مگر اک بات جو دل میں تھی جس کا غم بہت ہے
’’دس دیسی مرغیاں قریے سے منگوائی ہیں‘‘ایک دوست عزیز نے کل اطلاع دی ہے ! ؎
میں اتھے تے ڈھولا تَھل اے
مَینڈی اللہ خدائی آلی گل اے
اب کیا کہا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ نوشِ جان فرمائیے اور انتساب فقیر کے نام کر دیجیے۔ یہاں انتساب نہیں‘مناسب لفظ’’ایصالِ ثواب‘‘ ہے لیکن اس لیے احتراز کیا کہ اس میں فقہی اختلافات ہیں۔ فتویٰ لگنے کا احتمال ہے ۔ کیا زمانہ تھا کہ تکفیرمیں بھی رکھ رکھائو تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا تھا کہ فلاں دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اب تو ’’کافر‘‘کا لفظ اتنا ارزاں ہو گیا ہے جیسے پاکستانیوں کا خون!سو یہ سوال اُٹھ سکتا تھا کہ یہاں مُردوں کو ایصالِ ثواب کرنے پر جھگڑے ہیں‘یہ زندہ آدمی ایصالِ ثواب چاہتا ہے!
دیسی مرغی کے عُشاق دو انواع کے ہیں۔ ایک وہ جو اِس فقیر کی طرح دیہاتی پس منظر کے ہیں اور فارمی مُرغی کو قبول کرنے سے قاصر۔ گائوں میں پلا بڑھا شخص تین چیزوں سے ڈرتا ہے‘ فارمی مرغی سے‘ چائے میں ڈالنے کے لیے پائوڈر والے دُودھ سے اور بازار سے لائے ہوئے تھیلے والے آٹے سے۔ دوسرے وہ بدبخت جنہیں اس حقیقت کا علم ہے کہ وطن عزیز میں فارمی مرغیوں کو مہیا کی جانے والی خوراک (فیڈ)پر کوئی کوائلٹی کنٹرول نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے سکتا ہے ۔ جہاں انسانوں کو فراہم کی جانے والی خوراک میں پانچ ہزارملاوٹیں ہیں‘ وہاں فارمی مرغیوں کی خوراک کو کون چیک کرے گا۔ چین میں جب انسپکٹر مرغیوں کی فِیڈ چیک کرتا ہے تو چیک کرنے کے لیے پھکا مار کر خود کھاتا ہے۔ پوری مہذب دنیا میں یہ فِیڈ حکومتیں چیک کرتی ہیں۔ یہ بات ڈھکی چُھپی نہیں رہی‘پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں پر دہائی دی جا چکی کہ لاہور اور قصور کے علاقوں میں‘تمام مردہ جانوروں کو (بشمول گدھوں اور کتوں کے)فِیڈ بنانے والے لے جاتے ہیں۔ پنجاب کے حاکمِ اعلیٰ وفاقی وزارتِ خارجہ کے فرائض سے فارغ ہوئے تو عوام کی ہلاکت کے اسباب پر توجہ دیں گے۔ فی الحال تو ان کی خدمت میں ایک عام شہری یہی عرض کر سکتا ہے ؎
میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مرے سر پہ بُوم ہے‘ زاغ ہے مرے ہاتھ میں
کیا ستم ہے کہ شہروں میں پیدا ہونے والے تو دیہی اکل و شرب سے محروم تھے ہی‘ اب وہ بچے بھی جو قریوں میں خود دہقانوں کے گھروں میں جنم لے رہے ہیں‘ اُن مزوں سے محروم ہیں جو ان کے ماں باپ اور دادا نانا نے کیے تھے۔ بلکہ یہ دہقان زادے تو دُہرے نقصان کا شکار ہوئے۔ برگر اور
پیزا تک رسائی ہی نہیں اور جو تھا ‘وہ غائب ہو گیا۔
نصف سے زیادہ دنیا کے دسترخوانوں پر بیٹھنے کے مواقع
ملے لیکن گائوں کے نائو نوش کا ذائقہ تالو سے کبھی محو نہ ہوا ؎
یہ سنگِ مر مر‘ یہ شاخِ انگور‘ یہ کنیزیں
مگر کوئی کھینچتا ہے مٹی کے گھر کی جانب
