معدنیات کے زخائر پاکستانی حکومتوں کی توجہ کا مرکز کیوں نہیں بنے ؟
امریکہ ، روس اور چین افغانستان میں دنیا کہ بہترین اور قیمتی معدنیات کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی معدنیات کے زخائر بہت قیمتی ہیں ۔ لیکن پاکستانی حکومتوں کی توجہ easy money پر لگی رہی ۔ میٹرو اور اورنج ٹرین کے اربوں کے کمیشن ان کو بے چین کر رہے تھے ۔ چکوال میں ایشیا کہ سب سے بڑے Limestone کے زخائر پر منشا اور باقی سیٹھوں کو چڑھا دیا گیا۔ پہاڑوں کے پہاڑ limestone کے ایسے فارغ کیے جا رہے ہیں جیسے کل نہیں آنی ۔ اس سے وہاں کا ایکو بیلینس خراب ہو گیا ہے ۔ climate change کا خطرہ ہے ۔ پانی کہ زخائر ختم ہو رہے ہیں ۔ بس چند سیٹھوں کا اور اپنا پینک بیلنس اربوں میں چلا جائے ۔
میری انہی دنوں چکوال کہ ناظم سے ملاقات ہوئ اس نے بھی اچھی بڑی رقم ان فیکٹریوں سے لی اور منتھلیاں الگ ۔ میں نے کہا آپ ان سے چلیں چکوال کی ترقی ہی کروا لیں ۔ فرمانے لگے وہ اپنی ترقی کے لیے یہاں آئے ہیں ۔ ہماری چار سڑکیں ٹھیک کر دیں گے اور مزدوری کِہ مواقع فراہم کر دیں تو بہت احسان ہو گا ۔ پا غفور صاحب منشا اور ملک ریاض جیسے بدمعاش اور لٹیرے اس ملک کِہ دشمن ہیں ، میں نہیں ، میں تو پہلے ہی اس مافیا سے جان چُھڑا کر امریکہ میں سیاسی پناہ لیے ہوئے بیٹھا ہوں ۔
بلوچستان میں سینڈک کا پروجیکٹ چلا تانبا نکالنے کے لیے وہاں سے چینیوں نے سونا نکالا اور بھاگ دوڑے ۔ کانا دجال بھی چار پیسے کما گیا اور رئیسانی کے حرام کے پیسے دبئ میں کوئ کھا گیا ۔ چنیوٹ میں بھی شوباز نے ایک پہاڑ سے سونا نکلنے کا اعلان کیا پھر کافی پیسے ضائع کر کے پہاڑ پر ڈھکنا دے دیا کہ ابھی پکنے میں دیر ہے ۔ خیبرپختون خواہ میں بھی پی ٹی آئ کی حکومت نے اس معاملہ میں اچھی لُوٹ مار کی ۔ جہانگیر ترین کو سوات میں بہترین ماربل کہ زخائر کی لیز ملی ۔ دور دراز علاقوں چترال – گرم چشمہ کہ راستے میں گلابی رنگ کے پتھر کہ پہاڑ ہیں ان کو نہیں چھیڑا ۔ پاکستان سے اگر سارا ماربل بھی نکالا جائے تو چین کی ڈیمانڈ پوری نہیں ہو گی ۔ میں ۲۰۰۶ کا سال آزر بئجان میں تھا ۔ باکُو سے تیل کا پہلا بیرل نکلا تھا اب زمین پر زخائر ختم ہو گئے تھے ۔ deep sea سے بحیرہ قزوین سے تیل نکالنا تھا برٹش پیٹرولیم کو ٹھیکہ دیا گیا جو نہ صرف وہاں سے تیل نکال رہا ہے بلکہ پائپ لائین سے پورے یورپ میں تیل فراہم کر رہا ہے جو ۲۰۵۰ تک جاری ہے ۔ اسی پر پورا ملک چل رہا ہے ۔
میں آج سے کو چھ سال پہلے ہنزا تھا وہاں روبی پتھر کہ زخائر ہیں اس بُرے طریقے سے بلاسٹ سے پتھر کو پہاڑ سے توڑا جا رہا تھا کہ ۵۰ فیصد سے زیادہ ضائع ہو رہا تھا ۔ وہاں کسی چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیتے اور ملک کا بھی فائدہ اور وہاں کہ رہاشیوں کا بھی ۔ لیکن نہیں حلانکہ ہمزہ شاہراہ ریشم کہ بلکل اوپر ہے ۔ قیمتی زخائر ضائع کیے جا رہے ہیں ۔
یہ سارا معاملہ تب خراب ہوا جب سرداروں اور پرائیوٹ پارٹیز کے پاس ان کی لیزوں کا معاملہ آ گیا ۔ انہوں نے پھر اس کا ایسا حشر کیا جیسے بچے پتھر مار کر پھل توڑتے ہیں یا بندر سیب کھاتا ہے ۔ اگر باہر کی پارٹیوں کو ٹھیکے دیے جاتے تو ایک تو ان لٹیروں کو پیسہ کم ملتا اور جلدی نہ ملتا ۔ ادھر تو حکومتوں کو کمیشنوں کی فکر عوام سے ہزار گنا زیادہ ۔ ظلم ہے اس ریاست کہ ساتھ ۔
نئ آنے والی حکومت کی یہ ترجیح ہونی چاہیے کہ وفاق ان زخائر کی ملکیت لے ۔ غیر ملکی تجربہ کار کمپنیوں کو ٹھیکہ دیے جائیں اور فوج ان باشندوں کو تحفظ دے ۔ پوری فوج کا سالانہ بجٹ ان پروجیکٹز سے نکل آئے گا ۔ ویسے بھی وہ علاقے آجکل فوج کہ کنٹرول میں ہی ہیں ۔ فوج کو بجائے فوڈ مل ، عسکری بینک اور فوجی فرٹلائزر کہ اس طرح کہ پروجیکٹس میں آنا چاہیے تھا ۔
پاکستان میں مسئلہ ملائ کھانے کا اور quick bucks کا رہا ہے ۔ شریفوں کے بابو ارب پتی بن گئے ۔ عوام دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ۔ اب تو سوائے اس طرح کہ پروجیکٹ کے رہا بھی کچھ نہیں ۔ لہٰزا لگ جائیں اللہ اللہ کر کے ۔ میں تو یہی کہ سکتا ہوں کہ ۔
یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسبان اس کے
یہ چمن ہمارا ہے ہم ہیں نغمہ خواں اس کے
ہم سے جو ہو سکا تیرے لیے کر جائیں گے
تیری ناموس پہ حرف آیا تو مر جائیں گے۔
بہت خوش رہیں ۔ پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