(Last Updated On: )
تمہید
تاریخ کے جھروکوں میں جھانکے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت پر دنیا کے ہر ایک خطہ میں ظلم ہو رہا ہے۔ ہر ایک قوم اور ہر ایک خطہ میں عورت کو مختلف النوع ظلم و ستم سہنا پڑ رہے ہیں۔ کیا یونان اور کیا عراق، کیا ہند اور کیا چین، کیا امریکہ اور کیا عرب۔ سبھی جانتے ہیں کہ عورت بازاروں اور میلوں میں بکتی رہی۔ عورت کے ساتھ حیوانوں سے سے بھی بدتر سلوک ہوتا رہا۔ یہ سلوک مذہب کی آڑ میں بھی اور معاشرتی و طبقاتی تقسیم کے لحاظ سے بھی روا رکھا جاتا ہے۔
آزادیٔ نسواں کا مغربی تصور اور اس کےبھیانک نتائج
مشرقی و مغربی دنیا میں عورت کے متعلق مختلف تصورات و نظریات کا مختصر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ:
یونانی ایک لمبا عرصہ اس بحث میں پڑے رہے کہ عورت کے اندر روح ہے بھی کہ نہیں؟ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عورت سانپ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
بونا ٹؔیوکر کا قول ہے کہ عورت اس بچھو کی مانند ہے جو ڈنک مارنے پر تلا رہتا ہے۔
یوحنؔا کا قول ہے کہ عورت شر کی بیٹی ہے اور امن و سلامتی کی دشمن ہے۔
رومن کیتھولک فرقہ کی تعلیمات کہ رو سے عورت کلام مقدس کو چھو بھی نہیں سکتی اور عورت کو گرجا گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔
عیسائیوں کی سب سے بڑی حکومت رومۃ الکبریٰ میں عورتوں کی حالت لونڈیوں سے بدتر تھی اور ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔
یورپ کی بہادر ترین عورت جون آف آرک کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔
دورِ جاہلیت کے عرب ایک طرف اپنے اشعار میں عورت کو خوب رُسوا کیا کرتے تھے تو دوسری جانب وجودِ زن کو اس حد تک عار جانتے کہ بعض شقی القلب اپنی نومولود لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے۔
ہندو معاشرے میں ستی کی رسم اب بھی جاری ہے جس میں بیوہ اپنے شوہر کی چتاکے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔
راہب لوگ عورت کو معصیت کا سرچشمہ، باب گناہ اور مجسم پاپ گردانتے اور روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
الغرض دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں عورت کو نہ تو سماجی حیثیت حاصل تھی ، نہ کوئی عزت و توقیر اور نہ ہی معاشی و سیاسی حقوق حاصل تھے۔
گویا عورت کی داد رسی کہیں نہ تھی بلکہ اسے تو فریاد کا بھی حق نہیں تھا۔
عورتوں کی حکومتیں
مندرجہ ذیل حالات کے برعکس ایسا دور بھی آیا کہ بعض اوقات عنان حکومت عورت کے ہاتھ آئی اور کئی بڑی بڑی سلطنتیں اور حکومتیں اس کے اشاروں پر ناچتی تھیں۔ خاندان، قبیلہ اور غیرمتمدن قبائل میں عورت کو مرد پر بالادستی رہی اور اب بھی ہے لیکن بہ حیثیت مجموعی اس کے حقوق غصب کیے جاتے رہے۔
عام معاشرے میں عورت کا نفوذ
عورت کو جیسے فردوس گم گشتہ مل گئی ہو۔ آہستہ آہستہ معاشی، معاشرتی، سماجی اور تہذیبی امور میں مرد کے شانہ بہ شانہ آتی چلی گئی۔ کارخانوں، دفاتر، کالجوں میں ہر جگہ معاشی جدوجہد کرتی دکھائی دینے لگی گویا اس کا وجود ہر شعبۂ حیات میں ضروری قرار پا گیا اور اس کے بغیر زندگی بے کیف اور بے لطف تصور کی جانے لگی۔ عورت نے اسے ترقی کی جانب اپنی پیش رفت سمجھا اور بے باکانہ ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھانے کے لیے بے چین نظر آنے لگی۔
مغربی آزادی اور عدم توازن