منیلا میں انناّس اور ناریل کے دودھ سے بنی ایسی سویٹ ڈش پیش کی گئی کہ پرستان میں بھی نہ ہو گی۔ کوالا لمپور میں تربوز کا رس پہلی بار پیا۔ ترمذ اور جنیوا کے قدیم شاہی محلات میں صدر کریموف نے دعوتیں کیں جو گھنٹوں پر محیط تھیں۔ کورس گننے میں نہیں آ رہے تھے۔ اُزبک پلائو اور ساتھ وسط ایشیائی رقص ! سرما تھا جب تاشقند میں خربوزہ کھایا۔ اتنا شیریں کہ سکتہ طاری ہو گیا۔ میزبانوں نے معذرت کی کہ سرما میں ہمارے میوے پھیکے رہ جاتے ہیں ؎
ثمر بہشت کے تھے‘ حُسن ترکمانوں کا
خوش آ رہا تھا مزہ دوسرے جہانوں کا
قونیہ اور استانبول میں گوسفند کا گوشت اور چھاچھ‘ جو ترکوں کا قومی مشروب ہے‘ اپنی مثال آپ ہے۔ اردن میں بحرِ مردار کے کنارے لبنانی کھانا کھایا۔ سٹارٹر ہی بیسیوں تھے۔ عمّان میں ایک اردنی دوست کو ڈھونڈ نکالا جو نیپلز (اٹلی) میں کلاس فیلو تھا۔ نیو ایئر نائٹ تھی۔ عرب چاول پکاتے ہیں تو چلغوزوں کی دبیز تہہ میں چُھپا ہی دیتے ہیں۔ اُس بریاں گوشت کا عشرِ عشیر بھی بس سے باہر تھا جو وہ کھلانے پر مصر تھا۔ فاس ‘دارالبیضا (کاسا بلانکا) اور رباط میں ’’تاجین‘‘ اور ’’قوس قوس‘‘ ،مراکشی ڈشیں جو پوری دنیا میں معروف ہیں‘ کھائیں۔ ویسٹ کوسٹ پر وینکووور میں سِی فُوڈ جو اپنی مثال آپ تھا۔ اُس ضیافت میں بائیں طرف فِجی کا ایک مسلمان مندوب تشریف فرما تھا۔ ایک پودا نما سمندری جانور آیا تو اس نے زانو دبا کر سرگوشی کی کہ یہ ہم نہیں کھائیں گے۔ روا نہیں ہے۔ وینکووور ریاست کا صدر مقام نہیں حالانکہ دنیا میں رہنے کے بہترین مقامات کی فہرست پر اکثر اول آتا ہے۔ برٹش کولمبیا کا دارالحکومت وینکووور سے ساٹھ ستر میل دور‘ وکٹوریہ ہے جو جزیرہ ہے۔ یہاں مصالحہ‘ چائے اور انڈین ڈشیں لاجواب ملیں۔ بیجنگ میں اہلِ کاشغر کا پکایا ہوا سالم بکرا جو پکنے کے بعد اپنی ٹانگوں پرکھڑا تھا کسی اور دنیا کا لگتا تھا ۔
غرض مانٹریال اور نیو یارک سے لے کر میکسیکو تک‘بارسلونا سے لے کر قرطبہ اور غرناطہ تک‘ایڈنبرا سے لے کر برسلز تک ۔ یہاں تک کہ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو تک انواع و اقسام کے کیا ماکولات اور کیا مشروبات قساّمِ ازل نے مقدر میں لکھے لیکن رات کی روٹی کے اُس چوتھائی حصے کا مزا آج تک نہیں بھولتا جو دادی جان رات کو دُودھ والی چاٹی میں ڈالتی تھیں اور صبح دہی کے ساتھ ملتا تھا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد اَدھ رڑکا اور میٹھی لسّی مٹی کے پیالوں میں ! ؎
بھرے ہوں گے شراب و شہد سے مٹی کے برتن
پسِ دیوارِ امکاں تو مرا مہماں رہے گا
تنور سے اُتری ہوئی روٹی میں انگلیوں سے کیے گئے گڑھے جن میں مکھن رچ بس جاتا تھا اور شکر اور گھی سے بھرے ہوئے پیالے!مکھڈی حلوے سے بھرے ہوئے طباق جن پر چاندی کے ورق لگتے تھے ۔ اب تو جدّت پیدا کر دی گئی ہے پنڈی گھیب والے ’’شیشہ حلوہ‘‘ بنانے لگے ہیں لیکن پہلے دو ہی نام تھے ’مکھڈّی یا کالا باغ کے حوالے سے باغیا‘ جسے اہلِ دیہہ باگیا کہتے تھے!
