ماہ میر۔۔ ایک فلم ۔۔ تخلیقی آرٹ کا کمال
ادب کی طرح فلم ابتدا سے میرا شوق تھی جس میں ذہنی تربیت اور شعورکے ساتھ حسن انتخاب کی اہمیت زیادہ ہوگیؑ،ہر کتاب پڑھ لینے اور ہر فلم دیکھ لینے کا یہ شوق بالاخر ادب عالیہ اور آرٹ موویز تک محدود ہوگیا۔ جیسے اب ذوق مطالعہ کی تسکین کیلۓ اچھی کتاب کم ہی دستیاب ہوتی ہے ایسے ہی ذوق تفریح کی تسکین کا ساماں فراہم کرنے والی فلم نہیں ملتی۔۔ذوق دید کے بجاۓ میں نے ذوق تفریح کا حوالہ اس لۓ دیا کہ فلم اب صرف دیکھنے کی چیز نہیں رہی۔ یہ مختلف فنون کے تخلیقی امتزاج کا معیار بن گیؑ ہے ۔اس میں بیک وقت موسیقی معہ پس منظر موسیقی۔ رقص۔اداکاری۔۔۔ فوٹوگرافی۔ ساونڈ ریکارڈنگ۔ ایڈیٹنگ اور ہدایت کاری جیسے فنون لطیفہ یکجا ہو گۓؑ ہیں اور سب میں کسب کمال کی انتہا کویؑ نہیں
یہاں فلمی صنعت کے ارتقا کی تاریخ بیان کرنا مقصد نہیں۔ انڈیا میں ستیا جیت رے نے "پتھار پنچالی" جیسی فلموں سے آغاز کیا تو گلزار نے "شطرنج کے کھلاڑی" یاسمیتا پاٹل کی "روندالی" جیسی فلمیں بناییں جو بیک وقت کمرشل مقبولیت کے معیار پر بھی پوری اترتی تھیں۔۔ایسی فلموں کی تعداد اب بہت زیادہ ہے کیونکہ انڈیں فلم نے پھیل کر دنیا کی نمبر ون انٹر ٹینمنٹ انڈسٹری کا درجہ حاصل کرلیا ہے جو ہر سطح کے ناظرین اور سامعین کی ضرورت پوری کرتی ہے ایک طرف وہ کثیر زر مبادلہ بھی لاتے ہیں تو پورے ملک میں فنون لطیفہ کی ترویج و ترقی کا سبب ہیں۔۔لیکن اس کے ساتھ انہوں نے دنیا کے سامنےParallel Cinema کوبہت اہمیت دی ہے۔شاید ہم اس سے نابلد ہیں۔۔کیا آپ نے امیتابھ کی فلم The Last lyierدیکھی ہے؟
پاکستان میں ضیا الحق کے دور سے فنون لطیفہ پر اور فنکاروں دانشوروں پر جو قیامت ٹوٹی اس کے نتیجے میں "فلانا بدمعاش یا فلانا گجر"کے نام کی فلموں سے وہ زوال آیا کہ پوری اندسٹری ختم ہوگیؑ۔سینیما گرادۓ گۓ اورجو بچے ان میں زو معنی فحش کلامی اور جنسی ہیجان خیزی والے بازاری رقص ہونے لگے۔اسٹوڈیو ویران اور فنکاردر بدر ہوگۓ۔ اور ایسے میں متعدد اسکرین اور ڈیجیٹل ڈسپلے والے سینیما نمودار ہوۓ اور اگرچہ یہ تفریحی ذریعہ عام آدمی کی دسترس میں نہ تھا لیکن ان سے فلم انڈستری کا احیا ہوا۔ان کی ضرورت پوری کرنے میں سب سے اہم کردار انگلش اور پھر بھارتی فلموں کا تھا۔۔لیکن ساتھ ہی نےؑ فلمساز میدان میں اۓ جوتخلیقی لگن بھی رکھتے تھے۔کم خرچ میں زیادہ کمایؑ کرنےوالی نےؑ فنکارون کی ایک کامیاب فلم"نا معلوم افراد" تھی تو گزشتہ سال دو فلموں نے تخلیقی معیار قایم کیا۔ ایک تھی ریلوے کی تباہی کی داستان عبرت "مور" جس نے عالمی اعزاز بھی لیا دوسری تھی "منٹو"
"منٹو" پر میں نے راۓ دیتے وقت اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ باکس اٖفس پر کامیابی سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ اس کو کامیاب کرنے والے میرے جیسے اگلے وقتوں کے لوگ نہیں نوجوان نسل تھی۔اس کی پروڈکشن کا کمال تھا کہ دیکھنے والے دم بخود بیٹھے رہے اور یہ میری یاداشت میں واحد فلم ہے جس کو آخر میں دیکھنے والوں نے ٹھیٹر کی طرح تالیاں بجا کے داد دی۔۔اسی وقت سرمد صہبایؑ نے "ماہ میر" بنانے کا اعلان کیا اور فیس بک پر وہ مجھے اس کی تکمیل کے مختلف مراحل سے آگاہ کرتے رہے،اگرچہ باکس آفس پر یہ "منٹو" جیسی کامیابی نہ سمیٹ سکی لیکن پروڈکشن کوالٹی میں اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا
"ماہ میر" نظم جدید کا شہکار ھے۔ اس کی دلچسپی کے عناصرمیں ایمان علی کا ہوشربا حسن۔اس کے شہکار کلاسیکی رقص۔زبردست بیک گراونڈ میوزک،انتہاییؑ معیاری ساونڈ ریکارڈنگ اور ایڈیٹنگ تو ہے لیکن ڈاکٹر کلیم کے رول میں منظر صہبایؑ اور ان کے ساتھ ماضی کی ہما نواب کی کہانی اور بے مثل اداکاری نا قابل فراموش ہے۔۔ اس کے ساتھ جو خیال سرمد صہبایؑ نے فلم کے قالب میں ڈھالا ہے وہ ایک جینیؑس کا ہی کام تھا۔ؐ میر اور غالب سے اب تک وحدت خیال کا جو تصور پیش کیا گیا ہے۔ وہ غالب کی زبان میں "شوخیؑ ایجاد" ہے تو جدید تیکنالوجی میں Playful Device ماضی حال اور مستقبل کی کہانی جس چابک دستی سے بلینڈ کی گیؑ ھے وہ اپنی جگہ۔۔۔۔ایک بار پھر میری حیرت کا سبب نو عمر لوگ تھے جو کامل انہماک کے ساتھ آخر تک بیٹھے رہے۔۔ سرمد صہبایؑ کو اس فنکارانہ تخلیق پر مبارکباد دینا فرض بنتا ہے تو ایسی فلمیں دیکھنا بھی ضروری ہے۔ منافع کی مد میں یہ ستایش بھی بہت ہے ۔۔۔ لیکن اگلی فلم بنانے کیؒۓ پچھلی کا خرچ تو پورا ہونا چاہۓ ۔۔اس امید پر کہ۔؎ ۔نقاش نقش ثانی بہتر کشد زا اول
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1030853960329955