مغرب کا عمران کے بارے متضاد بیانیہ اور خان صاحب کے اپنے گھلے تضاد ۔
کل مجھے LinkedIn کہ مشہور گروپ
The Prosperity Renaissance
کی مالک اور مینیجر ، میگڈلینا گُرو سو نے پاکستانی ہونے کہ ناطے ، عمران کی جیت پر تبصرہ کہ لیے کہا ۔ اس نے مختلف عمران کہ بارے میں تجزیہ کاروں کے ویڈیو کلپس بھی ساتھ بھیجے۔ الجزیرہ ٹی وی کا بہت دلچسپ کلپ تھا ، میں بہت پریشان ہوا کہ ایک طرف تو کچھ تجزیہ پیسے کی چمک والے ہیں اور کچھ بینانیہ تضاد سے بھرپور ۔ یعنی عمران اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں اور یہ بھی کہ اسٹیبلشمنٹ نے جتایا ۔ عمران ماڈرن اسلام کہ symbol ہیں اور طالبان کہ دوست بھی ۔ عمران سوشل انقلاب لانا چاہتے ہیں لیکن ایلیٹ اور colonial سسٹم کہ زریعے ۔
کچھ اسی طرح کہ تضادات خان صاحب کہ اپنے ۲۲ سالہ سیاسی کیریر کہ بھی ہیں جو کرکٹر ، پلے بوائے اور philanthropist سے شروع ہوا اور سیاستدان پر اہتتام پزیر ہو رہا ہے۔ کبھی انہوں نے کنگ میکر بنتے ہوئے احتساب اور انصاف کی بات کی اور کبھی حکومت میں آ کر غریبوں کی زندگیوں میں ایلیٹ کلاس کہ زریعہ انقلاب کا عندیہ دیا ۔
دراصل عمران کا مقابلہ سیاست میں ایک بیوپاری اور دوسرے بہروپیے سے رہا ۔ دونوں نے عمران کو اپنے غلیظ اور گندے داؤ پیچ سے اپنی پوزیشن متعدد بار بدلنے پر مجبور کیا ۔ بجائے اس کے کہ عمران زمینی حقائق کو فوکس کرتے ہوئے unbending پوزیشن رکھتے وہ بار بار compromise کرتے گئے اور کرتے جا رہے ہیں ۔ پہلے دھرنا ایک دم ختم کیا اور شادی کر لی ۔ پھر شادی بھی ختم کردی اور کڑے احتساب کا پھر سے نعرہ لگا دیا ۔ پھر ایک پیرنی سے شادی رچا لی اور اسی بدنما اور آلودگی والی جمہوریت کہ زریعہ اقتدار میں آنے کی اس کی دعاؤں سے ٹھانی ۔ یہ سوچا بھی نہیں کہ census جعلی تھا ، حلقہ بندیاں partial تھیں اور لاکھوں جعلی ووٹ رجسٹرڈ تھے ۔ عدلیہ آزاد نہیں تھی ۔ نواز اور اسلامی جماعتوں والے کارڈوں کی بوریاں لے کر پولنگ اسٹیشنوں کہ باہر پائے گئے ، باقاعدہ وڈیو کلپس ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا اقتدار کہ لیے ماضی کہ چوروں کو ساتھ ملانا پڑا اور آزاد ممبران کو سابقہ روایت کہ مطابق خریدنا پڑا ۔
وہ ایک نئے پاکستان کا euphoria جو عمر ان کی جیت سے build up ہوا تھا وہ ان کہ حلف اٹھانے سے پہلے ہی دم توڑتا نظر آ رہا ہے ۔ سب ہار گئے ۔ عمر ان کو جتانے والے بھی اور ہروانے والے بھی ۔ قدرت کا یہی فیصلہ ہے ۔ قدرت سیدھی ، سادگی اور سچ کہ رستے اختیار کرتی ہے ، پانی کی طرح ، آپ اسلام آباد کی طرف گاڑی کا رخ کر کہ کراچی کبھی نہیں پہنچ سکتے ۔ آپ کی ان کہ آگے بند باندھنے کی تمام کوششیں ہمیشہ ناکام ہو جاتی ہیں ۔ آج نواز شریف لاکھوں کرتب کرنے کہ باوجود جیل میں پڑا ہے ، بیگم بستر مرگ پر اور بیٹے اشتہاری ۔ کیونکہ قدرت کو اس طرح کہ کاموں میں اسی طرح منظور ہوتا ہے ۔
گروپ نے مجھے اس کا حل پوچھا ، میرے نزدیک کڑا احتساب اور ریفارمز ۔ لُوٹا ہوا پیسہ واپس اور پاکستان کی ترقی کہ پہیہ کو پھر گریس دے کر چلانا ۔ چاہے عمر ان کر جائے یا فوج یا اس کہ کولیشن پارٹنر یا اگلے سال بلی آنگھوں والا جرنیل جس کا کچھ نجومی کہ رہے ہیں ۔ ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ بوسیدہ نظام کا ملبہ بھی عوام پر گر رہا ہے ۔ اب صرف اور صرف یہی ہو گا ، کیونکہ چاروں اطراف سب ملکوں میں یہی ہو رہا ہے ۔ ایلیٹ کی عیاشیاں ختم ۔
۲۲ کروڑ پاکستانی بھی تھک ہار کر یہی چاہتے ہیں ۔ یا وہ اس cause کہ لیے مر جائیں یا مار دیے جائیں گے لیکن یہ ضرور ہو گا ۔ اب بیوریکریسی کہ موج میلے بند کرنے ہوں گے اور ایلیٹ سے عمران کو دامن چھڑانا ہو گا کیونکہ یہ مقابلہ ہی عوام کا ایلیٹ کہ ساتھ ہے ۔ عمران کو حتمی فیصلہ کرنا ہو گا کہ ایلیٹ کو رکھنا ہے یا عوام کی سننی ہے ۔ یہ پرویز خٹک والا معاملہ نہیں چلے گا کہ اپنے سارے رشتہ دار نوکریوں پر لگوا لیے اور جہانگیر ترین کو سوات میں ماربل کی لیزیں دے دیں ۔ کچھ لوگ میرے افسروں پر تنقید کو جو عمران کہ نزدیک پائے جا رہے ہیں فرما رہے ہیں سر حلف تو اُٹھانیں دیں میرا جواب یہ ہے کہ اگر گلالئ کو ریزورز سیٹ پر رکھنے سے پہلے جانچ پڑتال کر لی ہوتی تو بعد کی رُسوائ سے بچ جاتے ۔ میں تو کسی عہدہ کا نہ خواہش مند ہوں نہ درخواست گزار ۔ مجھے پی ٹی آئ ولے نواز کا حمایتی سمجھتے ہیں اور فوج والے عمران خان کا ۔ میں تو اللہ کا بندہ ہوں اور اسی کا رہوں گا ۔ بہت خوش ہوں اس کے اپنے پر فضل و کرم اور رحمتوں سے ۔ آپ سب پالستانیوں کے لیے دعا گو ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