مدیحہ گوہر کا ’’جلوس‘‘
آر اے بازار لاہور کینٹ سے ساندہ تک جانے ولای لاہور اومنی بس بہت پہلے ڈبل ڈیکر (دومنزلہ) ہوا کرتی تھی۔ اس بس کا روٹ نمبر1 تھا۔ یہ لاہور میں اومنی بس کے روٹس میں سب سے نمایاں بس اس لیے تھا کہ اس کے روٹ میں طے ہونے والے بس سٹاپ لاہور کے پُرکشش علاقوں میں واقع تھے۔ گرجا چوک، راحت بیکری، فورٹریس سٹیڈیم، جِم خانہ کلب، سٹیٹ گیسٹ ہائوس، نہر کو عبور کرنے کے بعد جی او آر اور ایچیسن کالج کا نہایت بورژوا سرسبز وشاداب علاقہ، گورنر ہائوس، لارنس گارڈن، چڑیا گھر، واپڈا ہائوس، ملکہ کا بت (چیئرنگ کراس)، اسمبلی ہال، مال روڈ، مسجد شہدا، الفلاح بلڈنگ، الفلاح سینما، ریگل چوک، ہائی کورٹ، وائی ایم سی اے، انارکلی، اولڈ کیمپس، عجائب گھر، گورنمنٹ کالج لاہور، لاہور کارپوریشن اور سیکریٹریٹ۔ یہ لاہور کا وہ بڑا حصہ تھا جسے دیکھنے سے دوسرے شہروں سے بھی لوگ آتے۔ میرے لیے اس روٹ پر دن میں دو بار سفر کرناکسی عیاشی سے کم نہیں تھا۔ اس وقت اومنی بسوں کے مسافر یقینا زیادہ مہذب ہوتے تھے۔ نچلے، درمیانے حتیٰ کہ اوپری طبقے کے لوگ بھی اس شہری ٹرانسپورٹ سسٹم کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے۔ کینٹ کا رہائشی ہونے کے ناتے میں اپنے آپ کو لاہور کا ایک Privilegedشہری سمجھتا تھا۔ منیر چوک کے بس سٹاپ سے اپنی بس پکڑتا۔ دو سٹاپ کے بعد بس میں ایک خوب صورت، پُرکشش اور مسکراتی لڑکی چڑھتی تو اس کو دیکھ کر اس لیے بھی حیرانی ہوتی کہ اسے ہم نے واحد ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر دیکھ رکھا تھا۔یہ لڑکی گورنمنٹ کالج سٹاپ پر اترتی اور ہم اس خوبصورت مسکراتی پُروقار لڑکی کو دل ہی دل میں الوداع کہتے۔ مدیحہ گوہر۔ روزانہ کی یہ ہمسفر، بعد میں ہماری جدوجہد کی ساتھی نکلیں۔ اُن کا گھر ہمارے گھر کے قریب تھا، پڑوسی اور جدوجہد کے ساتھی، یہ بڑے کھرے رشتے ہوتے ہیں۔ اور جب یہ رشتے نظریات سے جڑے ہوں تو سونے پہ سہاگہ۔ مدیحہ گوہر سے جدوجہد کا رشتہ مزید اس لیے گہرا ہوا کہ اُن کی والدہ خدیجہ گوہر اُن سے بھی زیادہ جدوجہد کرنے والی نکلیں۔ اور یوں میں آنٹی خدیجہ گوہر کا زیادہ دوست بن گیا۔
سرور روڈ لاہور کینٹ پر واقع آنٹی خدیجہ گوہر کے گھر میں جنرل ضیاکی آمریت کے خلاف ایک نئی باگ ڈور ڈلی۔ مئی 1984ء میں مدیحہ گوہر نے یہاں معروف ڈرامہ نگار بادل سرکار کا ’’جلوس‘‘ سٹیج کیا۔ گھر کے لان میں ’’جلوس‘‘نکلا۔ بڑا دلچسپ منظر تھا۔ وہ جلوس جو ہم سڑکوں پر نکالنے کے لیے خفیہ میٹنگز کرتے تھے اور اگر جلوس کامیاب ہوجاتا تو نعرے اور تقاریر کے بعد ’’پولیس مقابلہ‘‘ کرنا لازم ہوتا، اس مڈبھیڑ میں چند ایک گرفتار ہوکر پس زنداں ہوجاتے اور چند ایک لڑتے لڑتے گلیوں میں غائب۔ اب یہ جلوس ’’اجوکا تھیٹر‘‘ نے ڈرامے کی شکل میں برپا کردیا۔ ’’اجوکا‘‘ جس کے معنی ہیں، آج کا۔ اس تھیٹر نے پاکستان میں مزاحمت کی ایک نئی ثقافتی بنیاد رکھی۔ گلیوں کا تھیٹر اجوکا۔ اجوکا اور مدیحہ گوہر۔ پاکستان کی مزاحمتی تحریک کی ایک نئی تاریخ کا عنوان بنا۔ ہم نے اس پلیٹ فارم سے ڈرامے دیکھے بھی اور پھر ان ڈراموں کو منعقد کرنے کے لیے اپنا حصہ بھی ڈالنا شروع کردیا۔
جنرل ضیا کا مارشل لاء اپنے عروج پر تھا۔ ایک دن مدیحہ گوہر نے کہا، ’’فرخ تمہارے جدوجہد کے زیادہ تر ساتھی اندرون لاہور کے ہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اجوکاتھیٹر کا ایک ڈرامہ اندرون لاہو رکی کسی گلی میں کریں۔‘‘میرے لیے یہ ذمہ داری خوشی کا باعث تھی۔ ایسی خوشی جو آمریت کو چیلنج کرنے سے اور خطرات سے بھرپور، جیل اور کوڑے اس خوشی کو پانے میں حاصل ہوسکتے تھے۔
میں نے جدوجہد کے ایک بے مثال ساتھی خالد بٹ کو مدیحہ گوہر کے اس پلان سے آگاہ کیا۔خالد بٹ نے اپنی بہن کے گھر کے سامنے موجود احاطے (ویڑھے) میں جگہ کی نشان دہی کی۔ رنگ محل کے پیچھے، محلے کا یہ ویڑھا ایسا تھاکہ جب اجوکا وہاں اپنا ذرامہ کرنے گیا تو مدیحہ گوہر کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ تقریباً دائرے کی شکل کا ویڑھا اور اردگرد مکان۔ رومن تھیٹر سے کم نہیں تھی یہ جگہ کسی سٹریٹ تھیٹر کے لیے۔ مدیحہ گوہر کے اجوکا تھیٹر نے وہاں اپنا معروفِ زمانہ ڈرامہ ’’مریا ہویا کتا‘‘ سٹیج کیا۔ گھروں کی کھڑکیوں میں خواتین کے سر اور ڈرامہ کے اردگرد بچے، بوڑھے اور جوان، حتیٰ کہ احاطے میں موجود مسجد کے امام صاحب بھی یہ ڈرامہ دیکھنے چلے آئے۔
اجوکا نے پاکستان میں عوامی ثقافت کو جس قدر طاقت بخشی، اس کا تمام تر سہرا مدیحہ گوہر کو جاتا ہے۔ ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) گیارہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد، جس کا قیام جنرل ضیا کی آمریت کو گرا کر پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی بحالی کرنا تھا۔ اجوکا اس ایم آر ڈی کی غیراعلان شدہ اتحادی جماعت جیسا مقام پاگیا۔
مدیحہ گوہر نے جیسے اپنے اجوکا کی بنیاد رکھتے ہوئے پہلا ڈرامہ جلوس منعقد کیا۔ اسی طرح وہ لاہور کی سڑکوں پر جلوس نکالتیں، ریاستی اداروں کے ڈنڈوں اور بندوقوں سے نبردآزما ہو جاتیں۔ مدیحہ گوہرنے ثقافت اور سیاست میں ایک مزاحمت کی شناخت کے طور پر اپنا منفرد اور شان دار مقام پایا۔1987ء میں پہلا فیض امن میلہ، پاکستان کی یادگار تقریبات میں شمار ہوتا ہے۔ اس امن میلے میں ’’اجوکا‘‘ نے ایک ڈرامہ پیش کیا۔ اس ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ پاکستان کے آج کے حالات کی مکمل تصویر ہے، جب ایک کردار چیخ چیخ کرکہتا ہے، ’’میں بم چول کھانے نیں‘‘ (مجھے بم چاول کھانے ہیں)۔ یہ ڈائیلاگ سماج کی دہشت زدہ صورتِ حال کا نچوڑ ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد میرے دماغ میں یہ ڈائیلاگ گونج اٹھتا ہے۔
