جنگل میں ایک چوہا رہتا تھا، وہ بڑا مغرور تھا، وہ صبح سویرے اپنے بل سے نکلا، اس کا بل ایک بڑے درخت کے نیچے تھا، مغرور چوہا بڑا خوش تھا، اس کی زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔
اس نے اپنے آس پاس دیکھا اور کہا:
’’آج موسم بڑا خوش گوار ہے، ٹھنڈی کا موسم جا چکا ہے اور بہار کا موسم آچکا ہے، سورج نکلا ہوا ہے، اور جنگل کے ہر طرف بادِ نسیم چل رہی ہے، میں عجیب چوہا ہوں، میرا رنگ سرمئی ہے اور میری دم لمبی ہے، میں دوڑتا ہوں اور پورا جنگل گھومتا ہوں، میرے پاؤں تو چھوٹے ہیں، لیکن میں تیز دوڑتا ہوں، میں بڑی بڑی چٹانوں پر چڑھ سکتا ہوں، اور ادھر سے ادھر کود سکتا ہوں، کیوں کہ میرے پیچھے کے پاؤں سامنے کے پاؤں سے زیادہ لمبے ہیں‘‘۔
تیز ہوا چلی، شہتوت کا بڑا درخت ہلنے لگا، جس سے چوہے کے سر پر شہتوت کے پھل گرے، وہ گھبرا گیا اور جنگل میں موجود پتھروں کے درمیان چھپنے لگا، تھوڑی دیر بعد اپنا سر نکالا، اسے کوئی نظر نہیں آیا، اس کا ڈر دور ہوگیا، وہ چوکنا ہو کر نکلا تو اسے زمین پر شہتوت گرے نظر آئے۔
چوہا لذیذ شہتوت کھانے لگا اور ہنسنے لگا، دل میں اس نے کہا:
’’شہتوت بڑے ذائقہ دار ہیں، گذشتہ ہفتے میں اپنے چچا زاد بھائی کے گھر گیا تھا، وہ پڑوس کے گاؤں کے ایک گھر میں رہتا ہے، وہاں کھانا بہت زیادہ ہے، وہاں کے بچے الماریاں بند کرنے کی فکر نہیں کرتے اور کھانا کھلا چھوڑ دیتے ہیں، پھر ہم چوہے رکھا ہوا پورا کھانا کھا لیتے ہیں، ہم اپنی لمبی دم جام کے ڈبے میں ڈالتے ہیں، پھر اپنی زبانوں سے چاٹتے ہیں، جی ہاں، جام بہت لذیذ ہوتا ہے، لیکن تازے شہتوت کا مزہ ہی کچھ اور ہے، ھاھاھاھاھا‘‘۔
چوہا جنگل میں دوڑنے اور کودنے لگا، جنگل کی تازہ ہوا اور خوب صورتی سے لطف اندوز ہونے لگا، جنگل کے سب جانور اور پرندے خوش تھے، پرندے ایک درخت سے دوسرے درخت پر اڑ رہے تھے اور میٹھے میٹھے بول بول رہے تھے اور اپنی سریلی آوازوں میں چہچہا رہے تھے، ان ہی درختوں کے نیچے ہرنیں اٹکیلیاں کھا رہی تھیں۔
چوہے نے تالاب کے پاس شیر دیکھا، اس کے ساتھ شیرنی اور بچے بھی تھے، وہ پانی پی رہے تھے، انھیں دیکھتے ہی چوہا اونچی اونچی گھاس کے درمیان میں چھپ گیا، شیر اور اس کا خاندان پانی پی کر وہاں سے چلا گیا، چوہے نے اسے دور جاتے ہوئے دیکھا تو کہا:
’’جی ہاں، شیر بڑا بھی ہے اور طاقت ور بھی، لیکن وہ تو صرف جنگل میں ہی رہ سکتا ہے، لیکن ہم چوہوں کو دیکھو، ہر جگہ رہ سکتے ہیں، جنگلوں میں، کھیتوں میں، گھروں میں، فیکٹریوں میں، گوداموں میں اور ویران جگہوں میں، ہمیں نہ گرمی زندگی سے روکتی ہے اور نہ سردی، ہم تو پھلوں اور سبزیوں کے کولڈ اسٹوریج میں بھی رہ سکتے ہیں، ھا ھا ھا ھا ھا‘‘۔
ہلکی ہوا چلی تو پھلوں اور پھولوں کی خوشبو پورے جنگل میں پھیل گئی، یہ خوشبو مغرور چوہے کے ناک تک بھی پہنچی۔
چوہا بڑی مستی سے خوشبو سونگھنے لگا، اور درختوں کو دیکھنے لگا، درختوں کے پتے ہرے بھرے ہوگئے تھے اور پھل پک چکے تھے، زمین پر نظر گئی تو پوری زمین خوب صورت ہری بھری گھاس سے ڈھکی ہوئی نظر آئی، اس نے کہا:
’’میری امی کیوں چاہتی ہے کہ میں اس کی بات سنوں اور دن میں نہ نکلوں؟ وہ کہتی ہے:چوہے دن میں نہیں نکلا کرتے۔ اور ابا کہتے ہیں: چوہے رات ہی کو نکلتے ہیں۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ میرا سرمئی رنگ تاریکی میں چٹانوں اور درختوں میں چھپ جاتا ہے، اور دشمنوں کے لیے ہمیں دیکھنا دشوار ہوجاتا ہے، لیکن میں ان سب خوب صورتیوں سے خود کو کیوں محروم کروں، پھر یہ بات بھی ہے کہ ہمارا جانی دشمن الّو تو دن میں نکلتا ہی نہیں ہے، صبح کے وقت اژدھے بھی نہیں نکلتے جو ہمیں غذا بناتے ہیں، میں عجیب چوہا ہوں، بڑا ذہین بھی ہوں، بہادر بھی ہوں، میں ان سب خوب صورتیوں سے لطف اندوز ہو رہا ہوں، مجھے الّو کا بھی ڈر نہیں ہے اور اژدھوں کا بھی خوف نہیں ہے‘‘۔
چوہا غرور وتکبر سے چل رہا تھا اور خوشی خوشی گا رہا تھا کہ اسی وقت ایک چیل نے اسے دیکھا، اس پر ٹوٹ پڑا اور اپنا نوالہ بنایا۔
(عربی سے ترجمہ)