مادری زبان ، بدیسی یلغار اور ثقافتی رگڑ
( انیتا ڈیسائی کے ناول ’ In Custody ‘ اور اس پر بنی اسماعیل مرچنٹ کی فلم پر ایک نوٹ )
قیصر نذیر خاورؔ
ایسے معاشرے جو بار بار بیرونی حملہ آوروں کی آمد کا شکار ہوتے ہیں وہ ان فاتح بدیسیوں کی وجہ سے جہاں اور بہت سی سماجی و معاشی اور ثقافتی شکست و ریخت کا شکار ہوتے ہیں وہاں ان کی مقامی و مادری زبانیں بھی متاثر ہوتی ہیں ۔ برصغیر ہند میں مغلوں کے زمانے میں یہاں کی مقامی زبانوں نے ایک ملغوبہ’ لشکری‘ زبان کی اختیار کی جو بعد میں ’ اردو‘ کہلائی جس کی بنیاد ’ فارسی‘ تھی جسے یہ وسط ایشائی حملہ آور اپنے ساتھ لے کر آئے تھے ۔ یہ زبان جب بالغ ہوئی تو بہت سے مقامیوں نے اپنی اپنی مادری زبان چھوڑی اوراسے اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ اہم مثالوں میں محمد اقبال ( پیدائش ؛ سیالکوٹ ،تعلیم ؛ سیالکوٹ و لاہور ، جو بعد میں علامہ اور شاعر مشرق کہلانے کے علاوہ ’ سر‘ بھی کہلائے) نے اردو اور فارسی کو ذریعہ اظہار بنایا اور انگریزوں کے اثر تلے انگریزی میں کچھ مضامین بھی لکھے حالانکہ وہ پنجابی تھے ۔ فیض احمد فیض ( پیدائش؛ کالا قادر، ضلع ناروال ، تعلیم ؛ مقامی مسجد ، سیالکوٹ ، لاہور ) نے بھی پنجابی کو چھوڑ ’ اردو‘ کو ہی ذریعہ اظہار بنایا ۔ سعادت حسن منٹو ( پیدائش ؛ سمبرالہ ، لدھیانہ ، تعلیم ؛ امرتسر ) نے بھی اسی زبان کو اپنی نثر کے لئے استعمال کیا ۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں بہت سے ادیب اس سے بھی آگے نکلے اور ملک راج آنند ( پیدائش ؛ پشاور، ابتدائی تعلیم امرتسر) ، احمد علی ( پیدائش ؛ دہلی، تعلیم ؛ علی گڑھ و لکھنئو ) اور راجہ راﺅ ( پیدائش ؛ میسور، تعلیم ؛ حیدرآباد ، مدارس ) جیسوں نے اپنی اپنی مقامی زبانوں کو تو چھوڑا ہی ، کثرت سے بولی جانے والی ہندی و اردو کو بھی نہ اپنایا ۔ انہوں نے انگریزی زبان کو ذریعہ اظہار بنانے کے رجحان کو پروان چڑھایا ۔
مسوری میں پیدا ہوئی انیتا ڈیسائی ( پیدائش ؛ جون 19377ء ، تعلیم ؛ دہلی ) نے بھی انہی انگریزی جوتوں کو پہنا جو ملک راج آنند وغیرہ پہن چکے تھے گو وہ ایسے والدین کی اولاد تھی جن میں ماں جرمن تھی جبکہ باپ بنگالی تھا ۔ گھر میں بنگالی اور جرمن پڑھنے والی انیتا نے نو دس سال کی عمر سے ہی انگریزی میں لکھنے کو اپنا شعار بنایا ۔ 1958 ء میں گجراتی اشوِن ڈیسائی کی بیوی بننے کے بعد اس کے چار بچوں کی ماں بنی ۔ 1963ء میں اس کا پہلا ناول ’ Cry The Peacock‘ سامنے آیا ۔ اس نے پندرہ سے زائد ناول لکھے جن میں سے وہ اپنے تین ناولوں کے لئے ’ بُکر انعام‘ کے لئے نامزد ہوئی ۔ ان ناولوں میں ’ Clear Light of Day، 1980 ء ‘ اور ’ Fasting, Feasting ، 1999 ء ‘ کے علاوہ 1983 میں شائع ہوا ’ In Custody‘ بھی شامل تھا ۔ ’ The Artist of Disappearance ‘ شاید اس کا آخری ناول ہے جبکہ اس کے افسانوں اور کہانیوں کا مجموعہ 2012 ء میں سامنے آیا ۔ 80 برس کی عمر کو پہنچتی انیتا ڈیسائی ، 2008 ء میں اپنے خاوند کی وفات کے بعد سے اب وہ امریکہ میں مستقل طور پررہائش پذیر ہے گو پہلے بھی وہ سال کا بیشتر حصہ ہندوستان سے باہر ہی گزارتی تھی ۔ وہ خود تو ’ بُکر انعام‘ حاصل نہ کر پائی البتہ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی ’ کرن ڈیسائی ‘ نے 35 سال کی عمر میں ڈایسپورا (diaspora) پر لکھے اپنے ناول ’ The Inheritance of Loss ‘ کے لئے 2006 ء میں یہ انعام پا چکی ہے ۔
