سامنے جھیل تھی درختوں میں گھری ہوئی۔ جھیل کے پار آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کی عمارت تھی جس پر اس 223 سالہ پرانے ملک کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ بائیں طرف قومی لائبریری تھی۔ لائبریری کے بالکل ساتھ جھیل کے کنارے ارغوانی رنگ کے پیڑوں کی قطار تھی۔ منظر ایسا تھا کہ بس جان نکال کر ہتھیلی پر رکھ دیتا تھا۔ دارالحکومت کینبرا میں پہلی بار آمد پر جس اپارٹمنٹ میں ٹھہرا ہوا تھا، یہ جاں فزا منظر اُس کی کھڑکیوں سے نظر آ رہا تھا۔
کینبرا کےلئے جگہ کا انتخاب 1908ءمیں ہو گیا تھا۔ تعمیر کا کام 1913ءمیں شروع ہوا۔ پارلیمنٹ 1927ءمیں ”عارضی“ عمارت میں منتقل ہو گئی لیکن اسکے بعد ساٹھ سال تک کام ہوتا رہا۔ موجودہ پارلیمنٹ کی عمارت 1988ءمیں آباد ہوئی۔
کینبرا کے دوستوں نے جب پوچھا کہ پارلیمنٹ ہاﺅس کس وقت جانا پسند کرو گے تو جیسے میری چیخ ہی تو نکل گئی۔ کہاں میں اور کہاں آسٹریلیا کی پارلیمنٹ! مجھے اپنے ملک کی پارلیمنٹ کی عمارت یاد آ گئی۔ اُسکے اندر جانا تو دور کی بات ہے، تین تین میل تک پولیس یوں پھیلی ہوئی ہوتی ہے جیسے ایٹمی اثاثے یہیں رکھے ہیں۔ اس علاقے میں پائے جانےوالے پاکستانیوں کے گُردے، انتڑیاں، پھیپھڑے، جگر اور تلی باہر نکال کر خردبین سے دیکھے جاتے ہیں اور پھر انہیں آگے جانے کی اجازت دےکر یوں احسان جتانے کا تاثر دیا جاتا ہے جیسے گرین کارڈ دیا گیا ہے! اس پس منظر میں جب میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کے اندر جانے کے خیال پر پہلے ہنسا اور پھر رویا تو دوست اصل معاملہ سمجھ گئے۔ انہوں نے تسلی دی کہ نہیں! ان بے وقوفوں نے ہر شخص کےلئے پارلیمنٹ کے دروازے کھول رکھے ہیں۔
پولیس تھی نہ رکاوٹیں، پہریدار تھے نہ تلاشیاں۔ صرف صدر دروازے پر سکینر لگا تھا جس میں سے عام ملاقاتی کو بھی گزرنا پڑ رہا تھا اور دونوں ایوانوں (بالا اور زیریں) کے ارکان کو بھی! مجھے بتایا گیا کہ کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی ایم این اے تشریف لائے تو انہوں نے سکینر سے گزرنے سے انکار کر دیا۔ اُن کا اصرار تھا کہ مجھے اس ”بے عزتی“ سے بچایا جائے لیکن جس قانون سے خود آسٹریلیا کے ارکان پارلیمنٹ کو استثنا نہیں تھا، اُس سے ہمارے ایم این اے کو کیسے مستثنٰی کیا جاتا؟
طلبہ کے گروہوں کے گروہ آ رہے تھے۔ معلوم ہئوا کہ یہ روز کا معمول ہے۔پارلیمنٹ کی کارروائی کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ میں پارلیمنٹ کے وسیع و عریض برآمدوں میں گھوم رہا تھا۔ دیواروں پر تصویروں کے ذریعے پوری تاریخ دکھائی گئی تھی۔ معلومات عام فہم انداز میں درج تھیں۔ سیاحوں کے غول آرہے تھے اور جا رہے تھے۔ کیفے میں رش تھا۔ جب میں سینیٹ ہال دیکھ کر دوسری طرف نکلا تو تب میں نے وہ چیز دیکھی جس نے مجھے سکتے کی کیفیت کی ڈال دیا۔
برآمدوں کے درمیان ، ایک بہت ہی نمایاں مقام پر، ایک چوڑے ستون پر، بائبل کی تصویر تھی۔ اور اس پر لکھا ہوا تھا THE BOOK THAT CHANGED THE WORLD یعنی یہ ہے وہ کتاب…. جس نے دنیا کو تبدیل کر دیا!
