مدینے کی فلاحی ریاست: عمران خان کا جھوٹ یا جہالت
پاکستان کی اسلامی جماعتیں ہی نہیں، دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں عوام سے اکثر اسلامی فلاحی ریاست کا وعدہ کرتی ہیں۔ لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے مذہب کا استعمال کرتے ہوئے انکو ذرا برابر شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اسکی تازہ مثال عمران خان کا وعدہ ہے کہ وہ مدینے والی اسلامی فلاحی ریاست تعمیر کریں گے۔معلوم نہیں انکا یہ نعرہ انکی روایتی جہالت کا اظہار ہے یا وہ حسب معمول کوگوں کو یاتھیا بنا رہے ہیں۔ آئیے اسلامی فلاحی ریاست والے دعوے کی حقیقت دیکھتے ہیں۔
پہلی بات، مذہب اسلام میں ریاست کا کوئی تصور نہیں لیکن بہتر ہے کہ سیاسی بحث کو مذہب سے دور رکھا جائے۔ مذہب کو سیاست میں لانا مذہب کی توہیں ہے جو مولوی اور عمران خان، نواز شریف اور ایسے دیگر سیاستدانوں کا کام ہے۔ دوسری بات، ریاست کی موجودہ شکل جدید سرمایہ داری نظام کی پیداوار ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور اس جدید سرمایہ دارانہ ریاست کے اندر مزدور تحریک اور سوشلسٹ نظریات کے باعث سامنے آیا۔ فلاحی ریاست کی بنیاد ہے شہریوں کے مابین برابری۔ آپ مذہب، صنف، ذات، رنگ یا طبقے کی بنیاد پر کسی سے امتیازی سلوک نہیں کر سکتے۔ جس ملک میں عورتوں کی گواہی آدھی اور اقلیتوں کے خلاف دو سو پچانوے سی ہو، وہاں فلاحی ریاست وجود میں نہیں آ سکتی۔
تیسری بات، فلاحی ریاست کا وجود عدم امتیاز کی بنیاد پر شہری حقوق کے ساتھ ہوتا ہے اور ریاست انکو بطور شہری حقوق فراہم کرتی ہے۔ مذاہب بشمول اسلام خیرات کی بات کرتے ہیں کیونکہ اُن وقتوں میں غربت سے نپٹنے کے یہی تصورات پائے جاتے تھے۔
آخری بات: آپ کی مرضی آپ عمران خان کے ہاتھوں یوتھئے بنتے رہیں یا سوشلسٹ نظریات کی جانب آئیں اور سچ مچ کی فلاحی ریاست کو ممکن بنائیں۔ یورپ کی فلاحی ریاستیں مزدوروں نے بنائی ہیں، کسی سپورٹس یا فلم اسٹار نے نہیں۔ پاکستان اور دیگر ملکوں میں بھی فلاحی ریاستیں عوامی جدوجہد سے بنیں گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