ہمارا خدا سے پہلا تعارف، کان میں دی گئی اذان نہیں، بلکہ ابا کی نمازیں اور دعائیں تھیں… ابا چھے وقت کے نمازی تھے اور نوافل اس پہ مستزاد ..
ہوش سنبھالنے تک خدا ہمارے لیے گویا فیملی ممبر بن چکا تھا… صبح تڑکے کی نماز سے رات سونے کی دعا تک، وہ ساتھ ہی رہتا تھا.. یقیناً سوتا بھی ساتھ ہی ہو گا…
قرآن ناظرہ مکمل کرانے کی ابا کو بہت جلدی تھی، اور خدا کا کرم رہا کہ ہم دماغی طور پہ بہت تیز نہیں تھے، سو حفظ سے بچ گئے… ناظرہ مکمل کیا پھر سکول کی کتابیں ہاتھ میں دے دی گئیں…
سکول شروع کر چکے تو جماعتیں پھلانگتے آگے بڑھنے لگے.. شرارتی تھے مگر ابا کے خوف نے شرارتیں اندر ہی دفن کرا دی تھیں.. ہر جماعت میں اول آنا لازمی تھا، بلکہ جیسے نماز فرض ہوتی ہے ناں ویسے فرض تھا…
جیسے تیسے پانچویں تک تو ہر جماعت میں اول آتے رہے مگر چھٹی میں ساتھ کے گاؤں سے ڈاکٹر زیدی صاحب کا بیٹا ہم جماعت ہو لیا… باپ ڈاکٹر، اماں استاد سو ذہانت خون میں تھی… سو چھٹی جماعت میں عباس زیدی اول رہا اور ہم دوسرے نمبر پہ….
گھر آ کے وہ مار پڑی کہ پوچھیے مت… ابا سخت تلوے کی چپل پہنتے تھے، اس کمینی چپل نے ہمارے سر، کندھے، پیٹھ مطلب سبھی پہ نشان چھوڑے…
اور یہ مار ہمارا بغاوت کی طرف پہلا قدم تھا… ساتویں میں پھر دوسرے نمبر پہ آنے پہ پھر چپل باری ہوئی اور ہم باغی کیا ہوتے، عادی ہو گئے ، سوچا کہ جب کھانی ہی مار ہے تو اندر دفن شرارتیں کیوں نہ دوبارہ زندہ کی جائیں سو آٹھویں میں تیسرے، نویں میں چوتھے اور دسویں میں پانچویں نمبر پہ آنے کے بعد ابا ہم سے مایوس اور ہم پڑھائی سے دور ہو چکے تھے….
سکول کے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نمازیں چلتی رہیں.. فجر سے عشا تک باجماعت نمازیں ہم پہ فرض تھیں… سو جیسے ہمارا گھر، خدا کا دوسرا گھر تھا سو اسی طرح مسجد، ہمارا دوسرا گھر تھی…
جمعہ، عیدین، اور دیگر مذہبی و فرقوی تہواروں پہ ہم نعت بھی پڑھا کرتے تھے، اور اکثر جمعہ کی نماز کے بعد ایک گمنام فون گھر کے فون پہ آتا تھا، کوئی اور اٹھاتا تو کٹ جاتا، ہم اٹھاتے تو کوئی دوشیزہ ہماری آواز کی تعریف کرتی تھیں …
مسجد کی داہنی دیوار پہ تین چار عدد فریم شدہ عبادات درج تھیں… جن میں پورے ہفتے کا شیڈیول ہوتا تھا کہ فلاں دن اتنی بار فلاں ورد کرنے سے کتنی جنتیں ملتی ہیں، کتنے ثواب کے پہاڑ قیامت کے دن ہمارے نام کے کھڑے ہوں گے، کیسے عمر بھر کی نمازوں کا ثواب ملتا ہے وغیرہم…
سو ہم اُن فریم شدہ عبادات کے انوسار ، مکمل جنتی، دنیا جہاں کے ثوابات کے مالک اور ہر دینی عبادت و فرائض سے فارغ ہو چکے تھے..
چاہیے تو یہ تھا کہ کچھ فرشتے اترتے، ہمیں دھوپ میں چھاؤں دیتے، چھاؤں میں بہار دیتے، بہار میں تازہ پھل دیتے، پھلوں میں جنتی سیب دیتے، جو بہتر حوریں وہاں ہماری منتظر ہیں، ان میں سے دس بارہ ہی بھیج دیتے،
مگر ایسا کچھ ہوا نہیں…
حالانکہ ہم اور خدا، دونوں ایک دوسرے کے گھر کے بندے تھے، مگر ایسا کچھ ہوا نہیں..