کے ساتھ انسانوں پر ضوفشاں ہیں جس طرح حیات طیبہ کے زمانے میں تھیں بلکہ صدیوں کی تحقیق و جستجواور علوم معارف اس پر مستزاد ہیں اوراس کثرت میں تاقیامت اضافہ ہی ہوتا رہے گاکہ قادرمطلق نے اس کثرت کی کوئی تحدیدوتخصیص نہیں کی۔ایک انسانﷺکی حیات طیبہ کے معمولات کومحفوظ و مامون کرنے کے لیے کم و بیش ساڑھے پانچ لاکھ افراد،جنہوں نے ان احادیث کی روایات میں کوئی بھی کرداراداکیاہو،ان سب کی کل حیات پرمشتمل جملہ معلومات آج تک کتابوں میں درج ہیں بلکہ اب کمپیوٹر کے حافظہ میں بھی منتقل کی جاچکیں ہیں۔ایک انسان ﷺکی خاطر اتنی کثرت سے انسانوں کا ایک عظیم کام میں جت جانا کسی بھی اور مثال سے خالی ہے۔اور تب سے اب تک اور اب سے قیامت تک ان گنت تعدادمیں انسانوں کی کثرت قال قال رسول اللہ ﷺسے وابسطہ ہے،اورنعت گوشاعر،نعتیہ مجموعے اورنعت خوان حضرات و خواتین کی کثرت کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔
اس آیت کو اگر آپ ﷺکی آل و ذریت کی کثرت سے منسلک کردیاتو بھی جوکثرت و برکت آل رسولﷺمیں نظر آتی ہے اس سے دنیابھراور کل انسانی تاریخ کا کوئی بھی اور قبیلہ و خاندان عاری ہے۔اگرچہ دیگرانبیاء علیھم السلام کی ذریت میں بھی پھیلاؤ دیکھنے میں آیالیکن تاریخ کے طالب علم نے جس سرعت سے عترت ختمی مرتبتﷺکی وسعت کو مشاہدہ و روایت کیاہے وہ سواہے۔کربلا کامیدان آل رسول کو ختم کرنے کی ایک ناپاک کوشش تھی لیکن جس آل محمدﷺکی کثرت کا فیصلہ اللہ رب العزت نے کیا ہواسے دنیا کے یزیدکہاں مٹاسکتے ہیں۔محض دو نواسوں،حسنین،کریمین،شفیقین سے چلنے والی نسل نبیﷺآج دنیاکے ہر کونے میں موجود ہے،ہر خطے میں اور ہر زبان بولنے والوں میں موجود اہل بیت کی نسل مقدس،سے وقت کے فرزندان اسلام فیض ہدایت حاصل کرتے رہے ہیں،کررہے ہیں اورکرتے رہیں گے،انشاء اللہ تعالی۔اس بڑی کربلا کے بعد بھی آل رسول پربہت سی کربلائیں اپنی شدت و قوت کے ساتھ ٹوٹیں لیکن تاریخ کے یزید ہمیشہ مٹتے رہے جبکہ کثرت کا خدائی فیصلہ ہمہشہ جاری و ساری رہا۔اسی طرح آپ ﷺ کے امتی بھی جس کثرت سے موجود ہیں وہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے۔اگرچہ فی زمانہ مسیحی دنیا اپنی کثرت کا دعوی کرتی ہے لیکن یہ محض کذب بیانی ہے کیونکہ مغرب کی اکثریت اپنے آپ کو سیکولرگردانتی ہے اورحضرت عیسی علیہ السلام سے ان کاعلامتی و واجبی تعلق 25دسمبر رات بارہ بجے شروع ہوتاہے اور اگلی رات بارہ بجے ختم ہوجاتاہے۔اس کے مقابلے میں بہت گیاگزرامسلمان بھی ختم نبوت کے عقیدہ پر کسی طرح کی مفاہمت یاسمجھوتے کے لیے تیارنہیں ہوتا۔
اس آیت مبارکہ کے مطابق اعلی انسانی اقدارکی وہ عددیات جو قلت کی وجہ سے باعث تفاخر ہیں،ان کی کثرت بھی محسن انسانیت ﷺکی حیات طیبہ میں ہی میسر ہے۔مثلاََدنیابھر میں اور کل تاریخ عالم میں جتنے بھی انقلابات روپزیر ہوئے ان میں سب سے کم ترین تعداد میں جوانسان کام آئے وہ انقلاب نبویﷺ ہے،اور اس کے مقابلے میں دنیامیں تمام انقلابات میں دوررس کثرت اثرات کاحامل بھی آپﷺ کا ہی لایا ہوا انقلاب ہے۔ریاست مدینہ کے دورنبویﷺ میں جتنے علاقے فتح ہوئے اور اس کے لیے جتنی جنگیں لڑی گئیں اور ان جنگوں میں مسلمان اور کافر ہردوقسم کے جتنے انسان مارے گئے وہ دنیاکے کسی بھی اور مفتوحات میں کم ترین تعدادہے۔بادی النظرمیں وہ تعداد مبالغہ یا مضحکہ لگتی ہے یعنی کم و بیش دس لاکھ مربع میل کے علاقے کی فتح میں کل ایک ہزار چوبیس افراد لقمہ اجل بنے۔جبکہ گزشتہ صدی میں سیکولرازم کی دو بڑی عالمی جنگوں،انقلاب فرانس،روسی انقلاب اورتقسیم ہند سمیت ہر تاریخی موڑپر کروڑہا انسانوں کاخون رائگاں گیااور سوائے تباہی و بربادی کے کچھ حاصل وصول نہ ہوا۔اتنی کم ترین افرادکی لاگت سے اتنے کثیرترین نتائج کی برآمدگی اس کثرت فیض کا نتیجہ ہے جو بارگاہ ایزدی سے جناب رسالت ماب ﷺ کو”کوثر“کی صورت میں مرحمت کیاگیا۔