مدیحہ گوہر سے اس سیاسی اور نظریاتی جدوجہد کا تعلق آئے روز بڑھتا گیا۔ اور یہ تعلق تب یکدم مزید بڑھا جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ وہ لندن میں جلاوطن شاہد محمود ندیم کی شریک حیات بن گئی ہیں۔ شاہد محمود ندیم نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاالحق کی فوجی آمریتوں کے خلاف جو جدوجہد کی تھی، اس نے میرے جیسے نوجوانوں کو اُن کا مداح بنا ڈالا۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب شاہد محمود ندیم کی مزدور یونین کے اعلان پر پورے ملک کے پی ٹی وی سینٹرز میں لوگوں نے اپنے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ لیں۔ ہم نے جب سرکار کے ٹیلی ویژن پر نیوزکاسٹر کے بازو پر بندھی سیاہ احتجاجی پٹی دیکھی تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس احتجاج کا بانی شاہد محمود ندیم تھا۔ اور پھر اس خونی آمریت کے پنجوں سے بچنے کے لیے انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔ مدیحہ گوہر نے جب اس بہادر نوجوان سے شادی کی تو ہمارے لیے یہ باعث فخر خبر تھی۔
مدیحہ گوہر زندگی بھر طاقتور لوگوں، نظام اور حاکموں کے خلاف لڑتی رہیں، مگر اُن کے چہرے کی مسکراہٹ کبھی غائب نہ ہوئی۔ جیسے ویتنام کا عظیم انقلابی رہنما ہوچی منہ کہتا ہے کہ ’’جو رقص کرنا جانتے ہیں، وہی لڑنا جانتے ہیں۔‘‘ مدیحہ گوہر چاہتیں تو ٹیلی ویژن اور فلم سکرین پر لڑکیوں کی عشق ومحبت کا کردار بن کر چھائی رہتیں، مگر نہیں، وہ محکوم طبقات کا کردار بن کر تمام عمر حاکموں کے نظام کے خلاف لڑتی رہیں۔ انہی کے اجوکا نے ایک مرتبہ اپنے ڈرامے میں استاد دامن کی شاعری سے یہ الفاظ شامل کیے:
دنیا ہن پرانی دے نظام بدلے جان گے
آقا بدلے جان گے تے غلام بدلے جان گے
میرے جیسے ایکٹوسٹ نے جب یہ ڈرامہ دیکھا تو مزید جدوجہد کرنے پر مائل ہوئے۔ وہ پاکستان کی سمیتا پاٹیل تھیں۔ وہ تاعمر جس طرح عوامی حقوق کے لیے ثقافتی اور سیاسی حوالے سے حاکمانہ نظام کے خلاف لڑتی رہیں، اسی طرح زندگی کے آخری تین سال کینسر کے موذی مرض کے خلاف مسکراتے ہوئے لڑتے لڑتے اپنے مداحوں کا ایک جلوس اپنے پیچھے چھوڑ گئیں۔ اسی لان میں جہاں اُن کا پہلا ڈرامہ جلوس برپا ہواتھا، اب وہاں اُن کا جسدِ خاکی رکھا تھا۔ زندگی کا آخری جلوس۔
“