مرد کے ظلم کے خلاف شدید رد عمل کے طورپر بے اعتدال والی آزادی راہ پا گئی اور عورت کی اس بے قید آزادی نے مغربی زندگی کو کلیۃً غلط راہ پر ڈال دیا اور ایک ایسا عدم توازن پیدا کر دیا جس کے گھناؤنے نتائج سامنے آنے لگے جبکہ اسلام نے اس نازک موڑ پر بھی ہماری بہترین انداز میں رہنمائی فرمائی۔ حتی کہ عورت کے بنیادی حقوق ااور اس کی ہمہ جہتی ترقی کی ضمانت بھی دی۔
اسلام اور عورت کا مقام
اسلام نے عورت کو ظلم کے گرداب سے نکالا۔ اسے انصاف دلایا۔ انسانی حقوق اور عزت و سربلندی بخشی اور معاشرہ میں اس کا احترام قائم کیا جبکہ مغرب میں عورت کے حقوق بدستور پامال ہوتے رہے اور وہ ہر طرح کا ظلم و ستم برداشت کرتی رہی۔ دورِ جدید میں جب ان اقوام میں ردِّعمل شروع ہوا تو عورت کی آزادی اور مساویانہ حقوق کا تصور ابھرا۔
عورت کے لیے اسلام مقرر کردہ حقوق
اسلام سے قبل دنیابھر میں بالعموم اور عرب میں بالخصوص عورت کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ عورت بے چارگی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی۔
ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں مبعوث ہوئے تھے جبکہ دنیا ہر ایک پہلو سے خراب اور تباہ ہو چکی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (سورۃ الروم:۴۲)
یعنی: ”جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے۔“
یعنی انسانوں کی اخلاقی حالت اس قدر بگڑ گئی تھی کہ صرف عرب یا محض یورپ ہی اس سے متاثر نہیں تھا بلکہ دنیا کی تمام تہذیبں اس کا شکار ہو چکی تھیں۔ ہر ایک معاشرہ اس تنگ نظری کا شکار ہو چکا تھا اور اخلاقِ فاضلہ کا تو جنازہ نکل چکا تھا۔ اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہ مُسْوَدًّا وَّ ھُوَ کَظِیْمٌ۔ (سورۃ النحل:۵۹)
”جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی پیدائش کی خبر مل جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ نہایت رنجیدہ ہو جاتا ہے۔
حالانکہ انسان کو یہ معلوم ہے کہ نسلِ انسانی کی افزائش میں عورت کا وجود ناگزیر ہے اس کے باوجود وہ عورت کے وجود کو برداشت کرنے پر تیار نہیں تھا۔
رحمت اللعالمین، سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مظلوم طبقۂ نسواں کو ذلالت کے گڑھے سے اٹھا کر نہایت اعلیٰ اور ارفع مقام تک پہنچایا۔ اس طرح عرب معاشرہ میں نئی سوسائٹی قائم ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کامل اعتدال اور عدل و انصاف پر مبنی تعلیم بیان فرمائی۔
خواتین کی تین حیثیتیں اور کامل اسلامی تعلیم
طبقۂ نسواں کی تین حیثیتوں یعنی بیٹی، بیوی اور ماں کے بارے میں اسلام کی تعلیم اتنی کامل ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کے مقابل کھڑا نہیں ہو سکتا۔
۱) بحیثیت بیٹی
رحمتِ عالم نے دختر کُشی کی رسم کو وحشیانہ اور بہیمانہ قرار دے کر اسے قطعاً ممنوع قرار سے دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حرمت قائم فرمائی کہ:
وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْط اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیْرًا۔
(بنی اسرائیل: 32)
ترجمہ:تم افلاس کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ انہیں بھی ہم ہی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ انہیں قتل کرنا بڑا گناہ ہے۔
پھر فرمایا:
وَاِذَا الْمَوْءُوْدَۃُ سُئِلَتْ۔ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔ (التکویر:۸،۹)
اس وقت کو یاد کرو جبکہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ درگور کر دیا گیا تھا کہ کس جرم میں اسے قتل کیا گیا۔