انیتا کا ناول’ In Custodyy ‘ ’مرچنٹ آیوری پروڈکشنز‘ کی نظر میں آیا اور اس فلمساز کمپنی نے اسے 1993 ء فلم میں ڈھالا ۔ یہ کمپنی 1961ء میں ممبئی کی میمن برادری سے تعلق رکھنے والے فلمساز اسمعاعیل مرچنٹ (دسمبر1936ء تا مئی 2005ء ) اور امریکی ہدایت کار جیمز فرانسس آیوری ( پیدائش ؛ جون 1928ء ) نے قائم کی تھی ۔ ان کے ساتھ جرمن نژاد برطانوی ناولسٹ و سکرپٹ رائٹر روتھ پراوار جھبوالا ( مئی 1927ء تا اپریل 2013ء ) بھی شامل رہی ۔ اس کمپنی نے 40 سے زائد فلمیں بنائیں جن میں سے زیادہ تر جیمز آیوری کی ہدایت کاری میں بنیں ۔ گو وہ اپنی فلموں کی ہدایت کاری کے لئے ایک سے زائد بار آسکر کے لئے نامزد رہا لیکن اسے آسکر نہ مل سکا البتہ اس کی بنائی فلموں میں سے چھ نے آسکر جیتے ۔ روتھ نے اس پروڈکشن کمپنی کے لئے 23 فلموں کے سکرپٹ لکھے اوردو کے لئے آسکر بھی جیتے ۔
اسماعیل مرچنٹ بنیادی طور پر فلمساز تھا اور جیمز آیوری کے ساتھ مل کر پروڈکشن کمپنی بنانے سے پہلے 1960 ء میں ’ The Creation of Woman ‘ نامی مختصر دستاویزی فلم پروڈیوس کر چکا تھا البتہ اس نے کچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی ۔ ہدایت کاری کی ابتدا اس نے 1974ء میں ایک مختصر دستاویزی فلم ’ Mahatma and the Mad Boy‘ سے کی تھی ، 1983 ء میں ایک ڈاکوڈرامہ ’ The Courtesans of Bombay‘ بنایا ۔ فیچر فلم کی ہدایت کاری کی ابتدا ء اس نے ’ In Custody‘ کو فلمانے سے کی ۔ بعد میں اس نے کچھ اور فلموں کی ہدایت کاری بھی کی جن میں آخری 2002ء میں ’ The Mystic Masseur‘ تھی ۔
انیتا ڈیسائی کے ناول ’ In Custody ‘ کا مرکزی خیال 19477 ء میں ہوئے بٹوارے کے بعد ہندوستان میں ’ اردو‘ زبان کے انحطاط کے گرد بُنا گیا ہے جس کے لئے اس نے دو مرکزی کردار’ دیون ‘ اور ایک اردو شاعر ’ نور شاہجہان آبادی‘ کھڑے کئے ہیں ۔ دیون دہلی کے نزدیک ’ میر پور ‘ نامی ایک گاﺅں کے کالج میں ہندی پڑھاتا ہے ۔ کم آمدن کے ساتھ جس دیہاتی ماحول میں وہ اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ رہتا ہے وہ نچلے درمیانے طبقے اور غریبوں کا عکاس ہے ۔ دیون روزگارکے حوالے سے ہندی پڑھانے پر مجبور ہے جبکہ وہ اردو کا دلدادہ ہے اور خود بھی اردو میں شاعری کرتا ہے ۔ اردو شاعر ’ نور شاہجہان آبادی‘ دہلی میں مٹتے ہوئے حویلی کلچر میں کھنڈر ہوتی ایک حویلی میں اپنی دو بیویوں کے ساتھ رہتا ہے جن میں سے چھوٹی بیگم کا ماضی ’ بازارحسن‘ سے جڑا ہے ۔