میں نے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا…. کیا اس سے زیادہ خلاف واقعہ…. اس سے زیادہ غلط…. بات لکھی جا سکتی ہے؟ نہیں! بائبل! بائبل کے کسی ایک نسخے پر تو آج تک اتفاق ہی نہیں ہو سکا۔ تاریخ میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں گزرا جسے بائبل حفظ ہو۔ اور پھر بائبل نے کون سی دنیا کو تبدیل کیا ہے؟ کون سے قوانین دئیے ہیں؟ کیا اس میں معاشرت کے طریقے سکھائے گئے ہیں یا حکومت کرنے کے اسالیب موجود ہیں؟ میں مسلسل ستون کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں ایک صدمے سے گزر رہا تھا۔ اچانک میرے کاندھے پر ایک نرم ہاتھ آ لگا اور پھر لگا رہ گیا۔ میں نے دائیں طرف دیکھا۔ یہ گوری رنگت کا ادھیڑ عمر آسٹریلوی تھا۔ کھچڑی بال، نیلا سوٹ، سفید سلک کی قمیض پر دھاری دار نکٹائی۔
”میں تمہیں بہت دیر سے دیکھ رہا ہوں، تم تناﺅ کی کیفیت میں ہو۔ مجھے معلوم ہے تمہیں کس بات سے دھچکا لگا ہے؟“
میں خاموش تھا! میں کیا کہتا! اُس کا ہاتھ بدستور میرے کاندھے پر تھا!
”کیا تم کیفے تک چل کر میرے ساتھ کافی کی ایک پیالی پی سکتے ہو؟“
میں چل پڑا۔ اُس نے اپنا ہاتھ میرے کاندھے سے نہ ہٹایا۔ کیفے میں پہنچ کر اُس نے مجھے ایک ٹیبل پر بٹھایا۔ اور خود قطار میں کھڑے ہو کر کافی کے دو کپ لے آیا۔
”میں فلاں یونیورسٹی میں تاریخ کا استاد ہوں۔ پروفیسری کرتے بیس سال ہو گئے ہیں۔ ان بیس سالوں میں سے پندرہ سال میں نے صرف مسلمانوں کی تاریخ پڑھائی ہے۔ یہ مسلمانوں کی وہی تاریخ ہے جسے تم اسلامی تاریخ کہتے ہو۔ خیر‘ یہ ایک اور موضوع ہے۔ اس وقت تو ہم وہ باتیں کریں گے جن سے تم تناﺅ کی اس شدید کیفیت سے باہر آ سکو۔
”بائبل نے کونسی دنیا….
اُس نے میرا فقرہ پورا ہی نہ ہونے دیا۔
”تم درست کہتے ہو۔ بائبل کے کسی ایک نسخے پر آج تک اتفاق نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف تمہاری مقدس کتاب قرآن ایک ناقابل تردید معجزہ ہے۔ وہ جو ہیوسٹن میں قرآن پڑھ رہا ہے اور وہ جو فجی میں اور وہ جو ناروے میں اور وہ جو جنوبی افریقہ میں پڑھ رہا ہے، ان سب کے ایک لفظ میں زیر زبر پیش تک کا فرق نہیں ہے۔ دنیا کو تبدیل کرنے میں جو کردار قرآن کا ہے، بائبل اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ادا کر سکی۔ یہ ساری باتیں درست ہیں لیکن اس ستون پر پھر بھی بائبل ہی کی تصویر ہو گی!
”کیوں؟“ میں نے جارحانہ لہجے میں پوچھا۔
”اس لئے کہ دنیا کا ایک اصول ہے۔ وہ یہ کہ ثقافت اُس کی چلے گی جس کا زور ہو گا! جب تمہارا زور تھا تو ملٹن کی تصنیف سے لےکر سسلی کے باغات تک…. تمہارے ادب اور تمہارے کلچر کی ہر جگہ اور ہر شے پر چھاپ تھی۔ اور اب جس مغرب کا زور ہے بائبل اُس کی ثقافت ہے اور یہی ثقافت نمایاں ہو گی! تم غصہ تو کر سکتے ہو، حقائق بھی تمہارے ساتھ ہیں لیکن دنیا میں تہی دست کو کبھی کچھ نہیں ملا۔
اب تم پوچھو گے کہ مغرب کا زور کیوں ہے؟ اسکی وجہ بہت آسان ہے۔ دنیا میں زور اور طاقت اُسکے پاس ہو گی جو قرآن پر عمل کرےگا۔ مغرب کو اس حقیقت کا علم ہو گیا۔ افسوس! تم مسلمانوں کو اس حقیقت کا پتہ نہ چل سکا۔ تم خود دیکھ لو…. قرآن میں لکھا ہے، جھوٹ نہ بولو۔ ہم اہل مغرب جھوٹ نہیں بولتے۔ ہمارے دکاندار، ہمارے بچے، ہمارے ٹیکس دینے اور لینے والے، ہمارے کارخانہ دار، ہمارے زمیندار۔ کوئی بھی جھوٹ نہیں بولتا۔ تمہارے ہاں صبح سے شام تک سب جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن میں لکھا ہے کہ وعدہ ایفا کرو۔ ہم اس پر عمل کرتے ہیں تم نہیں کرتے۔ قرآن میں لکھا ہے ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ تم کرتے ہو ہم نہیں کرتے۔ قرآن میں علم پر اور تسخیرِ کائنات پر زور دیا گیا ہے۔ ہمارا ہر مرد اور ہر عورت خواندہ ہے۔ اور تسخیرِ کائنات کےلئے یونیورسٹیوں میں رات دن پڑھائی اور تحقیق ہو رہی ہے۔ تمہارے رسول نے کہا تھا کہ علم سیکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے لیکن تمہارے ہاں خواندگی بیس فیصد سے زیادہ نہیں۔ تمہاری یونیورسٹیاں بدعنوانی سفارش اور سیاست کے غلیظ گڑھ ہیں‘ ہماری یونیورسٹیوں میں چار چار سو سال سے داخلے اور امتحانوں کی مقررہ تاریخوں میں تبدیلی نہیں ہوئی۔ تمہارے قرآن میں ہے کہ مشورے سے حکومت کرو۔ ہم نے اسکی روشنی میں ایسا نظام بنایا ہے کہ ہمارے صدر اور وزرائے اعظم پارلیمنٹ کے سامنے اور ہماری پارلیمنٹ عوام کے سامنے بے بس ہے۔ تمہارے اٹھاون ملکوں میں سے تین کو چھوڑ کر ہر جگہ آمریت اور بادشاہت ہے۔ تمہارے خلیفئہ راشد نے عوام سے کہا تھا کہ میں غلط چلوں تو مجھے سیدھا رکھو۔ خدا کی قسم! ہماری حکومتیں غلط چلیں تو ہم انہیں تکلے کی طرح سیدھا کر دیتے ہیں۔ ہمارے حکمران ایک پائی کی بددیانتی نہیں کر سکتے اور کریں تو بچ نہیں سکتے۔ قرآن میں …. لکھا ہے کہ امانتیں ان کو دو جو اہل ہیں۔ لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ ملازمتیں۔ جو سب سے بڑی امانت ہیں۔ چودھریوں شریفوں گیلانیوں اور قائم شاہوں کی سفارش سے ملتی ہیں اور امین فہیم کی صاحبزادی کو بغیر کسی امتحان کے فارن سروس میں تعینات کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی چوہدری ہے نہ امین فہیم۔ اسی لیے تو مسلمان ملکوں سے ہزاروں لاکھوں اعلا تعلیم یافتہ لوگ آ کر ان ملکوں میں با عزت روزگار حاصل کر رہے ہیں۔ قرآن میں لکھا ہے کہ کوئی مالک ہے نہ غلام۔ صرف نیکی بڑا یا چھوٹا ہونے کا معیار ہے۔ لیکن تمہارے ہاں بلوچستان میں آج 2011ءمیں بھی چھ بڑے نواب ہیں جن کے سامنے بلوچستان کا ہر باشندہ غلام سے بھی کم تر حیثیت کا مالک ہے۔ تم کاریں اور ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل فون، جہاز اور آبدوزیں، ٹرینیں اور لائف سیونگ ادویات۔ ہر چیز ہماری ایجاد کردہ استعمال کر رہے ہو، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ثقافت تمہاری نمایاں ہو؟
جس دن تم قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر سچائی دیانت اور علم کو اپنا لو گے تو پھر اس ستون پر بھی تمہاری مرضی کی تصویر لگ جائےگی لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ تم جھوٹ اور خیانت میں ڈوبی ہوئی زندگی گزارو، تمہارے دراز ریش تاجر ٹیکس چوری کریں اور ملاوٹ کریں، تمہارے رہنما سرمایہ کاری کےلئے ہمارے ملکوں کو ترجیح دیں، تمہارے علما مذہب کو سیڑھی کے طور پر استعمال کریں، تمہاری یونیورسٹیاں سیاسی بونوں کا گڑھ ہوں اور اساتذہ کو وہاں باقاعدہ پیٹا جائے، خلافت کا نعرہ وہ لوگ لگائیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی تنظیموں میں بھی اپنی اولاد ہی کو اپنا جانشین بنائیں اور منتخب ایوانوں میں اپنی غیر منتخب بیٹیوں ہی کو بھیجیں، تمہارے ہاں دنیا کا قدیم ترین فیوڈل اور سرداری نظام ہو۔ اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے۔ تم قرآن کےلئے آنسو بھی بہاﺅ۔ معاف کرنا۔ یہ مگرمچھ کے آنسو تو ہو سکتے ہیں، درد کے آنسو نہیں ہو سکتے!
http://columns.izharulhaq.net/2011_08_01_archive.html
“