یو ں ایک طرف معصوم اور بے گناہ لڑکیوں کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی تو دوسری طرف ان کی اچھی تربیت کرنے والوں کو جنت کی خوش خبری بھی دی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
مَنْ کَانَتْ لَہُ اُنْثٰی فَلَمْ یَئِدْھَا وَ لَمْ یَہْنِھَا وَ لَمْ یُؤْثِرْ وَلَدَہ عَلَیْہَا یَعْنِیْ الذَّکُوْرُ اَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ۔
(ابو داؤد کتاب الادب باب فضل من مال یتامیٰ)
یعنی جس کو اللہ تعالیٰ بیٹی عطا فرمائے اور نہ تو وہ اسے زندہ درگور کرے اور نہ ہی اس کے ساتھ حقارت آمیز رویہ رکھے اور نہ ہی اسے بیٹے پر کسی قسم کی کوئی ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔
اس اخلاقی تعلیم کے ساتھ اسلام نے مرد کی طرح عورت کی زندگی کا بھی احترام قائم فرمایا ہے اور کسی بھی قم کی زیادتی کی صورت میں قصاص یعنی بدلہ لینے کا حق عطا فرمایا ہے۔ گویا اسلام نے عورت کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانےاور اسے انصاف دینے پر بھی قانون سازی کی ہے۔
پرورش کا حق
اسلامی تعلیم کے مطابق ہر ایک بچے کو اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہے کہ ذمہ دار لوگ اسے ضروریات زندگی فراہم کریں اور اس کی دیکھ بھال میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ بالعموم لڑکے کی پرورش جس محبت اور توجہ سے کی جاتی ہے لڑکی کی نہیں ہوتی۔ اسلام نے اس تفریق کو ایک ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے اور لڑکی کی پرورش اور تربیت کو باعث ثواب قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
من بلیٰ من ھٰذہ البنات شیئا فاحسن الیھن کن لہ سترا من النار۔
(بخاری کتاب الادب۔ باب رحمۃ الولد و تقبیلہ۔ مسلم ابوب البر والصلۃ باب فضل الاحسان الی البنات)
اللہ تعالیٰ جس شخص کو ان لڑکیوں کے ذریعہ کچھ بھی آزمائش میں ڈالے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ اس کے لیے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔
پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
من عال جاریتین حتی تبلغا جآء یوم القیامۃ انا و ھو ضمّ اصابہ۔
(مسلم ابوب البر والصلۃ باب فضل الاحسان الی البنات)
یعنی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ) جو شخص دو بچیوں کی ان کے جوانی کو پہنچنے تک پرورش کرے گا قیامت کے دن میں اور اس طرح ہوں گے۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر دکھایا۔
پرورش کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے نان و نفقہ کی ذمہ داری قانوناً والد پر عاید فرمائی ہے۔
وَعَلیَ الْمَوْلُوْدِ لَّہ رِزْقُھُنَّ وَ کِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ (البقرۃ: ۲۳۳)
والد پر دودھ پلانے والی کا کھانا اور کپڑے دستور کے مطابق واجب ہیں۔
تعلیم و تربیت
انسان کی ترقی علم سے وابستہ ہے ۔ ان پڑھ انسان اپنی فکری پستی کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتاہے۔ تاریخ کا ایک طویل دور ایسا گزرا کہ عورت کی تعلیم کی ضرورت و اہمیت محسوس نہیں کی گئی لیکن اسلام نے علم کے دروازے مردو عورت دونوں کے لیے یکساں نہ صرف کھلے رکھے ہیں بلکہ پابندیاں ختم کر کے لڑکیوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
”جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، تعلیم و تربیت دے کر شادی کروائی اور حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔
(ابوداؤد کتاب الادب باب فی فضل من عال یتامیٰ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ نے بچیوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے دو لڑکیوں کی بالغ ہونے تک پرورش کی تو وہ قیامت کے روز اس طریقہ سے آئے گا کہ وہ اور میں دونوں ایسے ملے ہوئے ہوں گے۔ (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دو انگلیاں جوڑ کر اشارہ کیا)۔“ (صحیح مسلم)
خود اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایسا عمدہ حسنِ سلوک فرمایا اور ایسی اعلیٰ تربیت کی کہ وہ جنت کی تمام خواتین کی سردار کہلائیں۔
شادی کا اختیار
اس میں کوئی شک نہیں کہ لڑکی کے سرپرست اس کے لیے بہتر رشتہ تلاش کر سکتے ہیں لیکن بعض اوقات سرپرستوں کی طرف سے زیادتی بھی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر غیرمناسب رشتہ بھی تجویز کر دیا کرتے ہیں اس لیے اسلام نے لڑکیوں کو شادی کے لیے اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرنے میں بھی مردوں کے برابر حقوق دیئے ہیں لیکن ولی اور سرپرست کی رضامندی ضروری قرار دی اور یہ بھی اس کے فائدہ کے لیے تاکہ وہ اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے معمولی سی غلطی سے بھی بچ سکے۔
ایک روایت میں ہے کہ خنسا بنت خذام کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف ان کے باپ نے کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح ختم کروا دیا۔
(بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب اذا زوج ابنتہ و ھی کارہۃ)
ب) عورت بحیثیت بیوی
اسلام نے مرد کو حکم دیا کہ جس عورت سے اس کا نکاح ہو اسے لازماً حق مہر ادا کرے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کا بحیثیت بیوی حق قائم کرتے ہوئے اسے خاوند کی رعایا قرار دیا۔ جہاں آپ ﷺ نے عورت کو اپنے خاوند کی فرمانبرداری کا حکم دیا وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ خاوند اپنی بیوی کے ساتھ بہترین دوست والا سلوک کرے اور حسن سلوک سے کام لے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دیکھو تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے اور میں اپنے اہل کے ساتھ اچھا برتاؤ کنے کے اعتبار سے تم سب میں سے بہترین ہوں۔“
(صحیح مسلم)
حق مہر
شادی کے وقت عورت کا ایک حق، مہر کی صورت میں مقرر کیا گیا ہے۔ مہر ایک مالی منفعت ہے جو نکاح کے نتیجہ میں خاوند کے ذمہ بیوی کو واجب الادا ہے۔ حق مہر کی رقم یا کسی بھی چیز کی جو بطور حق مہر ادا کی گئی ہو اس کی مالک منکوحہ ہوتی ہے اوراپنی مرضی سے وہ رقم یا چیز اپنے مصرف میں لا سکتی ہے۔
نان و نفقہ کا حق
شادی سے قبل لڑکی کی پرورش کی ذمہ داری اسلام نے والد پر اور شادی کے بعد شوہر پر اس کی حیثیت کے مطابق عاید کر دی۔
حقِ ملکیت
علاوہ ازیں عورت کو ملکیت کا حق بھی اسلام نے دیا جبکہ اس سے پہلے اسے یہ حق کوئی معاشرہ یا مذہب اور قانون و معاشرہ نہیں دیتا تھا۔ یعنی کسی بھی قسم کی منقولہ و غیر منقولہ جائداد عورت کے نام پر کی جاسکتی ہے۔
حق وراثت
اسلام نے عورت کے لیے ایک حق وراثت قائم کیا ہے۔ عورت کا یہ حق ہر ایک رشتہ کی حیثیت سے قائم کیا گیا ہے۔ حق وراثت ایسا حق ہے جو مسلمان عورت کو دنیا کی تمام عورتوں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ وہ حق ہے جو دنیا کے کسی معاشرہ اور مذہب میں قائم نہیں کیا گیا اور اسلام یہ حق قائم کرنے میں بھی منفرد ہے۔چنانچہ اگر مرد کو بحیثیت باپ، بیٹا اور خاوند حصہ دار مقرر کیا گیا ہے تو عورت کو بھی بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت سے حصہ دار مقرر کیا گیا ہے۔ اسی غرض کے لیے سورۃ النسآءکی آیات نازل ہوئیں جن میں بالتفصیل خواتین کے تمام حقوق بیان کر دیئے گئے تاکہ شریعت کے قائم کردہ اس حق میں کوئی ابہام نہ رہے۔