ناول کا آغاز میر پور کے پس ماندہ اور غربت زدہ ماحول سے ہوتا ہے جس کے پس منظر میں ناول کا مرکزی کردار دیون مقامی کالج کے شعبہ ’ ہندی‘ میں نیم شہری و دیہاتی طلبہ کو ہندی پڑھانے پر مجبور ہے جنہیں یہ زبان پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسی بستی ہے جس میں زیادہ تر رہنے والے تانگہ بان ، ٹرک ڈرائیور ، چائے کے کھوکھے چلانے والے اور ایسے ہی دیگر لوگ آباد ہیں ۔ ان کی نئی نسل کو آرٹ ، فلسفے اور شاعری وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ انہیں ’ ہندی یا اردوزبان‘ سے بھی کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ انہیں کوئی اچھی نوکری دلانے میں معاون نہیں ہو سکتیں ۔ بے کسی کی اسی فضا میں دیون کی دلچسپی کی ایک سرگرمی اس طرح جنم لیتی ہے جب اس کے بچپن کا دوست ’ مراد‘ ، جو دہلی میں ایک اردو رسالے کا مُدیر ہے ، شاعری پر ایک خاص نمبر نکالنا چاہتا ہے ۔ یوں وہ دیون کو ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اردو کے زندہ اور ایک اہم شاعر ’ نور شاہجہان آبادی‘ کا انٹرویو کر سکے ۔ دیون اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے اب اپنی اتواریں بیوی اور بچے کے ساتھ گزارنے کی بجائے دہلی جا کر ’ نور‘ سے ملاقاتوں میں صرف کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ یوں اس کی گھریلو زندگی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ ان ملاقاتوں کے دوران نور، جسے وہ اردو شاعری کا حیات دیوتا سمجھتا ہے، کی غربت اورمصائب میں گھری زندگی اس کے لئے حیرانی کا باعث بنتی ہے ۔ یہ غریبی صرف مادی نہیں بلکہ نور کی گرتی ہوئی صحت کے علاوہ تخلیقی صلاحیت اور نفسیاتی حالت کی بھی ہے ۔ وہ جس ماحول میں گھرا ہے اس میں اس کی دونوں بیویوں کی رقابت ، شراب و کباب کی خاطر خوشامدی مداح اور بے عزتی رچی ہے ۔ دیون اسی ماحول میں نور کا انٹرویو کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے لئے ٹیکنالوجی سے ناواقف سادہ لوح دیون کو ایک سیکنڈ ہینڈ ٹیپ رکارڈر اور ایک نالائق ٹیکنیشین پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور نور ، اس کی بڑی بیگم کے لئے رقم ، انٹرویو کے دوران خوشامدی مداحوں کی تواضع کے لئے شراب و بریانی وغیرہ کے اخراجات بھی اٹھانے پڑتے ہیں لیکن نالائق ٹیکنیشین کی وجہ سے انٹرویو ریکارڈ نہیں ہو پاتا ۔ پورا ناول دیون اور نور کی بدقسمتی کی داستان بیان کرتا ہے ۔ ناول کا اختتام نورکی وفات پر ہوتا ہے جواس سے قبل اپنے کلام کا مسودہ دیون کے حوالے کر دیتا ہے ۔ ناول ان دو سماجی احوال کا عکاس ہے جو اپنی اپنی جگہ منفرد ہیں ؛ ایک میرپور کا قصباتی غربت زدہ ماحول جبکہ دوسرا نور کا کھنڈر ہوتا گرد و پیش ، جن پر یاسیت کی فضا نے چادر تان رکھی ہے ۔ ایسے میں انیتا نے دیون کی شکل میں امید کی ایک کر ن بھی وضع کی ہے جو ٹیکنالوجی کے اُس دور میں ، جو 1980ء کی دہائی کے آغاز میں اپنی بساط بچھا چکا تھا ، اردو کے ایک محافظ کی شکل میں موجود ہے جبکہ نئی نسل ’زبانوں ‘ کی جنگ سے بے پرواہ ، فنون لطیفہ کی ترویج سے کٹے ، دنیا میں پاﺅں پسارتی ٹیکنالوجی کے پیچھے دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ۔ یہ ناول اس بڑھتی ہوئی خود غرضی اور بے حسی کو بھی نشانہ بناتا ہے جو اس دور میں پھیل رہی ہے ۔ اس کے اظہار کے لئے اس نے دیون و مراد کی دوستی ، و ٹیپ ریکارڈر بیچنے والے اور نور کی چھوٹی بیگم کے کردار استعمال کئے ہیں ۔ یہ ناول شہری و قصباتی زندگی کے تفاوت کا عکاس تو ہے ہی لیکن دکھائے گئے ان معاشروں میں موجود منافقت اور تصنع کابھی پردہ چاک کرتا ہے ۔