پھر جس دن ’’گاہ ‘‘ ہوتا تھا یعنی گندم کے گٹھو ں سے بھوسہ اور دانے الگ کیے جاتے تھے‘ تو خندق کھودی جاتی تھی جسے ’’چَر‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس میں آگ جلتی تھی۔ اوپر درجنوں مٹی کے بڑے بڑے کٹوے ہوتے تھے ۔ گوشت اپنی ہی چکنائی میں پکتا تھا اور وسط ایشیا اور افغانستان کے پکوانوں کے مقابلے کا ہوتا تھا۔ تب تھریشر کی مشینیں نہیں تھیں ۔ گندم کے گٹھوں کو کھلیان میں پھیلا دیا جاتا تھا۔ ان پر بیل دوڑتے تھے اور تاراج کرتے تھے ‘ یوں کہ دانہ دانہ الگ ہو جاتا تھا۔ تب ایلومینیم کے بنے ہوئے بھڑولے بھی نہیں تھے۔ مٹی کی بنی ہوئی سکاریوں میں غلّہ ذخیرہ کیا جاتا تھا۔
ایک قریبی عزیز افیون کے عادی تھے ۔ گوشت ان کی مجبوری تھی۔ ان کے ساتھ شکار کے لیے بستی بستی گھومتے تھے۔ تیتر چکور، خرگوش ‘ ہرن۔ وہ خود ہی پکاتے تھے۔ بعد میں فاروق لغاریوں اور عمران خانوں نے اِس مظلوم علاقے سے ہرنوں کا خاتمہ کر دیا۔
سہ پہر کو بھٹیارن کے ہاں جا کر بُھنی ہوئی مکئی یا چنے لیتے تھے۔ کھیتوں سے آئے ہوئے پتوں والے سبز چنے تنور میں رکھ دیے جاتے تھے کہ خستگی آ جائے۔ کبھی کبھی سیاہ چنے‘ جنہیں نانا فارسی میں ’’نخودِ سیاہ‘‘ کہتے تھے‘ دوپہر کو تنور میں برتن بند کر کے رکھ دیے جاتے تھے اور سہ پہر کو چاٹ کھائی جاتی تھی ۔ باجرے کے خوشوں کا اپنا لطف تھا۔ باجرے کا میٹھا آٹا بچوں کے لیے خصوصی طور پر تیار ہوتا تھا۔ منہ میں بھر کر ایک دوسرے کو کہا جاتا تھا۔’’کہو پھپھی‘‘ تو منہ سے باہر آ جاتا تھا۔
اَدھ پکی گندم کے دانے بریاں کر کے کھائے جاتے تھے جسے بُھوٹی اور بعض علاقوں میں آہبو کہتے تھے۔ جَو کے ستوّ بھی اسی طرح بنائے جاتے تھے۔ بزرگ ستوّ پیتے تھے تو بچے خشک ستوئوں میں گھی اور شکر ڈال کر کھاتے تھے۔
اِس خطے کے کھیت اُس وقت تک مونگ پھلی کی نقد آور فصل کی نذر نہیں ہوئے تھے۔ جو فصل آج کل مونگ پھلی کی ہے وہ پہلے خربوزوں کی ہوتی تھی۔ ہر رنگ کے اور ہر نسل کے خربوزے ‘ بوریوں اورگدھوں کے حساب سے منگوائے جاتے تھے۔ خوشبو سے حویلی کیا‘گلیاں تک مہکتی رہتی تھیں۔ اب ریڑھیوں پر ایک جیسے خربوزے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ بھی شیور کے ہیں۔
مُرنڈوں کی انگنت قسمیں تھیں۔ چاول کے مرنڈے‘ چنوں کے مرنڈے‘ گندم کے مرنڈے‘ باجرے کے مرنڈے ۔ جوار کی میٹھی پنیاں بنتی تھیں۔ سُوجی کی میٹھی روٹی‘ سفید سنگِ مر مر کے گول توا نما چبوترے پر رکھ کر بنائی جاتی تھی۔ اِسے ’’پاپڑی‘‘ کہتے تھے۔ کبوتر کا گوشت عام تھا۔ ہر تیسرے گھر کے اپنے کبوتر تھے۔ فضائوں میں تازہ دم ہو کر ۔ واپس خود بخود اپنی اپنی کُھڈی میں آ جاتے تھے!
یاد ساتھ دے رہی ہے نہ کالم کی تنگ دامانی ؎
مزے سارے تماشا گاہِ دنیا میں اٹھائے
مگر اک بات جو دل میں ہے جس کا غم بہت ہے