خلع کا حق
حقوقِ نسواں میں ایک اہم مسئلہ خلع اور طلاق کا ہے۔ نکاح ایک معاہدہ ہے اور اگر فریقین اس معاہدہ کو نبھانے میں ناکام ہو جائیں تو جس طرح طلاق کے ذریعہ خاوند کو علیحدگی کا اختیار دیا گیا ہے اسی طرح عورت کو بھی حق دیا گیا ہے کہ وہ علیحدگی اختیار کر سکتی ہے جسے اصطلاحاً خلع کہتے ہیں جو دو طلاقوں کی قائم مقام ہوتی ہے۔
مطلقہ، خلع یافتہ اور بیوہ کو نکاح کا حق
اسلام نے مطلقہ، خلع لینے والی اور بیوہ خاتون کو دوسرانکاح کرنے کا بھی ارشاد فرمایا ہے اور اسے ثواب کاکام قرار دیا ہے۔ مسلم معاشرہ کو حکم دیا گیا ہے کہ:
”اَنْکِحُوْا الْاَیَامیٰ مِنْکُمْ۔ (سورۃ النور:33)
یعنی تمہارے درمیان جو بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کراؤ۔
خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیواؤں سے بھی نکاح کیے اور مطلقہ خواتین سے بھی نکاح کیے اور یہ اعلیٰ نمونے قائم فرمائے۔
تعدد ازدواج
قانون فطرت اور معاشرہ کے بعض مخصوص حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعدد ازدواج کی ضرورت کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اسلام نے ایک مرد کو ایک زیادہ یعنی چار تک شادیاں کرنے کی اجازت عدل و مساوات قائم کرنے کی شرط کے ساتھ مشروط کی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً۔ (سورۃ النسآء: 4)
یعنی اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرو۔
ج) عورت کے حقوق بحیثیت ماں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی بری رسم کو ختم کر دیا کہ جس میں عرب مبتلا تھا اور وہ بری رسم یہ تھی کہ جب کسی شخص کی وفات ہوتی تو اس کے بیٹوں کی سوتیلی ماں پر اس شخص کا کوئی بیٹا چادر ڈال دیتا اور اسے اپنی بیوی بنا لیتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسم کو ختم کیا اور فرمایا کہ جس خاتون کے ساتھ والد نکاح و خلوت کر چکیں وہ اس شخص کے بیٹوں پر حرام ہو جاتی ہیں۔ پس وہ ان سے نکاح نہیں کر سکتے۔ یوں بطور ماں ان بیوگان کی حرمت قائم فرمائی۔ اور ماؤں سے نکاح حرام قرار دے دیا۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ۔ (سورۃ النسآء:24)
ترجمہ: تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں۔
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہی ہے جس نے عورتوں کو درجۂ ترقی پر پہنچایا اور نہ صرف طبقۂ نسواں کے حقوق کی حفاظت کی بلکہ ان کی عزت و ناموس کی حفاظت کا بھی مستقل انتظام فرمایا۔ حتی کہ ماں کے قدموں تلے جنت کی نوید بھی سنا دی۔
فرمایا:
اِنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّہَاتِ۔
کہ یقیناً جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
حرفِ آخر
گو یہ مضمون ایسا وسیع ہے کہ اس کو الفاظ کی قید میں رکھ کر بیان کرنا اور مکمل کرنا ممکن نہیں لیکن جس حد تک ہو سکتاہے مختصر لیکن اجمالی رنگ میں اس مضمون کو محدود الفاظ کی بندش میں رہتے ہوئے مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ہےاور یہ بھی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی پہلو عورت کے حقوق کا ایسا نہ ہو جس پر کچھ نہ کچھ روشنی نہ ڈالی گئی ہو۔