یہ ناول ، گو ، کھلے طور پر 19800ء کی دہائی کے آغاز کی سماجی ’ پلٹ‘ کا مظہر ہے لیکن کئی ناقدین نے اس میں علامتیں بھی تلاش کی ہیں ۔ ان کے بقول انیتا ڈیسائی کا یہ ناول ہندی اور اردو کے درمیان ایک جنگ کا مظہر ہے ۔ یہ بدعنوانی و معوصومیت ، اچھائی و برائی ، وفاداری و دھوکہ دہی ، کامیابی و ناکامی اورامارت و غربت کے درمیان رگڑ کا عکاس ہے ۔ وہ مراد کے کردار کو ’ گرگٹ‘ سے تشبیع دیتے ہیں ۔ جب دیون اپنی بیوی کو میکے جانے کے لئے ریلوے سٹیشن پر چھوڑنے جاتا ہے تو گاڑی کی سیٹی بھی انہیں دیون کی زندگی میں ایک نئے پیغام کا عندیہ دیتی معلوم پڑتی ہے ۔ ایک اور جگہ جب نور پرچھتی پر جاتا ہے تو اس کے پالتو کبوتر اس پر جھپٹتے ہیں ۔ یہ ناقدان کبوتروں کو بھی اردو کے مداحوں کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ خیر یہ ان کا نکتہ نظر ہے ۔ مجھے اس ناول میں ایسی کوئی علامت نگاری نظر نہیں آتی جو مصنفہ نے اس میں ڈالنا چاہی ہو ۔ میرے نزدیک اس نے 1980ء کی دہائی کے آغاز کے زمانے میں ہندوستان کے دو مخصوص سماجوں کی سیدھی اور کھری حقیقت نگاری کی ہے ۔
لگ بھگ دو سو صفحوں کا یہ ناول بہت سست رفتاری سے آگے بڑھتا ہے اور بہت سی جگہوں پر یکسانیت کا شکار ہو جاتا ہے ۔ چھوٹی بیگم کا کردار زیادہ عمدگی سے لکھا جا سکتا تھا لیکن لگتا ہے کہ انیتا ڈیسائی کو ’ کوٹھوں‘ سے آئی جوان عورتوں، جو حویلیوں کی اس وقت زنیت بنتی ہیں جب حویلی کلچراور اردو ابھی زوال پذیر نہیں ہوئی ہوتی اور پھر یہ کہ وہ حویلی کو اولاد نرینہ بھی دے دیں اور پھر زبوں حالی کا بھی سامنا کریں ، کا کچھ زیادہ مشاہدہ نہیں تھا ، لہذٰا چھوٹی بیگم کا کردارقدرے کمزور ہے حالانکہ یہ ایک اچھا مفصل نفسیاتی کردار بن سکتا تھا ۔ ناول میں ایک کمی اور بھی بہت شدت سے کھَلتی ہے کہ اردو اور اس میں شاعری کے موضوع پر لکھے ہوئے اس ناول میں انیتا ڈیسائی ایسی شاعری تخلیق کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی جو ’ نور‘ کی شاعری کے نمونے بن سکے ۔ انگریزی میں اس نے جو چند اشعارلکھنے کی کوشش کی ہے وہ خالصاً انگریزی مزاج کے ہیں اور کسی طور اردو شاعری سے لگا نہیں کھاتے ۔
آئیے اب اسماعیل مرچنٹ کی ہدایت کاری میں بنی ، اس ناول پر مبنی ، ’ مرچنٹ آیوری پروڈکشنز‘ کی فلم ’ In Custody ‘ جس کا اردو اور ہندی میں نام ’ محافظ ‘ رکھا گیا تھا اور یہ 1993 ء میں بنائی گئی تھی ، پر کچھ بات کرتے ہیں ۔ میں نے یہ فلم پہلی بار 1990 ء کی دہائی کے وسط میں دیکھی تھی اور دیکھ کر خاصی مایوسی ہوئی تھی کیونکہ میں تو’ مرچنٹ آیوری پروڈکشنز‘ کی’ Heat and Dust ‘، ’A Room with a View‘ ، ’ Howards End اور ’ The Remains of the Day ‘ جیسی فلمیں دیکھنے کے عادی تھا ۔ میں نے اسے مظفر علی کی ’ گمان‘ اور ’ آگامان‘ جیسی ناپختہ ’ متوازی سنیما ‘ کی فلم جانا اور بھول گیا ۔ 2016 ء کے ابتدائی مہینوں میں کسی اردو کے شیدائی نے اسے ’ یو ٹیوب‘ پر ڈال کر پھر سے زندہ کیا اور’ یو ٹیوب‘ کے علاوہ نیٹ پراس پر لکھے گئے کچھ لمبے ریویو بھی دیکھنے میں آئے ۔ میں نے اپنے ’ Archive ‘ سے یہ فلم نکالی اور اسے پھر سے دیکھا کہ شاید اس فلم کے کچھ نئے معانی سامنے آ جائیں لیکن ایسا نہ ہوا ۔ مجھے یہ فلم اسی طرح ناپختہ لگی جیسی پہلی بار دیکھنے پر لگی تھی ۔ ہاں کچھ حقائق میرے سامنے ضرور آئے کہ یہ فیچر فلم کے حوالے سے اسماعیل مرچنٹ کی ہدایت کاری کی پہلی کاوش تھی اور یہ بھی کہ اس نے یہ جان لیا تھا کہ ہدایت کاری اس کے بس کی بات نہیں ، اس لئے آپ کو اس کی ہدایت کاری میں بنی تین چار فلمیں ہی دیکھنے کو ملیں گی ۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ یہ ششی کپور کی آخری فلم بھی تھی ، اس سے پہلے میں یہ سمجھتا رہا تھا کہ ششی کپور نے 1980ء کی دہائی کے وسط کے بعد فلموں میں کام چھوڑ دیا تھا ۔ چونکہ انیتا ڈیسائی کا ناول بھی میں نے اب ہی پڑھا ہے تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ ’ بُکر انعام‘ کے لئے نامزد بھی ہوا تھا اور یہ بھی کہ اس کا سکرپٹ لکھتے ہوئے ’ شاہ رخ حسین ‘ نے ’دہلی‘ کو ’بھوپال‘ میں بدل دیا ہے ۔ اس نے ایسا کیوں کیا ، میں اس کی وجہ نہیں جان سکا ۔ انیتا ڈیسائی نے اپنے2009 ء میں دئیے انٹرویو میں البتہ صرف اتنا کہا تھا کہ یہ آئیڈیا اسماعیل مرچنٹ کا تھا جبکہ اس نے ناول تو اسے پرانی دلِی سے جوڑا تھا جس میں اس نے اپنا سکول و کالج کا زمانہ گزارا تھا ( یاد رہے کہ ناول میں کئی جگہ دِلی کی جامعہ مسجد اور اس کے اطراف کا احوال کئی جگہ موجود ہے۔)۔ اسماعیل مرچنٹ نے فلم میں اور بھی کئی جگہوں پر ناول سے پہلوتہی کرتے ہوئے مناظر فلمائے جیسے دیون اور نور کا ایک پیر کے مزار پر جانا جس کے بارے میں نور کا کہنا تھا کہ اس کی شاعری اسی پیر کی دین ہے ۔ اسی طرح فلم میں نور کی دونوں بیگمات کی باہمی چپقلش جس طرح فلم میں شدت سے دکھائی گئی ہے وہ اصل ناول میں موجود نہیں ہے ۔
دو گھنٹے سے زائد دورانیے کی اس فلم میں ششی کپور کے ساتھ اوم پوری ( دیون) ، شبانہ آعظمی ( امتیاز بیگم) ، ننیا گپتا ( سارلا) ، ٹینو آنند ( مراد) اور پریکشت ساہنی (صدیقی ) بھی کام کرتے نظر آ تے ہیں ۔ پریکشت ساہنی مشہور اداکار بلراج ساہنی کا بیٹا ہے ۔ اس فلم کی موسیقی مشہور طبلہ نواز ذاکر حسین اورسارنگی نواز استاد سلطان خان نے ترتیب دی جبکہ فیض احمد فیض کا کلام فلم میں جابجا استعمال کیا گیا ہے( یہ ایک ایسا ’ شارٹ کٹ ‘ ہے جو بہت کھَلتا ہے ۔ اسماعیل مرچنٹ کو چاہیے تھا کہ وہ کسی اچھے شاعر سے کلام لکھوا کر فلم میں برتتا ۔ یہ کمزوری اصلاً تو ناول کی ہے جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں ۔) ۔ پس پردہ گلو کاری میں کویتاکرشنا مورتی ، سریش واڈکر ، ہری ہرن اور شنکر مہادیون شامل ہیں ۔ گو اس فلم نے 1994 ء کا ہندوستانی ’ نیشنل فلم ایواڈ ‘ جیتنے کے علاوہ ششی کپور کو بھی ’ سپیشل جیوری ایوارڈ ‘ دلایا ، لیکن اس فلم کی سب سے اہم خوبی اس کی آرٹ ڈائریکشن ہے جو ’سریش ساونت ‘ نے سر انجام دی تھی ۔
