مدینے کی ریاست میں پہلا انتقال اقتدار
اسلام ضابطہ حیات ہے، اور اس کے پاس دنیا کا بہترین سیاسی نظا م ہے، اس کے تناظر میں اسلامی ریاست کی پہلی منتقلی اقتدار کو ہوتے ملاحظہ فرمائیں۔
جون 632 عیسوی حضورپاک جب اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔وہ کافی تکلیف کی حالت میں تھے، روایات کے مطابق انہوں نے اشارے سے کچھ لکھوانے کی خواہش کا اظہار کیا، گماں تھا، وہ جانشینی کے بارے میں کوئی ہدائت دینا چاہتے تھے۔ تاکہ ان کے بعد ممکنہ فتنہ و فساد پیدا نہ ہو۔ لیکن ان کے پاس جتنے بھی صحابہ کرام موجود تھے، ہر ایک نے ان کی سنی ان سنی کردی۔ اس ڈر سے کہ کوئی ایسا جانشین نامزد نہ کر دیں، جو ان میں سے کچھ کو قبول نہ ہو۔چنانچہ سب نے لیت ولعل سے کام لیابلکہ انہوں نے حضورپاک کے وقت آخرت ایسا رویہ اور ایسے کلمات ادا کئے۔جو آج توہین رسالت کے زمرے میں سمجھے جاسکتے ہیں۔ طبری کے مطابق کسی نے کہا، آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ اور سرسامی کیفیت طاری ہے۔جس کی وجہ سے (نعوذ باللہ) آپ غیر ارادی باتیں کر رہے ہیں آپ کیا لکھوانا چاہتے ہیں؟ آپ نے تنگ آ کر فرمایا، جاومجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ چنانچہ 8 جون کو آپ کی روح مبارک نکلتے ہی انصار کا ایک گروہ سعد بن عبادہ سقیفہ بنی ساعدہ میں اکھٹا ہو گیا۔ دوسری طرف حضرت علی، زبیر، طلحہ حضرت فاطمہ رض کے گھر جمع ہو گے۔ تیسری طرف مہاجرین حضرت ابوبکررض کے ہاں جمع ہو گے۔حضرت عمررض نے حضرت ابوبکر سے کہا، ہمیں انصاری بھائیوں کے پاس جانا چاہئے۔ انصاریوں نے تجویز کیا، کہ دو امیر ہونے چائیے، ایک انصار سے اور ایک مہاجروں سے (اسلامی اخوت واتحاد کی کوئی بات نہیں ہورہی)حضرت ابوبکر نے کہا، یہ ممکن نہیں ، ہم امیر ہونگے اور تم وزیر۔ عمر نے ابوبکر کی بیعت کر نے میں پہل کی۔ انصار میں سے کچھ نے کہا، ہم تو علی کی بیعت کریں گے۔ زیاد بن کلیب سے مروی ہے۔ عمر علی کے مکان پر آ ئے
وہاں طلحہ ،زبیر، اور دوسرے مہاجر موجود تھے، حضرت عمر نے کہا، چل کر ابو بکر کی بیعت کرو، ورنہ میں اس گھر کو آگ لگا کر تم سب کو جلا دوں گا حضرت زبیر تلوار نکال کر حضرت عمر کی طرف بڑھے۔مگر فرش پر پاوں الجھ جانے کی وجہ سے گر گے ا ور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی ، تب دوسرے لوگوں نے زبیر پر یورش کرکے ان کو قابو کر لیا۔ عبداللہ بن عبدالرحمان سے مروی ہے۔ ہر طرف سے لوگ آ آ کر ابو بکر کی بعیت کرنے لگے۔ اور قریب تھا، سعد کو روند ڈالتے۔عمر نے کہا، اللہ اس کو ہلاک کرے
اور اس کو قتل کر دو، سعد نے ھضرت عمر کی داڑھی پکڑ لی۔ عمر نے کہا اسے چھوڑو، اگر اس کا ایک بال بھی بیکا ہوا۔تو تمھارے منہ میں ایک دانت نہ رہے گاابو بکر نے کہا عمر خاموش رہو۔اس موقعہ پر نرمی برتنا زیادہ سودمند ہے۔ عمر نے سعد کو چھوڑ دیا۔ سعد نے کہا اگر مجھ میں اٹھنے کی طاقت ہوتی مدینے کی تمام گلی کوچے میں اپنے حامیوں سے بھر دیتا۔ تمھارے اور تمھارے ساتھیوں کے ہوش و حواس جاتے رہتے روایات میں لکھا ہے، سعد نے اس کے بعد کبھی ابو بکر کی امامت میں نماز نہ پڑھی۔ نہ ان سے کلام کیا۔ ابن ہشام، طبری اور ابن خلدون کے بیانات سے یہ حقیقت عیاں ہے، کہ ابھی رسول اللہ ص کا جسد خاکی دفنایا بھی نہ گیا تھا۔ کہ صحابہ کرام میں خلافت پر شدید اختلافات پیدا ہو گے۔ اس سلسلے میں شیعان علی کا اپنا موقف ہے۔ ان کے مطابق حضرت علی نے حضرت ابو بکر کی مجبورا بیعت کی تھی،اس لیے کہ حضرت فاطمہ کا گھر جلا دینے کی دھمکی دی گئی تھی ایک روائت میں لکھا ہے، کہ ابو سفیان علی کے پاس آ کر کہنے لگے، میں مدینے میں ایک عجیب شورش دیکھتا ہوں، جس کا حل صرف کشت و خون ہے۔ حکومت قریش کے سب سے کم تعداد والے قبیلے میں چلی گئی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“