قرآن مجید جیسا زندہ معجزہ بھی اسی ”کوثر“کااعجاز ہے۔یہ کتاب جتنی کثرت سے پڑھی جاتی ہے،جتنی کثرت سے سنی جاتی ہے،جتنی کثرت سے لکھی جاتی ہے اورجتنی کثرت سے شائع کی جاتی ہے وہ اس ”کوثر“کاایک اور تابندہ پہلو ہے۔یہ پہلو تو بہت ہی کم حد تک لیکن پھر بھی دوسری کتب کے ساتھ موجود تو ہیں جبکہ قرآن مجید کی کثرت حفظ تو ایسا وحدانی معجزہ ہے کہ اس کی کوئی مثال ہی اس آسمان کی چھت کے نیچے اور زمین کے سینے پر موجود ہی نہیں۔سات آٹھ سال کاایک بچہ مدرسے جاتاہے اور دوتین سالوں میں کل قرآن مجیدحلق سے نیچے اتارکر واپس آجاتاہے۔اس ایک کتاب کی جتنی کثرت تفاسیرلکھی گئیں اس کی بھی کوئی مثال عنقاہے۔صدیوں کے بعد جنم لینے والے بڑے بھاری بھرکم دماغ،مسلمان یاغیرمسلم،اس کتاب پر قلم اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ذہن میں قبل از تاریخ سے بعد ازتاریخ کی کل انسانیت محفوظ ہوتی ہے لیکن اس سب کے باوجود قرآن مجید کی ہرہرآیت ہرہرنئے لکھنے والے کے سامنے اپنے نئے نئے رازوں سے پردے ہٹاتی چلی چلی جاتی ہے،اوریوں کثرت مطالب و کثرت مفاہیم کا سمندر ہے جو اس کتاب کے طالب علم کے سامنے امڈتا چلاآتاہے اور جو اس کتاب میں ڈوبتے ہیں نہ جانے کیسے کیسے قیمتی یاقوت ومرجان سے بھی عمدہ تر ہیرے جواہرات لے کر نکلتے ہیں۔”کوثر“کاایک اوررنگ قرآن مجیدکی قرات میں نظر آتاہے،دنیابھرمیں اور قرآن مجید کی شروع دن کی تاریخ سے آج تک،کیافرشتے،کیاجنات،کیامقدس روحیں اور کیسے کیسے انسان کن آوازوں میں اورکن کن طریقوں سے اورکسی کیسی عقیدتوں سے اورانفرادی و اجتماعی طورپر اس کتاب کی خوش الحانی سے اس حد تک کثرت تلاوت و قرات کرتے ہیں اہل ایمان کی روحیں وجد میں آجاتی ہیں۔
المختصریہ کہ اللہ تعالی نے اس کائنات کو”احدیت“سے ”اکثریت“کی طرف وجود بخشا،یعنی پہلے اللہ تعالی اکیلایکہ وتنہاتھا،کچھ بھی نہ تھا بجزذات باری تعالی کے،پھر قدرت خداوندی نے عدم سے اس کائنات کو وجود بخشااور کیا شان کہ کثرت وجود بخشا،ستاروں کی کثرت،سیاروں کی کثرت،اجرام فلکی کی کثرت،فرشتوں کی کثرت،جنات اور انسانوں کی کثرت اور اس زمین پر حشرات الارض کی کثرت،پرندوں اور جانوروں کی کثرت،درختوں،پودوں اور ان پر پھلوں اور پتوں کی کثرت،سمندری مخلوق کی کثرت،پانی کے قطروں کی کثرت،ریت اور مٹی کے ذرات کی کثرت غرض کہ کرہ ارض کے کل درخت قلمیں بن جائیں اور کل سمندروں کاپانی سیاہی بن جائے تب بھی اس کثرت مخلوق کا احاطہ تحریر ممکن نہیں ہے اور ان کی گنتی انسانی قدرت سے کہیں باہر ہے۔اور یہ سب کثرت کے بارے میں اس کثرت کے خالق نے کہا کہ ”انا اعطینک الکوثر“کہ یہ سب کثرت ہم نے آپ ﷺ کو عطا کردی ہے۔ماں باپ کتنی محبت کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے اپنے ماں باپ نہیں بنائے،بہن بھائی کتنے عزیز ہوتے ہیں لیکن ذات خداوندی کے بہن بھائی بھی نہیں ہیں،اولاد آنکھوں کانور ہوتی ہے لیکن خالق کائنات نے اپنے لیے اولاد کو بھی پسند نہیں فرمایا جبکہ ”محبوب“کی ذات ایسی ہے جس کے بغیر خدائی بھی نامکمل ہے۔محبوب کو بنایا اور کیاخوب بنایاکہ بقول حسان بن ثابتؓ ”کانک قد خلقت کما تشاء“محبوب کو ایسا بنایا جیسا کہ محبوب خود چاہتاتھا۔محبوب سے محبت کو اپنی سنت بنایا اور کل انسانوں کو حکم دیاکہ میری سنت کے مطابق میرے محبوب سے ہی محبت کرواوراس کے طریقے کے مطابق زندگی گزارکرآؤگے تو عذاب دوزخ سے نجات اور جنت میں داخلہ ملے گا۔
کی محمدﷺسے وفاتونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیزہے کیالوح و قلم تیرے ہیں