یہ تحریر لکھتے ہوئے میری نظر سے اپریل 19944ء میں کرائن جیمز کا لکھا ’ ریویو‘ بھی گزرا ، جو امریکی اخبار’ نیو یارک ٹائمز‘ میں چھپا تھا ، جس میں اس نے صحیح طور پر اس بات کی نشان دہی کی تھی کہ فلم غیر ضروری طوالت لئے ہوئے ہے ۔ اس نے دو ایسے مناظر کی نشان دہی بھی کی تھی جن میں ’ نور‘ کے خوشامدیوں کو اشعار پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔
انیتا ڈیسائی نے ، گو ، اردو کی تنزلی کو بٹوارے کے وقت سے ہی بھانپ لیا ہو گا لیکن اس پر اس طرح سے لکھنے کے بارے میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں ہی سوچا ہو گا کیونکہ اس سے پہلے وہ ’ Clear Light of Day ‘ لکھ چکی تھی جو1980ء میں شائع ہوا تھا ۔ یہ ناول نیم سوانحی ہے لیکن انیتا نے اس میں بھی بٹوارے ، پرانی دِلی ، مذاہب ، ثقافتوں اور زبانوں کی رگڑ کے تناظر میں بُنا تھا ۔ ’ In Custody ‘ کا قاری وہ تھا جو انگریزی پڑھتا تھا لہذٰا اس کا وہ اثر نہ ہو سکا جو اردو کی تنزلی کو روک لگانے میں تحریک پیدا کرتا ۔ اسماعیل مرچنٹ نے ناول کے شائع ہونے کے لگ بھگ دس سال بعد اسے فلم کی شکل میں پیش کیا اور بھلی بات یہ کی کہ اس کی زبان اردو رکھی اور انگریزی کو صرف ’ سب ٹائیٹلز‘ میں جگہ دی ۔ اس کے باوجود یہ فلم بھی ہندوستان میں اردو کی تنزلی کو روک لگانے میں کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکی ۔ ایسے میں مجھے اس کا ایک انٹرویو یاد آتا ہے جس میں اسے اردو کے دفاع کے لئے کچھ یوں بولنا پڑا تھا ؛
” اردو کو کوئی نہیں ختم کر سکتا کیونکہ اس کو بولنے والے بھلے اقلیت میں موجود مسلمان ہی کیوں نہ ہوں لیکن اس کو ہندی بولنے اور لکھنے والے خود باقی رکھے ہوئے ہیں ۔ ہندوستان میں بننے والی تمام کی تمام ہندی فلمیں نام کی ہندی فلمیں ہیں جن میں ہندی الفاظ گنتی کے ہیں ، باقی سب اردو ہی ہے، شاعری تو ساری کی ساری ہے ہی اردو میں ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور جب تک ’ پاپولر کلچر‘ میں اردو موجود ہے یہ ختم نہیں ہو سکتی ۔“
آج جب میں اسماعیل مرچنٹ کی اس رجائیت پسندی کو دیکھتا ہوں تو میرے لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے ۔ اردو کا لکھاری ( فکشن ، نان فکشن لکھے یا شاعری کرے ) بٹوارے کی لکیر کے دونوں اطراف میں ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔ جو ہے بھی اسے ناشر نہیں ملتا کیونکہ اس کی ترجیحات مختلف ہیں ۔ انڈیا میں فلمی سکرپٹ ’ رومن ‘ میں لکھے جاتے ہیں ، پاکستان میں فلم کا میڈیم ویسے ہی مر چکا ہے ۔ ایسے میں انڈیا کا اسماعیل مرچنٹ فلم بنائے یا مظفر علی ، ’محافظ ‘ یا ’جان نثار‘ ہی بن پائے گی ادھر سرمد صہبائی کو میر تقی میر کو ہی موضوع بنانا پڑتا ہے تاکہ ’ ماہِ میر ‘ بن سکے ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153869463446895