ان دنوں یہ کالم نگار ملٹری اکاﺅنٹنٹ جنرل آف پاکستان کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وزیر دفاع راﺅ سکندر مرحوم کا فون آیا۔ (وہ پیار یا معصومیت سے جنرل صاحب کہہ کر مخاطب کیا کرتے) انہوں نے بتایا کہ انکے دوست اشرف سوہنا صاحب ممبر پنجاب اسمبلی تشریف لانا چاہتے ہیں۔ سوہنا صاحب آئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ایک بوڑھی بے بس بیوہ کو (جو غالباً سوہنا صاحب کے حلقہ انتخاب سے تعلق رکھتی تھی) کچھ لاکھ روپے مرحوم شوہر کے سرکاری واجبات کے طور پر ملے۔ اس سے ایک شخص نے یہ رقم کاروبار کا لالچ دے کر ہتھیا لی۔ اس شخص کا تعلق ہمارے محکمے سے تھا۔
اس شخص نے بے بس بیوہ کی رقم واپس کی یا نہیں یہ الگ کہانی ہے۔ مختصراً یہ کہ اس نے رقم واپس کرنے کے بجائے ملٹری اکاﺅنٹنٹ جنرل اور اسکے آفس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائر کر دیا کہ یہ لوگ اسکے ”ذاتی“ معاملے میں دخل انداز ہو رہے ہیں اور اپنی سرکاری پوزیشن کا ”ناجائز“ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ موضوع سے غیر متعلق ہے۔ کالم نگار یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ ہے وہ سلوک جو معاشرہ بوڑھی بے بس بیواﺅں کےساتھ روا رکھ رہا ہے۔ کہیں کاروبار کا لالچ دے کر رقم ہتھیا لی جاتی ہے۔ کہیں رقم ”ڈبل“ کرنے کے چکر میں لے لی جاتی ہے اور کہیں ”ہمدرد“ رشتہ دار رقم کو ”حفاظت“ سے رکھنے کےلئے سامنے آ جاتے ہیں۔ کواپریٹو سوسائٹیوں نے جو تباہی مچائی اسکی یاد ابھی تک پسے ہوئے عوام کے حافظہ سے محو نہیں ہوئی۔ ایک اور ادارہ جو کلام پاک کی طباعت کا مقدس کام کرتا تھا، اس نے بھی حسن ظن رکھنے والے وابستگان کو کہیں کا نہ رکھا۔ اس صورتحال میں حکومت پاکستان کا قومی بچت کا ادارہ بوڑھوں اور بیواﺅں کا واحد سہارا ہے۔ آپ تصور کیجئے ستر سال کا ایک بوڑھا ہے یا بیوہ ہے جو ملازمت کے قابل ہے نہ کاروبار کے اسکے پاس زندگی بھر کی کمائی دس بیس یا تیس لاکھ روپے ہیں اس رقم سے ایک کمرے کا مکان تک نہیں خریدا جا سکتا۔ فرض کریں وہ خرید بھی لے اور کرائے پر چڑھا دے تو اس عمر میں کرایہ داروں سے کیسے نمٹے گا؟ ہر ماہ کرایہ وصول کرنے کےلئے دستکیں دیتا رہے گا۔ ایسے میں اس کا واحد سہارا نیشنل سیونگ (قومی بچت) کا ادارہ ہے۔ وہ اپنی زندگی بھر کی کمائی یہاں جمع کرا کے بے فکری سے زندگی کے باقی دن گذار سکتا ہے۔ ہر مہینے اسے یہ ادارہ جمع شدہ سرمایہ کے معاوضہ کے طور پر ایک معقول رقم ادا کرتا ہے۔ جس سے وہ اپنی زندگی کے مصارف پورے کر سکتا ہے اور کسی کا محتاج ہوئے بغیر زندگی کی شام گذار سکتا ہے!
دوسری طرف یہ بوڑھے اور یہ بے بس بیوائیں حکومت پر احسان بھی کر رہی ہیں۔ قومی بچت کا ادارہ جمع شدہ رقوم اکٹھی کر کے اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔حکومت کو جب قرض کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اس ادارے سے قرض لیتی ہے اگر حکومت پرائیویٹ بنکوں سے قرض لے تو بنک بھاری شرح سود پر قرض دیتے ہیں۔ اسکے برعکس قومی بچت کا ادارہ کم شرح پر قرض مہیا کر دیتا ہے۔
چاہئے تو یہ کہ حکومت اس ادارے کو مزید مضبوط بنائے اور اسکی بہبود اور صحت و سلامتی کا خیال رکھے لیکن بدقسمتی سے حکومت ہمیشہ مفاد پرست گروہوں کے ہاتھ میں کھیلتی ہے اور کھیلتی رہی ہے۔ کبھی چینی چرانے والے اور عوام سے اربوں روپے ناجائز منافع کے طور پر لوٹنے والے کابینہ میں براجمان ہوتے ہیں کبھی آٹے کی قلت پیدا کرنےوالے پالیسی سازی پر قابض ہوتے ہیں۔ کبھی سیمنٹ مہنگا کرنےوالے اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی جعلی دوائیں بنانے والے عوام کی گردنوں پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ اب ایک اور مافیا قومی بچت کے محکمے کے درپے ہو رہا ہے۔ قومی بچت کے مراکز میں افراد کے علاوہ ادارے بھی اپنی بچتیں جمع کرا سکتے ہیں۔ یہ صورتحال نجی بنکوں کو کسی طرح قابل قبول ہوسکتی تھی؟ چنانچہ گذشتہ ہفتے بنکوں کے مافیا نے وزارت خزانہ کے ارباب قضا و قدر سے ایک انوکھا فیصلہ ”کرایا“ ہے۔ اس انوکھے فیصلے کی رو سے افراد تو قومی بچت کے مراکز میںرقوم جمع کرا سکتے ہیں لیکن اداروں کو اسکی اجازت نہیں ہو گی چنانچہ اب ادارے اپنی رقوم مجبوراً بنکوں میں جمع کرائینگے۔ بنک جمع کرانےوالوں کو تو معاوضہ برائے نام دینگے لیکن جب یہ جمع شدہ رقوم حکومت کو قرض کے طور پر دینگے تو کئی گنا زیادہ منافع لیں گے! اس انوکھے فیصلے کی رو سے بنکوں میں رقوم جمع کرانےوالے اداروں کو بھی نقصان ہو گا۔
قومی بچت کے ادارہ کو بھی نقصان ہو گا اور حکومت کو بھی نقصان ہو گا۔ فائدہ صرف ایک فریق کو ہو گا اور وہ فریق ہے نجی بنک!اسے کہتے ہیں اسی شاخ کو کاٹنا جس پر بیٹھا جاتا ہے! اس ملک میں عوام اور عوامی اداروں کو ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے اور خودکشی کی یہ روایت بدستور جاری ہے۔ قومی بچت کے ادارے کے سربراہ ظفر شیخ ایک منجھے ہوئے بنکار ہیں اور پوری قوت سے مفاد پرست گروہوں کی مزاحمت کر رہے ہیں لیکن وزارت خزانہ ایک ایسا مگر مچھ ہے جس کے دانت بہت تیز ہیں۔ یہ مگر مچھ عوام کو ایک کینچوے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ تاہم اگر ورلڈ بنک سامنے آ جائے یا نجی بنک اس مگر مچھ کی دم پکڑیں تو یہ خود ایک بے ضرر کینچوے کی شکل اختیار کر لیتا ہے!