::: ناول : مادھو لال حسین:::
:: ناول نگار: نین سکھ ::
ناشر۔ نیولائن پبلیکشنز، لاہور، پاکستان
صفحات: ۴۶۴
تحریر: احمد سہیل
یہ ناول مادھو لال شاہ حسین کی زندگی کے پس منظر میں لکھی جانے والی ناول ہے۔ جس کو سوانحی ناول بھی کہا جاسکتا ہے۔ اصل میں یہ ناول لاھور میں آسودہ خاک دو صوفیوں کی زندگیوں سے متاثر ہوکر نیل سکھ نےاسے معاصر کہانی یا کتھا میں تبدیل کردیا ہے۔ ناول نگار نے اپنی تخلیقی فراست و فطانت سے اور تخلیقی تجزیاتی ہنر کے ساتھ جنوبی ایشیا کے معاشرتی، ثقافتی، جمالیاتی اور سیاسی تاریخ کے تناظر میں ایک صوفی کے" جنون" کو " مابعد ماضی کی گمشدگی" [LAPSARIN] سے دینا کو لاتعلق کرکے دکھایا ہے۔ ناول نگار نے مادھو لال حسین کی زندگی کو تاریخ سے نکال کر ایک استعارے میں تبدیل کردیا ہے۔ اس ناول میں حقائق حساس اور جذباتی نوعیت کے ہونے کے ساتھ ساتھ اثر انگیز مایوسی، یاسیت لایعنی وجودیت ، طنز آمیزی اور تناقص کا احساس دلواتے ہیں۔ ناول کے واقعات کو پڑھکر قاری نطشے کی معاشرتی اور ثقافتی فکریات سے رجوع کرنے لگتا ہے۔ جہاں پر معاشرتی تضادات کے سبب معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجاتا ہے ۔ نین سکھ نے مادھو لال حسین کے زندگی کے حقائق کو اکٹھا کرکے ایک شاندار تخلیقی "رسائی " کے تحت ناول کے " لاتعلقی" کے مزاج کو اخذ کرکے اس ناول کا اصل مقولہ دریافت کیا ہے۔ یہ بڑے کمال کا ناول ہے۔ اس کا انداز نگارش دیگر عصری ناولوں سے مختلف اور اچھوتا ہے ۔ اس میں تاریخ نویسی اور تاریخ کاری کی افسانوی ہیت کی مخصوص شعریات کی جمالیاتی خوشبو بکھری ہوئی ہے۔
***شاہ حسین مادھو لال کا مرقعہ ذات اور ناول کا پس منظر ***
======================================
شاہ حسین المعروف مادھو لال حسین ایک صوفی اور پنجابی شاعر تھے ۔ شاہ حسین تصوف کے فرقہ ملامتیہ سے تعلق رکھنے والے صاحب کرامت صوفی بزرگ اور شاعر تھے، وہ اُس عہد کے نمائندہ ہیں جب شہنشاہ اکبر مسند اقتدار پر متمکن تھا۔
حضرت شاہ حسینؒ لاہوری 945ھ بمطابق 15388ءکو اندرون ٹکسالی گیٹ میں پیدا ہوئے آپ کے والد گرامی کا نام شیخ عثمان تھا جوکہ جولاہا تھے۔ شاہ حسین کے دادا کا نام کلجس رائے تھا جنھوں نے فیروز شاہ تعلق کے دور میں اسلام قبول کیا۔ آپ کاخاندانی نام ڈھاڈھا حسین تھا ۔ ڈھاڈھا پنجاب کے راجپوتوں کی ایک ذات ہے۔
شاہ حسینؒ جب عمر مبارک کے 511ویں برس میں داخل ہوئے آپ کو مادھو لال نامی ہندو برہمن سے عشق ہوگیا ۔جو کہ شاہدرہ کا رہائشی تھا شاہ حسینؒ مادھولال کے مکان کے گرد چکر لگاتے رہتے اور اندرون خانہ کی ساری باتیں باہر بیان کرتے آہستہ آہستہ مادھولال بھی رنگ شاہ حسین میں رنگا گیا اور گھر بار چھوڑ کر دامن شاہ حسین سے پیوستہ ہوگیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا ۔شاہ حسین نے آپ کا اسلامی نام محبوب الحق رکھا شاہ حسین کی نظر کرم کی بدولت مادھو جلد ہی تصوف کے درجہ کمال کو پہنچے۔ شاہ حسین کے حکم پر انہوں نے تیرہ سال مغل فوج میں ملازمت اختیار کی۔ ان دو افراد کا تعلق اتنا گہرا ہو گیا کہ عوام شاہ حسین کو مادھو لال حسین کے نام سے جاننے لگے، گویا وہ دونوں یک جان ہو گئے۔ قربت کا یہ گہرا تعلق جو ان کے درمیان پیدا ہوا، ان کی زندگی ہی میں بہت سی بدگمانیوں اور اختلافات کا باعث بن گیا۔ ہندوستانی تصوف کے ماہر جان سبحان لکھتے ہیں کہ ایک ہندو لڑکے اور مسلمان فقیر کا یہ انتہائی قریبی تعلق ان کے معاصرین کے نزدیک "قابل شرم" ہونے کی وجہ سے "قابل اعتراض کردار" کا مظہرتھا۔ جبکہ جان سبحان ان دو افراد کی درمیان تعلق کی اس "ناقابل صبرکشش" کو "عشق" قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح پنجابی تاریخ دان شفیع عاقل مادھو اور شاہ حسین کے اس تعلق کو "لا محدود محبت" کہتے ہیں اور اس تعلق کو بیان کرنےکے لیے زبان و بیان کے وہی پیرائے اختیار کرتے ہیں جو عام طور پر مرد اور عورت کے تعلق کو بیان کرنےکے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ "مادھو سے شاہ حسین کو پیار تھا اور خود مادھو بھی ان کو چاہتے تھے"۔وہ یہاں تک لکھتے ہیں کہ "شاہ حسین مادھو سے کسی صورت جدا ہونے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ 1008ھ میں حضرت شاہ حسین کا وصال ہوگیا، آپ کو شاہدرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ حضرت شاہ حسین کا مزار مبارک صدیوں سے باغبان پورہ لاہور شہر میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے جہاں ہرسال مارچ کے آخری ہفتہ میلہ لگتا ہے جوکہ میلہ چراغاں کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